مَردوں کے جرگے میں عورت ذات کی گالی ہٹادینے کے بعد اس دن گاؤں کی پنچائیت میں وہ دوسرا فیصلہ تھا جسے سب نے قبول کیا
انہوں نے اپنے مُردے چارپائیوں پر سمیٹے اور انہیں رات کے اندھیرے میں وڈیروں، صوبیداروں، کرنلوں، جرنلوں، امراء، شرفاء اور ایوانوں میں بیٹھے والوں کے دروازوں پر
👇
چھوڑ آئے

دورانِ فیصلہ وہ سبھی جانتے تھے کہ عین ممکن ہے
وہ اپنے مُردے پھر سے نہیں دیکھ سکیں گے
گوکہ عورتوں کی فریاد اس روز بھی دبائی گئی جبکہ مائیں سبھی پیاروں کے ہونٹ اور ماتھے چومنا چاہتی تھیں
مگر وہ مرد بضد تھے سو انہوں نے اس فیصلے پر عمل کرلیا

اگلے روز یہ ایک انہونی
👇
بات تھی کہ قریب ہر بڑے نامور حکمران کے دروازے پر دن چڑھے ایک لاش لیٹی ہوئی تھی
پہلے پہل امراء سٹپٹائے
پھر انہوں نے تھانیداروں کی موجودگی میں وہ لاشیں ٹھکانے لگادیں
چارپائیاں واپس نہیں کی گئیں
مگر اگلی بار کے حادثے میں جہاں لاشیں تقسیم ہوئیں اور اُسی فیصلے پر عمل کیا گیا
👇
وہیں مُردوں کا بڑا حصہ تھانیداروں کے گھروں پر بانٹ دیا گیا
صوبیداروں اور تھانیداروں کی بیویاں لاشیں دیکھ کر چیخنے لگیں
حکمرانوں کے گھروں پر مامور نچلے طبقے کے ملازمین افسردہ ہوگئے
کرنلوں جرنلوں کے ڈرائیور چپ رہنے لگے

مگر اُس فیصلے کی وبا پھوٹ چکی تھی
وہ ایک عدد مخصوص
👇
طریقہ کار گاؤں سے ہوتا ہوا شہر در شہر پھیل گیا
کوئی بھوک سے مرتا لوگ اس کی لاش وزیر اناج کے دروازے پر چھوڑ آتے
کوئی واردات کے دوران مارا جاتا تو چپ چاپ رات کے اندھیرے میں اس کی لاش وزیرِ خزانہ کی کوٹھی کے آگے بچھادی جاتی
بم دھماکوں کے مُردے اپنے بکھرے اعضاء سمیت بنا گوروکفن
👇
مسلح افواج کے بنگلوں اور ایوانوں کے آگے بچھادئے جاتے
بات بڑھ رہی تھی
وزیرِ ریلوے کے گھر پر ٹرین کی زد میں آکر کچلی جانے والی بکریاں بھی کوئی چھوڑ گیا

تعفن پھیل رہا تھا
ایسی بے بسی کی موت مرنے والے انسانوں اور مویشیوں کو ان کے لواحقین دفنانے کے بجائے چارپائیوں پر لادے امراء
👇
شرفاء کے دروازوں پر چھوڑ آتے
یہ ایک چپ چاپ احتجاج تھا
یہ واقعی ایک خاموش لبوں کا نوحہ اور بین تھا جس میں لوگ سڑکوں پر نہیں نکلے
وہ گھروں میں رہے اور انہوں نے اپنے مردے واپس لینے سے انکار کردیا
یا پھر وہ چاہتے تھے کہ ان کے جسموں میں روحیں واپس لوٹائیں جائیں تو ہی وہ مانیں گے
👇
منافع خوروں کے چارپائیوں کے کاروبار عروج پکڑ گئے اور اسی سال حکومت کو ایک کڑوڑ پینتیس لاکھ چارپائیاں ایسے ہی ملیں جیسے بنا جنگ کے مالِ غنیمت ملتا ہے

کھیل کھل رہا تھا
سب لوگ وجہ جان گئے تھے
حکومت کی باتوں پر عوام کان نہ دھرتی
دراصل یہی ایک حل تھا جس پر عمل شروع ہو چکا تھا
👇
جب بھی کسی منصب پر فائز انسان کے گھر کے باہر لاش ملتی اس گھر کے مکین جان جاتے ان میں سے ایک ضرور اس سانحےکا قصور وار ہے
بچےپوچھتے کیا آپ بھی اس حادثے میں ملوث ہیں؟
لوگ ایسے امراء کی اولادوں سے بات نہ کرتے
جرنیلوں کی بیویاں ان سے روٹھ گئیں

جرگے کے فیصلے کا ردّعمل ظاہر ہونے لگا
👇
سب ٹھیک ہوتا نظر آتا
لوٹ مار رک گئی پولیس نے رشوت سے ہاتھ اٹھادئے
سپہ سالار دعا کرتے کہ کاش کوئی لاش ان کے گھر کے آگے سے نا ملے
عدلیہ نے قانون فروشی ترک کردی
وزیر غلہ گھر گھر راشن بانٹتا نظر آتا
مشیر بار بار فون گھماتے کہ فلاں فلاں جگہ معاملہ حل ہوجانے میں دیری کیوں ہے
👇
مگر پھر بھی بیچ بیچ میں کہیں منافع خور کسی بستی یا ویران محلے میں ایک بم پھوڑ دیتے تاکہ چارپائیاں بکتی رہیں
ہاں چارپائیاں بکتی تھی اور پھر رات کے اندھیرے میں لاشیں بانٹ دی جاتیں
یہی نوحہ تھا یہی پرسہ تھا
انصاف ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں اور فوجی دستوں کے امیروں کے حلق میں ہاتھ
👇
ڈال کر باہر انڈیلا جاتا ہے
ایسے راہ پڑا نہیں ملتا
یہ جدوجہد تھی بھیک نہیں سو کسی نے ہاتھ نہیں پھیلائے بلکہ اپنے اپنے مُردے بچھانے شروع کردئے
مگر یہ کبھی کبھار کا دھماکہ، گولی بارود اور قتل وغارت بدستور چل رہی تھی

اور پھر جرگے میں تیسرا فیصلہ قبول ہوا
اس پر عمل درآمد قدرے
👇
مشکل تھا مگر لوگ اب بھی بضد تھےان کے جسموں پر انصاف کے بال اُگ آئے تھے
پھر اس تیسرے فیصلے پر عمل کاوقت آن پہنچا
ایک مشہور وزیر کی موت پر جب اسے دفنانے کا وقت ہوا اچانک کہیں سے عوام کا ریلا نمودار ہوا اور انہوں نے پرزور اعلان کیا کہ اسے کوئی نہیں دفنا سکتا
یہ ایسے ہی پڑا رہے گا
👇
جب تلک یقین نہ ہوجائے کہ اب اگلی بار سبھی کچھ تھم جائے گا اور کوئی بم بلاسٹ نہیں ہوگا
اور کوئی قتل نہیں ہوگا
پہلے اس مجمعے پر آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی
پھر پانی کی بوچھاڑ کھول دی گئی
جب منظر صاف ہوا تو معلوم ہوا کوئی وزیر کی لاش اُچک کر لے گیا ہے
یہ اور بات ہے کہ اگلے روز وہ
👇
لاش مین چوک پر پُل کے نیچے لٹکی ہوئی دکھائی دی

اس روک تھام میں زیادہ عرصہ نہیں لگا
بس ایک وزیر نہیں دفنایا گیا
اور ایک سپہ سالار کچھ ہفتے سرِ عام گلتا سڑتا رہا
پھر سب ٹھیک ہو گیا
اب ان شہروں میں بم دھماکے نہیں ہوتے
اب کوئی اندھی گولی کہیں سے نہیں چلتی
اب اگر کسی کو بنا
👇
جرم سزا دی جاتی ہے تو وہ جج سے مسکراتے ہوئے کہتا ہے
جناب! میری لاش آپ کے گھر کے باہر پُو پھٹنے سے پہلے پہلے پہنچ جائے گی
اور جج رک جاتا ہے اور پھر سے عدالت لگواتا ہے
اب کوئی یوٹیلٹی اسٹور کے پاس آٹے کی قطار میں نہیں روندا جاتا کیونکہ اس کی لاش کی بکنگ پہلے سے وزیر اناج کے گھر
👇
طے ہوچکی ہے
بس اتنا ہی
ہاں بس اتنا ہی!!

چارپائیوں کا کاروبار
✒️ : مسلم انصاری

آپ ہی آج دھماکے میں مرے ہیں
میرے پیارے یہ ہیں آپ
کیونکہ اگر ایسا جرگہ تشکیل نہیں دیا گیا اور اس پر عمل نہیں کیا گیا آپ اور میں مرتے رہیں گے
کاش ۔۔۔۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔۔ اے کاش کوئی کسی طرح جرگوں
👇
کو میری یہ چیخ اور نوحہ پہنچادے
کاش محافظ ادارے اپنا کام اس ڈر سے ہی پورا کرنا شروع کردیں کہ صبح چارپائی پر ایک لاش ان کے گھر کے باہر ملے گی
اے ۔۔۔۔۔۔۔کاشششششش!!

میں تو بس ایک طالب علم ہوں جو کسی گمنام جرگے کی تلاش میں ہوں جسے یہ حل بتانا چاہتا ہے
👇
میرا نام مسلم انصاری ہے میں ایک نہتا اور عام پاکستانی انسان اور ابنِ آدم ہوں
میں آپ ہوں!!

Copied
#کب_جاگو_گے
#بغاوت_اب_فرض

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Moona Sikander

Moona Sikander Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Moona_sikander1

Feb 3
دنیا گول ہے

باس نے اپنی سیکرٹری کو دفتر بلا کر ہدایت کی

10 تاریخ کو ہم ایک ہفتے کے لیے کاروباری دورے پر ہانگ کانگ جا رہے ہیں، تم ضروری انتظامات کر لو

سیکرٹری نے اپنے شوہر کو بتایا

10 تاریخ کو میں اپنے باس کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے کاروباری دورے پر ہانگ کانگ جا
👇
رہی ہوں، تم اپنا اور گھر کا خیال رکھنا

شوہر نے اپنی خفیہ ⁧محبوبہ⁩ ‌کو فوراً پیغام بھیجا

10تاریخ کو میری بیوی اپنے باس کے ساتھ ایک ہفتے کے لیے کاروباری دورے پر ہانگ کانگ جا رہی ہے تم میرے پاس آجانا، مل کر انجوائے کریں گے

خفیہ محبوبہ جو کہ ایک پرائیویٹ ٹیوٹر
👇
تھی، اس نے سٹوڈنٹ بچے کو اطلاع دی

10 تاریخ سے میں ایک ہفتے کے لیے شہر میں نہیں‌ہوں اس لیے تمھیں پڑھانے ایک ہفتے تک نہیں آسکوں گی

ننھے سٹوڈنٹ نے فوراً اپنے دادا کو فون ملایا

دادا 10 تاریخ کو میری ⁧ٹیچر⁩ ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر ہے، آپ میرے پاس ایک ہفتے
👇
Read 7 tweets
Feb 3
مُجھ سے ملیٸے۔۔۔

میں اُن باٸیس کروڑ بدنصیبوں میں سے ایک ہوں۔ جس پر حیات تنگ کی جارہی ہے۔ میری حب الوطنی کا مذید امتحان لیا جارہا ہے
مجھ سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے وطن پہ قرضہ ہے اُس کی اداٸیگی کرنی ہے
اِن لوگوں سے کوٸی پوچھے کہ باہر کے ملکوں اور اداروں سے قرضہ میں نے یا مجھ
👇
جیسے غریبوں نے لیا۔ یا کیا وہ قرضہ مجھ پر یا میرے جیسوں پر خرچ کیا گیا
ستر پچھتر سال سے جن لوگوں نے لیا اور اپنے محل بناٸے
اُن کے پیٹ پھاڑ کر وصول کریں اگر وہ مرگٸے ہیں تو ان کی نسلوں سے وصول کریں مگر یہ کیا
اس ملک کے غریب کا جینا کیوں تنگ کیا جارہا ہے
اُس کا گلا کیوں دبایا
👇
جارہا ہے
کوٸی ہے ہمارا حمایتی
کوٸی ہے ان باٸیس کروڑ بدنصیبوں کا وکیل جو جاکے بین الاقوامی اداروں سے بات کرے کہ ہم نے قرضہ نہیں لیا
نہ ہم پر خرچ ہوا
اس ملک پر جو اشرافیہ حکومت کرتی رہی ہے اسی نے قرضہ لیا ہے
اُسی نے کھایا
ان سے وصول کرو
ان کی نسلوں سے وصول کرو
اس وصولی میں
👇
Read 6 tweets
Feb 2
زندگی تُو نے مجھے قبر سے تنگ دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے

یہ شعر بہت وسیع معنی رکھتا ہے مگر پچھلے دنوں اس کا نظارہ دیکھا
آج تک دل اس منظر کو بھلا نہیں پا رہا
ہم جو اپنے تین چار کمروں کے گھروں میں بیٹھ کر محلوں کے خواب دیکھتے ہوئے اپنے گھروں کو کمتر سمجھتے
👇
ہیں ان کے لیے ایک سبق

ایک رشتے دار خاتون کی وفات پر کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں جانا ہوا، وہاں مکس آبادی ہے، لوئر مڈل کلاس اور غریب سب
وہاں جا کر پتہ چلا کہ ایک اور بہت دور پرے کی رشتے دار خاتون کے جواں سال پوتے کا بھی اسی دوپہر انتقال ہوا ہے
بچپن کی یادیں تھیں
👇
ہم جب ماموں کے گھر جایا کرتے تھے تو ان کے صحن میں کھیلا کرتے تھے
خیر سوچا کہ وہاں بھی تعزیت کرنے چلے جائیں
جب وہاں گئے تو دیکھا کہ وہاں پانچ افراد ایک ایسے گھر میں رہ رہے تھے جسے گھر کہنا مناسب ہے بھی کہ نہیں کیا کہوں
ٹین کی چادر کا بنا ہوا دروازہ، اس کے ساتھ بنا دروازے کا
👇
Read 6 tweets
Feb 1
حکایات شیخ بیہوشی (26)
۔
گئے گذرے زمانے کی بات ہے کہ سرجری کا ایک PG تھا ۔ اسکی ٹریننگ کا سال مکمل ہوا تو وہ چند کاغذات پر اپنے HOD کے دستخط کروانے گیا ۔
اس نے HOD کے سامنے کاغذات رکھے تو وہ جیسے پھٹ پڑا
" آ گئے تم ؟ ضرورت پڑ گئی ہماری ؟"
وہ تھوڑا حیران ہوا مگر بولا
👇
"جی سر ۔ یہ کچھ سائن کروانے تھے "
HOD نے جواب دیا
"ان کاغذوں کو اپنے پاس رکھو ۔ پہلے مجھے ان سوالوں کا جواب چاہیئے
میں نے چھ ماہ پہلے تمہیں فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی ۔ تم نے اسے ایکسپٹ کرنے میں ایک ہفتہ لگایا ۔ کیوں ؟
میں نے اپنے لان کی تصویریں لگائیں ۔ سارے ڈیپارٹمنٹ
👇
نے "love" ری ایکشن دیا مگر تم نے صرف لائک کیا ۔ کیوں ؟
میری DP پر صرف لائک مگر کوئی کمنٹ نہیں ۔ ۔ ۔ باقی سب PGs نے MA MA لکھ کر میرا دل خوش کر دیا ۔ ایک نے تو لکھا کاش آپ میرے ابٌو ہوتے مگر تمہیں خیال نہ آیا کیوں؟
پچھلے ماہ میں نے اپنے کتے گلیڈی ایٹر کی تصویر شئر کی اور لکھا
👇
Read 6 tweets
Jan 29
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ایک بہت کامیاب باپ تھے ان کے گیارہ بیٹے تھے ان کی زندگی بہت غریب تھی کہ بچوں کی ضرورت بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی یہاں تک کہ ان کے بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں پوری نہیں
ملتی تھیں
ایک مرتبہ انہوں نے اپنی بیٹی کو بلایا
مگر اس کے آنے میں دیر لگی
👇
عمر بن عبدالعزیزؒ نے دوسری بار بلند آواز سے
بلایا بیٹی کی بجاۓ ان کی بیوی آ گئی اور کہنے لگی بیٹی کی جگہ میں آئی ہوں جو کام ہے مجھے بتا دیجیئے آپؒ نے پوچھا بیٹی کیوں نہیں آرہی؟
بیوی نے جواب دیا بیٹی جو کپڑے پہنے ہوۓ تھی بوسیدہ ہونے کی وجہ
سے وہ کپڑے پھٹ گئے ہیں اب وہ ساتھ
👇
والے کمرے میں کپڑے سی رہی ہے
یہ وقت کا خلیفہ ہے جس کی بیٹی کے پاس بدن کے کپڑوں کے علاوہ کوئی اور کپڑے نہیں ہیں خلیفہ وقت کی اتنی غربت والی زندگی تھی مگر انہوں نے بچوں کو محبت سکھائی خدمت سکھائی نیکی سکھائی اور بچوں کے اندر خوب نیکی کا جذبہ پیدا کیا چنانچہ جب عمر بن عبدالعزیزؒ
👇
Read 11 tweets
Jan 29
جو انگریز افسران ہندوستان میں ملازمت کرنے کے بعد واپس انگلینڈ جاتے تو ان کو وہاں پبلک پوسٹ کی ذمہ داری نہ دی جاتی
دلیل یہ تھی کہ
تم ایک غلام قوم پر حکومت کر کے آئے ہو
جس سے تمہارے اطوار اور رویے میں تبدیلی آ گی ہے
یہاں اگر اس طرح کی کوئی ذمہ داری تمہیں دی جائے گئی
تو تم آزاد
👇
انگریز قوم کو بھی اسی طرح ڈیل کرو گے

اس مختصر تعارف کے ساتھ درج ذیل واقعہ پڑھئے

ایک انگریز خاتون جس کا شوہر برطانوی دور میں پاک و ہند میں سول سروس کا آفیسر تھا
خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے
واپسی پر اس نے اپنی یاداشتوں پر مبنی بہت ہی خوبصورت 👇
کتاب لکھی

خاتون نے لکھاکہ

میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا اُس وقت میرا بیٹاتقریبا چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی
ڈپٹی کمشنر کو ملنےوالی کئی ایکڑ پرمحیط رہائش گاہ میں ہم رہتےتھے
ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت گزاری پر کئی سو افراد معمور تھے
روز پارٹیاں ہوتیں
👇
Read 12 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(