میاں بیوی بستر پر لیٹے سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ اچانک بیوی بولی:
" سنو ! کیا تم میرے مرنے کے بعد دوسری شادی کر لو گے"؟
شوہر موبائل پہ نظریں گاڑے
" نہیںبیگم۔ تمہیں پتہ ہے میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ میں دوسری شادی نہیں کرونگا"
بیوی فکرمند لہجہ میں
"لیکن تم اتنی لمبی زندگی
👇
تنہا بھی تو نہیںگزار سکتے،شادی تو تمہیں کرنا ہی ہو گی جانو"
شوہر حیرت سے بیگم کو دیکھتے ہوئے
" او ہو بیگم تم بھی نہ ، دیکھا جائے گا ۔ اگر ضروری ہوا تو کر لوں گا، ڈونٹ وری"
بیوی دکھ بھری آواز میں
" کیا تم واقعی دوسری شادی کر لو گے" ؟
شوہر گڑ بڑا کر
" بیگم ! ابھی تم خود ہی تو
👇
زور دے رہی تھی"
بیوی زرا نرم لہجے میں سرجھکا کر بولی
" اچھا
کیا تم اسے اسی گھر میں لاؤ گے"؟
شوہر پھر سے موبائل میں مصروف بولا
"ہاں میرا خیال ہے ہمارا گھر کافی بڑا ہے اور اسے یہیں رہنا ہو گا"
بیوی
"کیا تم اسے اسی کمرے میں رکھو گے"؟
شوہر
"ہاں کیونکہ یہی تو ہمارا بیڈ روم ہے"
👇
بیوی
" کیا وہ اسی بیڈ پر سوئے گی "؟
شوہر
"بھئی بیگم ظاہر ہے اور کہاں سوئے گی"
بیوی
" اچھا کیا وہ میری جیولری اور میرے کپڑے استعمال کرے گی"؟؟
👇
شوہر
نہیں ۔۔ اسے یہ جیولری پسند نہیں ہے اور تمہارے کپڑے اسے پورے نہیں آتے کھلے ہوتے ہیں
زندگی کو خوبصورت اور آسان ترین بنانےکے لیے "اہل مغرب" کی کل جد و جہد کا نچوڑ پیش خدمت ہے
Personality Development.
پرسنیلٹی ڈیولیپمنٹ کی فیلڈ میں ایک کانسپٹ بہت ہی معروف ہے جسے Minimalism،
کہا جاتا ہے یہ بڑا ہی دلچسپ ہے اس کا معانی و مقصد یہ ہے کہ انسان روز مرہ
👇
زندگی میں کم سے کم سامان حیات کے ساتھ جینے کی skill حاصل کرے،
*ماہرین کے مطابق ہر کامیاب انسان ذاتی زندگی میں Minimalist approach کے ساتھ ہی کوئی بڑا ہدف یا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے،
کپڑوں کے دس دس جوڑوں کے بجائے دو سے چار جوڑوں پر اکتفا کرنا،
رہائش کے لئے سادہ رہائش گاہ میں
👇
قیام کرنا
سفر و حضر میں عام سی سواری کو ترجیح دینا وغیرہ
ماہرین کے نزدیک با مقصد انسان کے لیے لگژری لائف ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس کو Maintain یا برقرار رکھنے میں پیسہ اور وقت برباد کرنا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ کسی برتر مقصد سے خود کو دور کر لے،
مزید یہ کہ انسان اپنی ذات پر
👇
مسجد سے ایک انوکھا اعلان ہوا اور سننے والا ہر بندہ دنگ رہ گیا
اعلان یوں تھا کہ مسجد کے قریب ہی ایک ریڑھی پہ مختلف ریسٹورنٹ کا بچا ہوا سالن دستیاب ہے. وہ غریب اور نادار لوگ جو سالن پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے برتن لے آئیں اور سالن فی سبیل اللہ لے جائیں.
مارے تجسس کے
👇
میں بھی مسجد کی طرف چل دیا کہ دیکھوں آخر ماجرا کیا ہے
میں جیسے ہی وہاں پہنچا تو مرد و زن کا ایک ہجوم برتن لے کر پہنچا ہوا تھا۔ کوئی سالن لے کے گھر کو جا رہا تھا تو کوئی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا
ریڑھی پہ تین پتیلے پڑے ہوۓ تھے، ایک پتیلے میں دال دوسرے میں قورمہ اور تیسرے میں
👇
مختلف اقسام کی مکس سبزیوں کا سالن رکھا ہوا تھا
تھوڑی ہی دیر میں اس کے تینوں پتیلے خالی ہو گئے
سالن لے جانے والوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی اور وہ سب دعائیں دیتے ہوۓ جا رہے تھے
میں سالن بانٹنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ آئیڈیا اس نے کہاں سے لیا تو اس
👇
ان سے آٹوگراف لینے کیلئے حسیناوں کی لائن لگ جاتی تھی،
وہ حقیقی معنوں میں ہیرو تھے،وہ اسکواش کھلاڑی تھے، انہوں نے اپنے کیریئر میں 8 مرتبہ ورلڈ اوپن ریکارڈ اور چھ مرتبہ برٹش اوپن جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا.
ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی اسکواش کھیل میں پاکستان کی حکمرانی کا
👇
پچاس سالہ دور ختم ہوا.
جان شیر خان جو بہت ساروں کی جان تھا، پاکستان کا شیر تھا اور خان و شان تھا.
برطانیہ کی ہیتھرو ائیرپورٹ پر ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہجوم امڈ آتا تھا.
یہ تب کی بات ہے جب اس کا نام تھا، فریم تھا، شہرت تھی، میدان تھا اور جوانی تھی.
اب مگر
وہی جان شیر خان
👇
دن بھر مسجد کے ایک کونے میں دیدہ عبرت بنے سر جھکائے پڑے ہوتے ہیں.
کوئی ان سے آٹوگراف لینے نہیں آتا، کوئی ان کے ساتھ فوٹو بنوانے نہیں رکتا،
نمازیوں کیلئے وہ ایک زہنی بیمار شخص ہیں، سپارہ پڑھنے آنے والے بچوں کی تفریح کیلئے ایک پاگل.
جان شیر خان پارکنسن کی بیماری میں مبتلا ہیں
👇
میں جب اپنےگھر سے دفتر کیلئے نکلتا ھوں،تو مین روڈ پر آنے کے لیئےمجھےدو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں
آخری والی گلی کےبائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ھےجسکےباہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتا ھے
یہ نہ کسی سےبات کرتا ھےنہ چلتا پھرتاھے
بس چارپائی پر پڑا
👇
کھانستا رہتا ھے
اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ھے
تو پھر کھانسنے لگتاھے
یہ اس گھر کا چوکیدار ھے،
لیکن میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں مجھےحیرت ہوتی ھےکہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آگئےتو کیا یہ چوکیدار انہیں روک پائےگا؟
اس روز بھی میں نےگاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار
👇
کھانستا ہوا نظر آیایہ میری روز کی روٹین ھےچوکیدار کی چارپائی کےبعد مین روڈ شروع ہوجاتی ھے لہذا میں نے مین روڈ پرگاڑی چڑھائی اور آئینےمیں اپناجائزہ لیا،پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میری منزل آگئی،میں شہر کےایک بڑےاور متوسط علاقےمیں معروف موٹیویشنل اسپیکر کا خطاب سننےآیا تھا
👇
وتر میں ہم ہر روز الله سے ایک وعدہ کرتے ہیں
اور وہ وعدہ بھی عبادت کی سب سے آخری ایک رکعت میں ہوتا ہے
دعائے قنوت ایک عہد ہے الله سبحانہ و تعالی کے ساتھ
ایک معاھدہ ہے
ایک وعدہ ہے
الّٰلھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ
اے الله
ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں
👇
وَنَسْتَغْفِرُکَ
اور تیری مغفرت طلب کرتےہیں
وَنُؤْمِنُ بِکَ
اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں
وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ
اور تجھ پر ہی توکل کرتےہیں
وَنُثْنِی عَلَیْکَ الْخَیْر
اور تیری اچھی تعریف کرتےہیں
وَنَشْکُرُکَ
اور ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں
ولا نَکْفُرُکَ
اور ہم تیرا انکار نہیں کرتے
👇
وَنَخْلَعُ
اور ہم الگ کرتے ہیں
وَنَتْرُکَ مَنْ یّفْجُرُکَ
اور ہم چھوڑ دیتے ہیں اس کو جو تیری نا فرمانی کرے
اللھُمَّ ایّاکَ نَعْبُدُ
اے الله ! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں
وَلَکَ نُصَلّیْ
اور تیرے لئے نماز پڑھتے ہیں
وَنَسْجُدُ
اور ہم تجھے سجدہ کرتے ہیں
وَاِلَیْکَ نَسْعٰی
👇