حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمتہ اللہ علیہ
کا ایک عجیب عارفانہ نکتہ
ایک دفعہ حاضرین مجلس سے فرمانے لگے آپ کہاں لمبے لمبے مراقبے اور وظائف کرو گے میں تمہیں اللہ کے قرب کا مختصر راستہ بتائے دیتا ہوں، کچھ دن کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، قرب کی منزلیں کیسے طے ہوتی ہیں:
+
پہلا اللہ پاک سے چُپکے چُپکے باتیں کرنے کی عادت ڈالو، وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی جائز کام کرنے لگو، دل میں یہ کہا کرو، اللہ جی ۔۔
1۔ اس کام میں میری مدد فرمائیں ۔۔۔
2۔ میرے لئے آسان فرما دیں ۔۔۔
3۔ عافیت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔۔۔
4۔ اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں
+
یہ چار مختصر جملے ہیں مگر دن میں سینکڑوں دفعہ اللہ کی طرف رجوع ہو جائیگا۔ اور یہ ہی مومن کا مطلوب ہے کہ اسکا تعلق ہر وقت اللہ سے قائم رہے۔
دوسرا انسان کو روز مرہ زندگی میں چار حالتوں سے واسطہ پڑتا ہے
1۔ طبیعت کے مطابق
2۔ طبیعت کے خلاف
3۔ ماضی کی غلطیاں اور نقصان کی یاد
+
۔ مستقبل کے خطرات اور اندیشے۔
جو معاملہ طبیعت کے مطابق ہو جائے، اس پر "اللهم لك الحمد ولك الشكر" کہنے کی عادت ڈالو۔
جو معاملہ طبیعت کے خلاف ہو جائے، تو "انا لله وانا اليه راجعون" کہو۔
ماضی کی لغزش یاد آجائے تو فورا "استغفراللہ" کہو۔
مستقبل کے خطرات سامنے ہوں تو کہو:
+
"اللهم اِنى أعوذ بك من جميع الفتن ما ظهر منها وما بطن"۔
شکر سے موجودہ نعمت محفوظ ہو گئی۔
صبر سے نقصان پر اجر محفوظ ہو گیا اور اللہ کی معیت نصیب ہو گی۔
استغفار سے ماضی صاف ہو گیا۔
اور اللهم انى أعوذ بك سے مستقبل کی حفاظت ہو گئی۔
تیسرا شریعت کے فرائض و واجبات کا علم حاصل
+
کر کے وہ ادا کرتے رہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتے رہو ۔
چوتھا تھوڑی دیر کوئی بھی مسنون ذکر کر کے اللہ پاک سے یہ درخواست کر لیا کرو :
اللہ جی ۔۔۔ میں آپ کا بننا چاھتا ہوں، مجھے اپنا بنا لیں، اپنی محبت اور معرفت عطا فرما دیں۔ چند دن یہ نسخہ استعمال کرو، پھر دیکھو کیا سے کیا ہوتا ہے
+
لوگوں کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ کچھ اور فرشتے بھی ہیں جو اہلِ ذکر کی تلاش میں زمیں میں گھومتے رہتے ہیں، جب وہ محوِ ذکر لوگوںکی جماعت کو پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو بآواز بلند پکارتے ہیں: اپنے مقصود کی طرف آ جاؤ۔ سو وہ آتے
+
ہیںاور انھیں آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں۔ (جب یہ فرشتے واپس جاتے ہیں تو)اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں: جب تم نے میرے بندوں کو الوداع کہا تو وہ کیا کر رہے تھے؟ وہ کہتے ہیں: جب ہم نے ان کو چھوڑا تو وہ تیری تعریف کر رہے تھےتیری بزرگی بیان کر رہے تھے اور تیرا ذکر کر رہے تھے۔ (آسانی کے لیے
+
اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی گفتگو مکالمے کی صورت میں پیش کی جاتی ہے): اللہ تعالی: کیا انھوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے: نہیں۔ اللہ تعالی: اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو (ان کا رویہ کیا ہو گا)؟ فرشتے: اگر وہ تجھے دیکھ لیں تو تیری تعریف کرنے، بزرگی بیان کرنے اورذکر کرنے میں زیادہ سختی اور
+
جمعہ کے دن ہمارا سیمینار تھا جسکا موضوع تھا
Halloween Identity
اس دن پہلی دفعہ اس پر ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ یہ کس قدر خوفناک فتنہ ہے جو تیزی سے ہماری مسلم سوسائٹی میں پھیل رہا ہے اور آج تو حیرت کی انتہا نا رہی جب فیسبک پہ تصاویر دیکھیں کہ سعودیہ میں یہ تہوار بہت زور وشور سے
+
منایا جارہا ہے استغفِرُاللہ
یہاں اکثر لوگ کہہ اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ مختلف Costumes اور Masks پہنتے ہیں اور چاکلیٹس اور کینڈیز ہی تو بانٹتے ہیں بچوں میں تو آخر مسئلہ کہاں ہے ؟
اب یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اسکی تاریخ کو سمجھیں کہ آخر یہ تہوار آیا کہاں سے ہے اور اسکا مقصد کیا ہے ؟
+
Halloween actually is Hallow and Evening" which slowly became Hallow-even" and later Hallow-een" Hallow" means to make or set apart as holy
The origins go back to the Celts the ancient tribes of Europe.
لفظ Halloween دو الفاظ کا مجموعہ ہے Hallow + evening۔ Hallow کا مطلب ہے
+
ایک بار ٹی ٹی(ٹرین ٹکٹ ایگزامینر) جو ممبئی سے بنگلور جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر تھا نے ایک لڑکی کو پکڑ لیا جو ایک سیٹ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔ اس کی عمر تقریباً 13 یا 14 سال تھی
ٹی ٹی ای نے لڑکی سے اپنا ٹکٹ پیش کرنے کو کہا۔ لڑکی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا کہ اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے
+
ٹی ٹی ای نے لڑکی کو فوراً ٹرین سے اترنے کو کہا۔
اچانک پیچھے سے آواز آئی، میں اس کی قیمت ادا کروں گی۔ یہ آواز تھی مسز اوشا بھٹاچاریہ کی، جو پیشے سے کالج کی لیکچرار تھیں۔
مسز بھٹاچاریہ نے لڑکی کے ٹکٹ کی ادائیگی کی اور اسے اپنے پاس بیٹھنے کی درخواست کی۔
اس نے اس سے پوچھا کہ اس
+
کا نام کیا ہے۔
"چترا" لڑکی نے جواب دیا۔
"اپ کہاں جا رہے ہیں؟"
لڑکی نے کہا، ’’میرے پاس جانے کو کہیں نہیں ہے۔
"تو چلو میرے ساتھ۔" مسز بھٹاچاریہ نے اسے بتایا۔ بنگلور پہنچنے کے بعد، مسز بھٹاچاریہ نے لڑکی کو ایک این جی او کے حوالے کر دیا، جس کی دیکھ بھال کی جائے گی
+
ہم پانچ چھے دوست روم میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ایک دوست نے آپنا واقع شئیر کیا
کہتا ہے کے جب میں نیا نیا سعودیہ آیا تو بلکل دل نہیں لگ رہا تھا روزانہ گھر کال کر کے بہانے بناتا کے کام مشکل ہے ڈیوٹی بہت ہے ۔ کفیل تنگ کرتا ہے کھانا اچھا نہیں ملتا وغیرہ وغیرہ کہ کسی
+
بھی طرح گھر والے مجھے پاکستان بلا لیں پر گھر والے کسی بھی بات میں آ نہیں رہے تھے انہی دنوں میں میرے قریب کا ایک لڑکا پاکستان چھٹی جا رہا تھا اس نے پوچھا اگر پاکستان کچھ بھیجنا ہے تو لے لینا میں لیتا جاؤں گا جس دن اس نے جانا تھا میں نے ایک خبز کا پیکٹ لیا اور اس کو دے دیا
+
(یہ روٹی ہی ہوتی ہےجو پلانٹ میں تیار کی جاتی ہے جو سعودیہ میں ہر بقالہ کریانے کی دوکان سے مل جاتی ہے پر پاکستان سے نئے جانے والے کے لیے کھانی مشکل ہوتی کیونکہ اس کا ذائقہ ہمارے ہاں جو روٹی بنتی اس سے کافی مختلف ہوتا ہے)
کہتا ہے میں نے اس ارادے سے خبز گھر بھیجا کے ان کو احساس ہو
+
سیلاب کی تباہ کاریاں جب تک آپ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں آپکو کبھی اندازہ نہیں ہوسکتا کہ پانی اپنے پیچھے کیسی کیسی دکھی داستانیں چھوڑ کر گزرتا ہے ۔ سندھ میں تو پانی گزرا نہیں اب بھی کھڑا ہے ۔ خلقِ خدا کیلیے بےلوث کام کرنا آپکی اصل آزماٸش ہے ۔ زرا سی خودنماٸی اور
+
میں کا ایک چھوٹا سا لفظ آپکو لے ڈوبتا ہے ۔ اس لیے کچھ بتانے یا لکھنے سے پہلے ربِ کریم سے معافی کا طلبگار ہوتا ہوں ۔
آجکل میرا موباٸل فون نمبر سوشل میڈیا پر موجود ہے اور لوگوں کو اجازت بھی ہے کہ جب دل چاہے فون کرلیں ۔ اندرون سندھ سے ایسے ایسے فون آتے تھے کہ ایک دن اپنی بیگم کے
+
ساتھ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر نکل پڑا ۔ اپنے محدود وساٸل میں جو کچھ بن پڑا ہم کرتے رہے مگر واپسی میں بہت دل برداشتہ تھا ۔ جو کام ریاست کے کرنے کے ہیں وہ ریاست نہیں کر رہی ۔ جو کام فوج کے نہیں ہیں فوج وہ کررہی ہے حالانکہ فوج پانی کی نکاسی میں اپنی بات ریاست سے منوا کر لوگوں
+
میرے مولا تیری بندی وہ دنیا چھوڑ آئی ہے
وہ شازیہ خشک تھیں
دو روز قبل معمول کی ہفتہ وار درس کی محفل تھی
ایک خاتون نےدو تین بار ہاتھ آٹھایا کہ مجھے بھی کچھ بات کرنا ہے
میں نےکہا پروگرام کےآخری حصےمیں آپ کو موقع دیا جائےگا
وہ سامنے شرکاء کے ہمراہ فرشی نشست پر تھیں
+
درس کے بعد میں نے سمٹتے ہوئے اپنے برابر صوفے پر ان کے لیےجگہ بنائی وہ جھجک رہی تھیں۔اصرار پر آگئیں
درمیانہ عمر کی سرخ وسفید باحجاب خاتون نے تین نصیحتیں کیں۔۔نماز کی پابندی
غیبت نہ کریں اور
استغفار کو لازم پکڑ لیں
پھر انھوں نے استغفار کی برکت بتاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا کہ
+
میرا نام شازیہ خشک ہے
میں ہر کنسرٹ میں اسٹیج پر جانے سے پہلے استغفار ضرور پڑھتی تھی
دل تو کہتا تھا کہ گانا بجانا گناہ ہے مگر مجبوری تھی کہ یہ میرا پیشہ بھی تھا
جب جنید جمشید تبلیغ سے وابستہ ہوئے تو دل مضطرب رہتا تھا کہ مسلمان ہونے کا کوئی تو حق ادا کر جاؤں
ایک دن وہ تذکیر کا
+