بچپن میں ہم شہزادی اور شہزادے کی کہانیاں پڑھا کرتے تھے
جس میں بہادر شہزادہ تمام آفات، جنوں، اور جادوگروں سے لڑ کر شہزادی کو بچاتا تھا
اور کہانی کا اختتام اس جملے پر ہوتا تھا
"اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے "
جب عملی زندگی میں آئے تو پتہ چلا کہ اصل کہانی اس جملے کے بعد شروع
👇
ہوتی ہے
یہ "ہنسی خوشی" کا دورانیہ مانندِ حباب بہت مختصر ہوتا ہے
پھر کسی داستان میں رحمدل شہزادہ ظالم دیو ثابت ہوتا ہے تو کہیں مہربان شہزادی، سنگدل جادوگرنی میں تبدیل ہو جاتی ہے
یہ سب نہ ہو تو ان کے تعلق کے بیچ، شک ،انا، بدگمانی اور خود غرضی کے ناگ سرسرانے لگتے ہیں، جنہیں مارنا
👇
بہادر شہزادے کے بس میں ہوتا ہے نہ شہزادی کے
اور تعلق زہر سے نیلا ہو جاتا ہے
سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلق اور قید میں فرق ہوتا ہے
ہاتھ تھامنے اور، مٹھی میں بند کرنا دو مختلف چیزیں ہیں
کسی رشتے کو جب شک، انا، بدگمانی اور خود غرضی کے ناگ ڈسنا شروع ہوجائیں تو
👇
مروت، وفا، خدمت اور ایثار کے تریاق کا استعمال کریں
زندگی فیری ٹیل نہیں ہوتی
اسے خوبصورت بنانے کے لیے دل کا لہو درکار ہوتا ہے
جہلم کا سںب سے بڑا قبرستان کسی مسلمان نے نہیں وقف کیا تھا۔ لیکن وقف کرنے والے کی زندگی کا خاتمہ مسلمان ہونے پر ہوا تھا
محسنٍ اسلام محسنٍ جھلم ٹنڈل رام پرشاد بہت ھی کم افراد نے یہ نام سُنا ھوگا
یہ واقعہ ھے 1933کا
جناب ٹنڈل رام پرشاد نواب آف دکن
👇
جسکی تقریبا” پونے دو مربہ زمین جھلم میں موجود تھی اور انکی زیادہ تر اراضی دکن بھارت میں موجود تھی انکی ایک رہاٸش جو کہ اس زمانے میں بہت عالیشان رہاٸش گاہ باغ محلہ نزد صرافہ بازارجھلم میں برلبٍ دریاٸے جھلم یہ عمارت ابھی بھی واقع ھے
نواب آف دکن ٹنڈم رام پرشاد ایک انتہاٸی
👇
رحم دل اور درویش صفت انسان تھا
گو کہ یہ شخص انتہاٸی امیر کبیر اور نواب خاندان کا اکلوتا وارث تھا جو کہ سونے کا چمچ لیکر پیدا ھوا تھا
اہل جھلم میں صرف چند افراد ھی جانتے ھونگے، نواب آف دکن اکثر اوقات اپنی اراضی دیکھنے دکن سے جھلم تشریف لاتے اور ان دنوں بھی وہ جھلم ڈھوک عبداللہ
👇
مدینہ کا بازار تھا ، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے
۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا ۔ غلام جو ابھی بچہ ہی تھا وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا
تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا بس یہ غلام ہی باقی تھا جسے خریدنے میں کوئی
👇
بھی دلچسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام پوری قیمت پر بھی بکا تو وہ اسے فورا" بیچ دے گا۔
👇
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے۔ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے کا ہی دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لی۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی
مکہ سے ابو حذیفہ مدینہ
👇
ایک لومڑ کی دُم پہ پتھر آ گرا، دُم کٹ گئی۔
ایک دوسرے لومڑ نے جب اسے دیکھا تو پوچھا! یہ تم نے اپنی دُم کیوں کاٹی؟
دُم کٹا لومڑ بولا اس سے بڑی خوشی و فرحت محسوس ہوتی ھے۔ایسے لگتا ھے کہ جیسے ہواؤں میں اُڑ رھا ہوں۔واہ!! کیا تفریح ہے!
بس گھیر گھار کر اس دوسرے لومڑ کو اس نے
👇
دم کٹوانے پر راضی کر ہی لیا
اس نے جب یہ دم کٹائی کی مہم سر کرلی تو بجائے سکون کے شدید قسم کا درد محسوس ہونے لگا
پوچھا میاں! جھوٹ کیوں بولا مجھ سے؟
پہلا کہنے لگا جو ہوا سو ہُوا اب یہ درد کی داستان دوسرے لومڑوں کو سنائی تو انہوں نے دُمیں نہیں کٹوانی اور ہم دو دم کٹوں کا مذاق
👇
بنتا رہے گا!
بات سمجھ میں آئی تو یہ دونوں دم کٹے پوری برادری کو یہ خوش کن تجربہ کرنے کا کہتے رہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لومڑوں کی اکثریت دم کٹی ہوگئی۔ اب حالت یہ ہوگئی کہ جہاں کوئی دم والا لومڑ دکھلائی دیتا اسکا مذاق اُڑایا جاتا!
بہت سے مسلمانوں میں یہ ایک عام عادت ہے کہ جب ہم اللہ کی نعمتوں کو دوسروں پر عطا ہوتے دیکھتے ہیں تو 'ماشاء اللہ' کہتے ہیں، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ نظر بد سے محفوظ رکھے گا۔ تاہم یہ صحیح نہیں جیسا کہ شیخ بدر العتیبی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں۔ جب بات ہماری اپنی اور اپنی ذات کی ہو 👇
تو ہمیں 'ماشاء اللہ' کہنا چاہیے لیکن جب دوسروں کی برکات کی بات آتی ہے تو سنت یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے برکت مانگیں، جیسے 'اللہم بارک' اور 'بارک اللہ لہو' وغیرہ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کوئی
👇
ایسی چیز دیکھے جس کی وہ تعریف کرتا ہو تو ان کے لیے برکت کی دعا کرے۔
میں روٹی کھاتے ہوئے بغور اُس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہا تھا اپنی ایک روٹی پکانے کے بعد اُس نے دو زائد روٹیاں پکا کر دسترخوان میں لپیٹ دیں
"جانے کس یار کے لیے روٹی پکاکر رکھتی ہے دوپہر کے وقت دسترخوان خالی ہوتا ہے کچھ دن پہلے ہی تو اچار ڈالا تھا اچار کا ڈبہ
👇
بھی خالی ہوتا جا رہا ہے۔ میرے بچے کی کمائی جانے کس پر لُٹا رہی ہے"
پچھلے کمرے سے سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں اس کی سرگوشیاں میرے دل کو کھاتی جاتی ہیں۔ اماں کی آواز میرے کانوں میں گونجی بدلی بدلی تو وہ مجھے بھی لگ رہی تھی، دوپٹے کی بکل مارے نکھری صبح جیسی کنگھی چوٹی کئے،
👇
سیدھی مانگ کے ساتھ چمکتا چہرہ میں نے آج کتنے دنوں کے بعد غور سے اُسے دیکھا، اس کا چہرہ یوں چمکتا تو نہ تھا۔ ناآسودگی اور کاموں کے بوجھ سے تھکی ہاری ایک عورت یوں مطمئن رہنے لگی تھی کچھ تو تھا جو اس کے چہرے کی چمک کاباعث بن گیا تھا۔ بستر پر بچھی چادریں صاف رہنے لگیں تھیں،
👇
کتاب: تاریخِ اسلام
محمد رسول اللہ ﷺ
عنوان: حرب فجار (یعنی پہلی شرکت جنگ)
مقام عکاظ میں ہر سال بڑا بھاری میلہ لگتا تھا‘ اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے گھڑ دوڑ ہوتی تھی ‘ پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے‘ عرب کے تمام قبائل جنگ جوئی میں حد سے بڑھے
👇
ہوئے تھے اور بات بات پر تلواریں کھینچ جاتی تھیں
عکاظ کے میلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اور قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی‘اولاً تو دونوں قبیلوں کےسمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا‘لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں
👇
نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اور جدال و قتال کا بازار گرم ہوا‘یہ لڑائی ماہ ذوالقعدہ میں ہوئی اسی لیے اس کا نام حرب فجار مشہور ہوا‘کیونکہ اہل عرب کے عقیدے کے موافق ماہ ذوالقعدہ میں لڑنا سخت گناہ کا کام تھا‘اس مہینے میں جاری شدہ لڑائیاں بھی ملتوی ہو جاتی تھیں
👇