(1/27) انٹرنیٹ پر ایک اور دنیا بھی موجود ہے، جو ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کہلاتی ہے۔ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کیا ہیں ؟ اور کس طرح کام کرتی ہیں ؟ اس بارے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔ آج کی تحریر میں ہم ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کے بارے میں جانیں گے ۔
ہم جو انٹر نیٹ
(2/27) استعمال کرتے ہیں اس میں کوئی بھی ویب سائٹ اوپن کرنے کے لیے تین بار WWW لکھناپڑتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ورلڈوائڈ ویب، اسے سرفس ویب، اور لائٹ ویب بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن آپ کے لیے سب سے حیرت انگیز بات یہ ہوگی کہ دن رات استعمال کرکے بھی جس انٹر نیٹ کو ہم ختم نہیں کرسکتے یہ کل
(3/27) انٹر نیٹ کا صرف چار پانچ فیصد ہے۔ باقی کا 95٪ انٹر نیٹ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔
اب آپ کے ذہن میں سوالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ:
یہ پچانویں فیصد انٹر نیٹ ہماری آنکھوں سے کیوں اوجھل ہے؟ ہم اسے کیوں نہیں دیکھ سکتے؟ اس اوجھل انٹر نیٹ کی عظیم دنیا میں کیا کیا چھپا ہوا
(4/27) ہے؟ عام لوگوں سے اسے کیوں چھپایا ہوا ہے؟ وہاں کیا کیا جاتا ہے؟ تو آج کی اس تحریر میں ان سوالات کے جوابات پر بات ہوگی۔
ورلڈ وائڈ ویب کو ٹم برنرزلی نے 1989 میں ایجاد کیا اور 6اگست 1991 کو باقاعدہ منظر عام پر لایا۔ پھر یہ ٹیکنالوجی گولی کی رفتار سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک
(5/27) پہنچ گئی۔ اس طرح پوری دنیا سمٹ کر ایک کمپیوٹر کی سکرین پر اکھٹی ہوگئی۔ ویب کے فوائد سے انسانیت مستفید ہونے لگی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محتاج بن کر رہ گئی۔ ویب کی تیز رفتاری کی وجہ سے دستاویزات کی منتقلی اور خط وکتاب ای میل کی شکل میں تبدیل ہوئی گئی۔ اور کمپنیوں اور
(6/27) اداروں نے اس کا استعمال شروع کردیا۔
ایک طرف پوری دنیا اس نعمت سے مستفید ہورہے تھی تو دوسری طرف ڈیوڈ چام نے ایک مضمون بعنوان Secutity without identification لکھا۔ جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ ورلڈ وائڈ ویب کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے لوگ اپنی معلومات کی نگرانی سے
(7/27) محروم ہوتے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی معلومات درست ہیں ، یا پرانی ہیں ۔ چنانچہ جس خدشے کا اظہار ڈیوڈ چام نے کیا تھا آج ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ گوگل، فیس بک سمیت دیگر ویب سائٹس اپنے یوزر کے بارے اتنا کچھ جانتی ہیں کہ اس کے قریبی دوست یا سگے بھائی
(8/27) بہن بھی اتنا نہیں جانتے ہوں گے۔ چنانچہ انہی سورسز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے خفیہ اداروں نے جاسوسی کا جال بھی بچھا دیا۔
یہاں سے انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک نیا موڑ آتا ہے، اور حکومتیں یہ سوچنا شروع کردیتی ہیں کہ انٹر نیٹ پر ڈیٹا کے تبادلے کی سیکورٹی کے لیے کوئی نظام
(9/27) ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے چوری نہ کرسکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی نیوی کے تین ریسرچر نے یہ بیڑا اٹھاتے ہوئے Onion Routing کا نظام پیش کیا ۔ اس نظام کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص کسی کے ڈیٹا کو چرا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بغیر اجازت کے ویب سائٹ کو اوپن
(10/27) کرسکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب امریکی نیول ریسرچ لیبارٹری نے اس نظام کو اوپن سورس کردیا۔ یعنی ہر کسی کو اس سے مستفید ہونے کی اجازت دے دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کے جرائم پیشہ لوگوں نے اس نظام کو اپنے گھنائونے جرائم کے لیے استعمال
(11/27) کرنا شروع کردیا۔ اور اسی کا نام ڈارک ویب ہے۔
اس ساری بات کو سمجھانے کے لیے میں آپ کو ایک مثال دے کر سمجھانا چاہتا ہوں، فرض کریں برف کا ایک پہاڑ سمندر میں کھڑا نظر آرہا ہے، اس کا تھوڑا سا حصہ باہر ہے، اسے آپ ورلڈ وائڈ ویب یعنی وہ انٹر نیٹ سمجھ لیں جسے ہم استعمال کرتے
(12/27) ہیں ۔
پھر ایک بڑا حصہ زیر آب نظر آرہا ہے اسے ڈیپ ویب کہا جاتا۔ پھر اس سے بھی بڑا حصہ مزید نیچے گہرائی میں نظر آرہا ہے، اسے ڈارک ویب کہا جاتا ہے۔ پھر ڈارک ویب میں ریڈ رومز ہوتے ہیں ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس برف کے پہاڑ سے نیچے جو سمندر کی تہہ ہے اسے Marianas
(13/27) web مریاناز ویب کہا جاتا ہے جس تک رسائی دنیا کے عام ممالک کی حکومتوں کی بھی نہیں ہے۔
اب میں ویب کے ان چاروں حصوں کی تھوڑی تھوڑی تشریح کرکے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔
1۔ ورلڈ وائڈ ویب وہ انٹر نیٹ ہے جسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل پر استعمال کرتے ہیں، اوراچھی طرح جانتے
(14/27) ہیں ۔ یہ ٹوٹل انٹرنیٹ کا صرف چار، پانچ فیصد ہے ۔
2۔ اس سے نیچے ڈیپ ویب ہے۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جس تک رسائی صرف متعلقہ لوگوں کی ہوتی ہے، اور یہ عام طور پر مختلف کمپنیوں اور اداروں کے استعمال میں ہوتا ہے۔ جیسے بینکوں کا ڈیٹا یا مثلاً آپ یوفون کی سم اسلام آباد
(15/27) سے خریدتے ہیں اور پھر کراچی میں جاکر دوبارہ سم نکالنے کیلیے ان کے آفس جاتے ہیں تو وہ اپنا انٹر نیٹ کھول کر آپ کی تفصیلات جان لیتے ہیں کہ آپ واقعی وہی آدمی میں جس کے نام پر یہ سم ہے۔ یہ سارا ڈیٹا ڈیپ ویب پر ہوتا ہے، چنانچہ یوفون والے صرف اپنا یوفون کا ڈیٹا اوپن کرسکتے
(16/27) ہیں کسی اور کا نہیں اسی طرح ہر کمپنی کی رسائی صرف اپنے ڈیٹا تک ہوتی ہے۔
3۔ پھر ڈیپ ویب سے نیچے باری آتی ہے ڈارک ویب کی۔ یہ انٹر نیٹ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی، سوائے اس کے جس کے پاس ڈارک ویب کی ویب سائٹ کا پورا ایڈریس ہو۔ عام طور پر ڈارک ویب کی
(17/27) ویب سائٹس کا ایڈرس مختلف نمبر اور لفظوں پر مشتمل ہوتا ہے اور آخر میں ڈاٹ کام کے بجائے ڈاٹ ٹور، یا ڈاٹ اونین وغیرہ ہوتا ہے۔ یہاں جانے کے لیے متعلقہ ویب سائٹ کے ایڈمن سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، جو آپ سے رقم وصول کرکے ایک ایڈریس دیتا ہے۔ جب آپ پورا اور ٹھیک ٹھیک ایڈریس ڈالتے
(18/27) ہیں تو یہ ویب سائٹ اوپن ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں گوگل یا عام براوزر پر یہ اوپن نہیں ہوتیں، یہ صرف TOR پر ہی اوپن ہوتیں ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھ لیں کہ ان ویب سائٹ کو اوپن کرنا یا دیکھنا بھی قانوناً جرم ہے، اگر آپ کے بارے صرف اتنا پتا چل جائے کہ آپ نے ڈارک ویب پر وزٹ کیا
(19/27) ہے تو اس پر آپ کی گرفتاری اور سزا ہوسکتی ہے۔
پھر ڈارک ویب پر ریڈ رومز ہوتے ہیں ۔ یعنی ایسے پیچز ہوتے ہیں جہاں لائیو اور براہ راست قتل و غارت گری اور بچوں کے ساتھ زیادتی دکھائی جاتی ہے، ایسے لوگ جن کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے، اور ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہوتی ہے وہ اس قسم کے
(20/27) مناظر دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ، چنانچہ وہ ان ریڈ رومز میں جاتے ہیں وہاں ہر چیز کی بولی لگتی ہے، مثلا زیادتی دکھانے کے اتنے پیسے، پھر زندہ بچے کا ہاتھ کاٹنے کے اتنے پیسے، اس کا گلا دبا کر مارنے کے اتنے پیسے، پھر اس کی کھال اتارنے کے اتنے پیسے وغیرہ وغیرہ۔
اس کے علاوہ ہر
(21/27) قسم کی منشیات، اسلحہ اور جو کچھ آپ سوچ سکتے ہیں وہ آپ کو وہاں بآسانی مل جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں ریٹ لگے ہوتے ہیں کہ فلاں لیول کے آدمی کو قتل کروانے کے اتنے پیسے مثلا صحافی کے قتل کے اتنے پیسے، وزیر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے، سولہ گریٹ کے افسر کو قتل کرنے کے اتنے پیسے
(22/27) وغیرہ۔ اسی قسم کی ایک ویب سائٹ سلک روڈ کے نام سے بہت مشہور تھی جسے امریکی انٹیلی جنس نے بڑی مشکل سے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ٹریس کرکے2015 میں بلاک کیا تھا۔
4۔ Marianas web مریاناز ویب۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا سب سے گہرا حصہ ہے۔ حقیقی دنیا میں سمندر کا سب سے گہرا حصہ
(23/27) مریاناز ٹرنچ کہلاتا ہے اسی لیے اسی کے نام پر اس ویب کا نام بھی یہی رکھا گیا ہے۔انٹرنیٹ کے اس حصے میں دنیا کی چند طاقتور حکومتوں کے راز رکھے ہوئے ہیں ، جیسے امریکا، اسرائیل اور دیگر قوتیں وغیرہ۔ یہاں انٹری کسی کے بس کی بات نہیں ، یہاں کوڈ ورڈ اور کیز کا استعمال ہی ہوتا
(24/27) ہے۔
ایک سب سے اہم بات یہ بھی سن لیں کہ ڈارک ویب پر جتنا کاروبار ہوتا ہے وہ بٹ کوائن میں ہوتا ہے، بٹ کوائن ایک ایسی کرنسی ہے جو کسی قانون اور ضابطے میں نہیں آتی اور نہ ہی ٹریس ہوسکتی ہے، کسی کے بارے یہ نہیں جانا جاسکتا کہ اس کے پاس کتنے بٹ کوائن ہیں ۔ ڈارک ویب پر اربوں
(25/27) کھربوں ڈالرز کا یہ غلیظ کاروبار ہوتا ہے۔
اب آخر میں اس سوال کا جواب جو اس سارے معاملے کو پڑھ کر آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا کہ اس ویب پر پابندی ہی کیوں نہیں لگا دی جاتی۔ ؟ تو بات یہ ہے کہ جیسے پستول یا کلاشن کوف ہم اپنی حفاظت اور سیکورٹی کے لیے بناتے ہیں ، چھری سبزی
(26/27) کاٹنے کے لیے بنائی جاتی ہے، اب اگر کوئی اس چھری کو اٹھا کر کسی کے پیٹ میں گھونپ دے تو قصور چھری کا نہیں بلکہ اس کے استعمال کا ہے، چھری پر اگر پابندی لگادی جائے تو تمام انسانوں کا حرج ہوگا لہٰذا اس کا حل یہی ہے کہ جو اس کا غلط استعمال کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے
(27/27) اور باقی لوگوں کو پہلے سے ہی بتا دیا جائے کہ بھائی اس کا غلط استعمال آپ کی دنیا و آخرت برباد کرسکتا ہے۔ #منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
(1/22) رجیم چینج، ایشین بلاک، دہشتگردی، افغانستان، امریکی امداد، قومی حکومت
ایک تھریڈ (حصہ سوم)
تحرہر: ملک محمد اسد @Asadyaat
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا کہ اس خطہ میں رہنا امریکہ کی مجبوری ہے جبکہ پاکستان کے حصے جو زمین کا ٹکڑا آیا اسکا سٹریٹیجیکلی اہم ہونا اللہ کی نعمت ہے جسے ہم
(2/22) نے من حیث القوم ایک زحمت بنا لیا، ویسے تو میں اس بات پہ بھی یقین کم ہی رکھتا تھا کہ ہم ایک قوم ہیں بلکہ ہم تو ایک ہجوم تھے، مختلف انواع اقسام کا ہجوم جسے ایک دھاگے میں پرونے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش پہ پہلی ضرب ہمارے بندر نے کامیابی سے 1971 میں لگائی، دیگر بحث سے قطع
(3/22) نظر اگر آج کے میڈیا، کمیرہ اور سوشل میڈیا کے دور میں بھی عمران خان کو غدار اور PTI کو TTP کی ہم خیال جماعت قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے تو سوچیں اس دور میں جب عوام کو نہ تو شعور تھا نہ ہی سوشل میڈیا، بلکہ ایک پی ٹی وی اور چند اخبار ہوا کرتے تھے تب کس طرح سے شیخ مجیب
(1/31) رجیم چینج، ایشین بلاک، دہشتگردی، افغانستان، امریکی امداد، قومی حکومت
ایک تھریڈ (حصہ دوم)
تحرہر: ملک محمد اسد @Asadyaat
اب مسئائل تو ہمیشہ سے ہوتے ہیں، ہر حکمران کو ہوتے ہیں اور کسی حکومت میں بھِی سب کچھ مکمل طور پر اچھا نہیں ہوتا، ہاں تولنا پڑتا ہے کہ اچھے اور برے میں
(2/31) کیا چیز حاوی ہے اور اچھائی زیادہ ہو، ملکی مفادات کی حفاظت ہو رہی ہو، مجموعی ملکی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہو تو وہ حکومت تسلی بخش یا اچھی حکومت سمجھی جاتی ہے، باقی میں اس چیز کا حامی ہوں کہ خالص عوامی سپورٹ سے اگر فضل الرحمٰن، نواز شریف، شہباز شریف، زرداری یا بلاول بھی حکومت
(3/31) میں آ جائیں تو کوئی مذائقہ نہیں، بس چور دروازے بند ہونے چاہیئیں، اور پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ چور دروازے ہیں، آپ نے کہانی سنی ہوگی کہ بلیوں کی لڑائی میں بندر روٹی لے جاتا ہے تو پاکستان کی کل کہانی یہی ہے، ایک بندر پچھتر سال سے قابض ہے روٹی کھانے میں مصروف ہے اور بلیاں
(1/24) رجیم چینج، ایشین بلاک، دہشتگردی، افغانستان، امریکی امداد، قومی حکومت
ایک تھریڈ (حصہ اول)
تحرہر: ملک محمد اسد @Asadyaat
جب بھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو عمران خان کی حکومت ہٹائے جانے کو سب سے اہم اور تاریخ کا رخ موڑنے والا واقعہ لکھا جائے گا
ساتھ ہی سہولتکاروں اور
(2/24) کٹھپتلیوں کے کردار بھی سیاہ ترین روشنائی میں تحریر کیئے جائیں گے، وجوہات آگے چل کر بتاتا ہوں۔
خیر کسی بھی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے لیئے ماضی قریب کے چند واقعات اور ان خبروں پر نظر ثانی ڈالتے ہیں جو خبریں اس وقت صرف خواہش معلوم ہوتی تھیں
یوں تو موجودہ حالات کو سمجھنے کے
(3/24) لیئے پاکستان کی تاریخ اور پاکستان پرہونے والے افسر شاہی کے قبضہ کو دیکھنا بھی ایک لازم امر ہے لیکن اتنی تفصیل میں جائیں تو شاید ایک بھرپور کتاب وہ بھی کئی جلدوں پر مشتمل کتاب وجود میں آ جائے اس لیئے زرا اختصار سے سمجھانے کی کوشش کروں گا، یہاں یاد رہے کہ یہ تمام تحریر بطور
بعض نام تو اتنے زنانہ ہوتے ہیں کہ بندہ دھوکا ہی کھاجاتا ہے۔ جب میں ابو ظہبی میں ہوتا تھا اور دفتر سے باہر سگریٹ کا سُٹا لگانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے کانوں میں اچانک اپنے بھارتی ساتھی کی آواز کان میں پڑی کہ ”رادھا!
(2/8) کہاں ہو تم؟ لفٹ میں! اچھا میں آتا ہوں“ اور وہ فون رکھ کر اٹھنے لگا تو میں نے کہا ”یار بیٹھا رہ میں باہر جارہا ہوں تو دروازہ کھول دوں گا“ ـ۔۔۔
ہمارے دفتر کے خودکار دروازے کارڈ سے کھلتے تھے۔ میری بات سن کر میرے تمام ساتھی بشمول خواتین کے حیرانگی سے مجھے
(3/8) دیکھنے لگے کیونکہ میری اس بندے کے ساتھ بہت لگتی تھی۔
بہرحال میں اپنے خیالوں میں غرق باہر کی طرف چل پڑا جہاں میں ساڑھی میں ملبوس رادھا کو لفٹ سے باہر نکلتے اور اپنے آپ سے ہاتھ ملاتے دیکھ رہا تھا۔
جیسے ہی میں لفٹ کے پاس پہنچا تو لفٹ کا دروازہ کھلا اور ایک
(1/6) ایک صحتمند مرد کے عورت سے جماع کرنے کے بعد جو منی خارج ہوتی ہےاس میں400 ملین سپرمز موجود ہوتے ہیں۔لہذامنطق کے مطابق،اگر اس مقدار میں نطفہ کو رحم میں جگہ مل جاتی ہے تو 400 ملین بچے پیدا ہوجاتے!
جبکہ یہ 400ملین اسپرم،ماں کی بچہ دانی کی طرف پاگلوں کی طرح بھاگتے
(2/6) ہیں اور اس دوڑ میں صرف 300 سے 500 سپرم ہی بچ پاتے ہیں۔
اور باقی؟وہ راستے میں ہی تھکن یا شکست سے مر جاتے ہیں۔یہ 300سے 500 سپرم ہیں جو بیضہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک،جی ہاں صرف ایک بہت ہی مضبوط سپرم ہوتا ہے،جو بیضہ میں داخل ہوکر فرٹیلائز
(3/6) ہوتا ہے،کیا آپ جانتے ہیں وہ خوش نصیب فاتح اور مضبوط ترین سپرم کون ہے؟
وہ خوش نصیب سپرم آپ،میں،یا ہم سب ہیں۔
کیا آپ نے کبھی اس عظیم جنگ کے بارے میں سوچا ہے؟
جب آپ بھاگےتو آنکھیں،ہاتھ، پاؤں،سر نہیں تھے،پھر بھی آپ جیت گئے!
جب آپ بھاگے تو آپ کے پاس سرٹیفکیٹس
(1/4) یہ کسی لاٹری کی دکان نہیں بلکہ پاکستان کے ایک مشہور دربار کے تالاب کا منظر ہے. تالاب میں دو فٹ تک پانی بھرا ہوا ہے. لوگوں نے اس میں پیسے، کھلونے اور مختلف چیزیں پھینک رکھی ہیں. میرے اندازے کے مطابق تقریباً 3 لاکھ روپے تالاب کے پانی میں موجود ہیں
جبکہ گیندیں،
(2/4) گڑیاں، اور دوسرے بہت سے کھلونے بھی پانی میں تیر رہے ہیں.
اس عمل کا مقصد؟؟؟؟
مقصد یہ ہے کہ اس تالاب میں پیسے یا کھلونے پھینکو تو اولاد ہوگی....
دربار کی دوسری طرف بیری کا پرانا درخت ہے. جس کے نیچے خواتین نے چادریں بچھائی ہوئی ہیں
اس نیت سے کہ اگر اس چادر پر
(3/4) بیر گر گیا تو اولاد ہوگی. میں نے دیکھا کہ خواتین ہاتھوں کو جوڑے، آنسو بہاتے اور گڑگڑاتے ہوئے عجیب امید بھری نظروں سے بیری کے درخت کو دیکھ رہی ہیں.
صفائی کرنے والی ایک عورت نے زمین پر گرے ہوئے ایک بیر کو اس انداز سے جھاڑو مارا کہ وہ ایک چادر تک پہنچ گیا. بعد