پیارے پاکستانیوں!
میری اس تحریر سے آپ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے لیکن تقسیم ہند پر کبھی کبھی مجھے بہت حیرت ہوتی تھی تو سوچا تھوڑی تحقیق کرنی چاہیے۔
اکثر مشہور و غیر مشہور ہندو دانشور, مفکرین اور نامہ نگاروں کا یہ پختہ خیال ہے کہ مسلمانوں نے ہندستان کو ⏬
تقسیم کروایا۔ وہی اس کے تنہا ذمہ دار ہیں ۔ جب کہ اکثر وبیشتر مسلمان دانشور, علماء اور مفکرین کا خیال ہے کہ ہندستان کو ہندؤوں نے تقسیم کروایا کیونکہ وہ مسلمانوں کو ان کا حق دینے کے لیے راضی نہیں تھے۔
اکثر و بیشتر بلکہ تقریبا تمام لوگوں کا یہی خیال ہے۔ جبکہ میرے خیال میں حقیقت ⏬
اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہندستان نہ ہندؤں نے تقسیم کروایا نہ مسلمانوں نے بلکہ ہندستان کو انگریزوں نے تقسیم کروایا۔
اور اس کے لیے اسلام کا غلط استعمال کیا۔اور اپنی اس سازش کو انگریزوں نے انتہائی عیاری, چالاکی , ہوشیاری اور مکاری کے ساتھ نافذ کیا۔⏬
ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ ڈیوائڈ اینڈ رول (Divide & Rule) یعنی قوموں اور ملکوں دونوں کو تقسیم کرکے حکومت کرنے کی پالیسی انگریزوں اور دشمنان اسلام کی ایک مشہور پالیسی ہےجس ۔ پالیسی پروہ ابھی تک گامزن ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال 2011 ع میں سوڈان کی تقسیم ہے۔⏬
لہذا انہوں نے جاتے جاتے سوچا کہ اگر اتنا بڑا ملک ہندستان ایک رہا۔ ہندو مسلمان ایک ساتھ رہے ۔ تو مستقبل میں انڈیا دنیا کا سب سے طاقتور ملک بن سکتا ہے۔ مسلمان اور ہندو آرام , سکھ چین سے رہیں گے۔ لہذا جاتے جاتے دونوں کو کمزور کرنے خصوصا مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے تقسیم ہند ⏬
ضروری ہے کیونکہ سلطنت انہوں نے مسلمانوں سے ہی چھینی تھی ۔ اس سے ہندستان کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ ہندستان بھی کمزور ہوگا اور مسلمانوں کی بھی متحدہ قوت ختم ہوجائے گی اور وہ بھی کمزور ہوجائیں گے۔
لہذا انہوں نے ایک مکمل پلان بناکے یہ کھیل کھیلا۔ اور انڈیا کو تقسیم کردیا۔⏬
اور ہندو لیڈران جو تقسیم کے لیے پہلے راضی نہیں تھے ۔ ان کو بھی بعد میں تقسیم کے لیے راضی کر لیا۔ کیونکہ ان کو انگریزوں نے سمجھایا کہ اگر مسلمان ساتھ رہے تو تم پھر ہندستان پر تنہا حکومت نہیں کرسکتے ہو۔ لہذا ہندو بھی تقسیم کے لیے راضی ہوگئے۔
میری دوسری دلیل یہ ہے کہ چلیے میں مان⏬
لیتی ہوں کہ تقسیم ہند مسلمانوں کا مطالبہ تھا جیسا کہ اکثر بتلایا جاتا ہے اور ہم مانتے بھی ہیں۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انگریزوں نے مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید و حمایت کیوں کی؟
کیا وہ مسلمانوں کو اتنا ہی چاہنے لگے تھے؟
آخر وہ اچانک مسلمانوں کے اتنے ہمدرد کیسے⏬
ہو گئے؟
حالانکہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں بالخصوص مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے , ہیں اور رہیں گے۔ ہندستان میں سلطنت انہوں نے مسلمانوں سے چھینی تھی۔ اور سب سے زیادہ انگریزوں کی مخالفت مسلمانوں نے ہی تھی۔
آزادی کی تحریک سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کی اور سب سے⏬
زیادہ قربانیاں بھی انھوں نے ہی دی۔ وغیرہ۔ لہذا وہ ایسا کوئی بھی کام کر ہی نہیں سکتے تھے جو مسلمانوں کے مفاد میں ہو۔ جس سے مسلمانوں کی مصلحت وابستہ ہو۔معلوم ہوا کہ انھوں نے یہ کام مسلمانوں کی محبت یا مصلحت و مفاد میں نہیں بلکہ مسلمانوں کی دشمنی , عداوت و بغض میں کروایا۔⏬
کیونکہ ان کو پورا یقین تھا کہ اس میں مسلمانوں کا سراسر نقصان ہے ۔ فائدہ بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ اتحاد طاقت ہے جبکہ افتراق کمزوری و ضعف ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی و ہندؤوں کی مصلحت, فائدہ کے لیے پاکستان بنوایا تاکہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی طاقت ⏬
کو توڑ دیں ان کو کمزور کر دیں۔ جو آج بالکل واضح ہے اور ہر کوئی اس کا مشاہدہ کر رہا ہے۔
میری تیسری دلیل یہ ہے کہ پاکستان بنانے کا مقصد اسلامی ملک بنانا نہیں تھا بلکہ ایک لادین جمہوری ملک بنانا تھا۔
اور اس پر پاکستان بنتے ہی کام شروع کر دیا گیا جس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے ⏬
کی اخلاقیات کو دیکھ کر کر سکتے ہیں۔
دوستو!
یہ میری ذاتی رائے ہے اور تحقیق کہ آخر پاکستان کا پہلا وزیر قانون کسی ہندو جوگیندر ناتھ منڈل کو کیوں بنایا گیا۔ اور برطانوی جنرل فرینک والٹر میسوری کو پہلا چیف آف آرمی اسٹاف کیوں منظور کیا جس نے فلسطینیوں کے خلاف جنگ لڑی اور ہندستان کی⏬
خلافت تحریک کو کچلا۔اور ایک قادیانی محمد ظفر اللہ خاں کو وزیر خارجہ کیوں بنایا گیا؟
میری چوتھی دلیل یہ ہے کہ!
تقسم نیک نیتی پر کیوں نہ کی گئی؟
بنگال دینا تھا تو سارا دیتے، اگر سارا نہیں دینا تھا تو پنجاب سارا پاکستان کو ملنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان سے تو ہمارا خشکی کا ⏬
کوئی بارڈر ہی نہیں تھا؟ وہاں بحث کیوں نہ کی گئی؟
اس کی اور بھی دلیلیں ہیں اور جو لوگ فکری جنگ پر کتابوں کا مطالعہ کر چکے ہیں وہ اس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
لیکن بہرحال مجھے اتنا یقین ہے کہ اس میں انگریز کی سازش شامل تھی اور وہ ہی ہم بھگت رہے ہیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ❤️🙏❤️
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
"آخر ہم ہیں کون"
دوستو!
کچھ نادانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دین صرف چند فرائض و واجبات پر عمل کر لینے کا نام ہے۔ نماز پڑھ لی، روزے رکھ لیے، حجِّ بیت اللہ کے ساتھ ہر سال ایک عمرہ کر لیا اور زکوٰۃ کے نام پر کچھ رقم غریبوں اور مسکینوں کو دے کر فارغ ہو گیے⏬
گیے۔ ایسے جاہلوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اِن باتوں کے علاوہ ہم سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں ہوگا۔ اِسی لیے بہت سے نمازیوں اور روزے داروں بلکہ حاجی صاحبان کو جھوٹ بولتے، مکاری کرتے، ناجائز طریقے سے تجارت کرتے، امانت میں خیانت کرتے، گالی گلوج کرتے، سودی کاروبار کرتے⏬
رشوت خوری کرتے، ناپ تول میں کمی کرتے اور بہت سے ایسے کاموں میں مبتلا دیکھا جاتا ہے جن کی مذہبِ اسلام میں ایک ذرّے کے برابر ایک لمحہ بھر کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسے لوگ نماز، روزہ اور حج و زکوۃ کا اہتمام کرکے، سر پر ٹوپی رکھ کر یا عِمامہ باندھ کراور چہرے پر ڈاڑھی سجا کر⏬
پیارے پاکستانیوں!
بنگلہ دیش بننے کا اہم کردار فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب ہیں جن کا تعلق ہزارہ کے ’ترین‘ قبیلے سے ہے۔ ان کے والد ’میرداد خان‘ برٹش آرمی میں ’ہڈسن ہارس‘ رجمنٹ میں وائسرائے کمیشنڈ آفیسر تھے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان آرمی کا سربراہ انگریز ⏬
آفیسر لیفٹیننٹ جرنل ڈوگلس گریسی تھا جسے 1951ء میں ریٹائر ہونا تھا۔ اُس وقت پاکستان آرمی میں سینئر ترین فوجی آفیسر میجر جنرل محمد اکبر خان اور ان کے بھائی میجر جنرل محمد افتخار خان تھے جنہیں گریسی کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف بننا تھا، لیکن 13 دسمبر 1949ء کو لاہور سے کراچی آتے ہوئے⏬
ان کا طیارہ نامعلوم وجوہ کے بنا پر تباہ ہوگیا۔
جس میں ان کے ماتحت بریگیڈیئر شیر خان اور دیگر چوبیس افسران فوت ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی میجر اکبر 1950ءمیں ریٹائر ہوگئے، ان دونوں بھائیوں کا تعلق چکوال کے منہاس راجپوت گھرانے سے تھا۔ ان دونوں بھائیوں کے راستے سے ہٹ جانے کے ⏬
اسٹیبلشمنٹ کا پی ڈی ایم سے عشق کا بخار اگر اتر گیا ہو تو یہ بہترین وقت ہے کہ خود احتسابی کی جائے۔ جو لوٹ مار کرنی تھی کر لی اور جو خان صاحب کے خلاف شازشیں کی گئیں وہ نہ صرف چکنا چور ہو گئیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ پر ہی الٹی پڑ گئیں اور الٹی بھی ایسی پڑیں کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔⏬
جو کچھ گزشتہ آٹھ نو مہینوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوا اُس نے پاکستان کی فوج کے امیج کو بہت متاثر کیا۔ اب ملک کی اسٹیبلشمنٹ میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ امپورٹڈ حکومت سے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ضرور سبق سیکھا ہو گا۔ماضی کی غلطیاں اب نہیں دہرائی جائیں گی۔⏬
ہمارا کوئی حال نہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ایسی لڑائیوں اور بحثوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہمیں روز بروز تباہی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ہماری معیشت انتہائی خستہ حال ہے ، ہمارا طرز حکمرانی نہایت خراب، نہ انصاف کی فراہمی نہ کوئی میرٹ۔⏬
آج ایک اور بیماری پر بات کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکی ہے۔
"بحث"
بحث سے ہمارا مقصد سچائی تک پہنچنا نہیں ہوتا بلکہ ذاتی مفاد کی بنیاد پر قائم موقف کو ہر صورت درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے بحث کرنے کے جو طریقے اپنا رکھے ہیں دنیا اِن کی ایک فہرست بنا👇
کر مدت ہوئے رد کر چکی ہے مگر ہم نہ صرف ابھی تک اِن سے چمٹے ہیں بلکہ اپنی تخلیقی قوت سے اِن میں جدت بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔
مثلاً فرض کریں آپ کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جس نے کوئی قانون توڑا ہے، وہ یہ بات تسلیم بھی کرتا ہے کہ اُس نے قانون توڑا ہے مگر اس کے باوجود مصر ہے👇
کہ قانون توڑنے کی جو سزا کتاب میں لکھی ہے وہ اسے نہیں دی جا سکتی۔
ایسا شخص جب اپنے دفاع میں تاویلیں تراشے گا تو سب سے پہلے وہ آپ پر ذاتی حملہ کرے گا اور کہے گا جنابِ والا آپ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے سزا ملنی چاہئے، میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔👇
پیارے پاکستانیوں!
ایک لیڈر اور چاہیئے !
جس شخص نے بھی یہ تحریر لکھی ہے
درد دل سے ایک پڑھے لکھے پاکستانی کے دل کا حال سنایا ہے۔
سنگا پور 1965ء تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا
زمین دلدلی، ویران اور بنجر تھی۔
لوگ سست، بےکار اور نالائق تھے
یہ صرف تین کام کرتے تھے👇
بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے
چوری چکاری کرتے تھے
بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے اور بس۔
ملائیشیا ان سے بہت تنگ تھا
بڑا مشہور واقعہ ہے
تنکو عبدالرحمن کے دورمیں سنگا پور نے آزادی مانگی اور پارلیمنٹ کے کل 126 ارکان نے سنگاپور
کے حق میں ووٹ دے دیے۔👇
بل کے خلاف ایک بھی ووٹ نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کا کہنا تھا ہم نے ان بےکار لوگوں اور دلدلی زمین کو اپنے پاس رکھ کر کیا کرنا ہے اور یوں سنگا پور آزاد ہو گیا۔
یہ قدرت کی طرف سے سنگا پور کے لیے پہلا تحفہ تھا۔
دوسرا تحفہ اللہ تعالیٰ نے اسے 'لی کوآن یو' کی شکل میں دیا👇