مولانا احمد رضا خان بریلوی بریلوی کے پاکستان میں چشم و چراغ ہونے کی حیثیت سے اپنے خاندان کی تاریخ، پاکستان ہجرت کی وجوہات، پاکستان کی اخلاقی اور سیاسی تربیت، بشمول ملک کی موجودہ صورت حال پر ایک تھریڈ لکھا ہے۔
ضرور پڑھیئے گا۔ #باغی_ہوں_کرپٹ_نظام_سے
میرا تعلق انڈیا کے ایک مذہبی اور رئیس خاندان سے ہے۔
بڑیچ قبیلے کے یوسف زئی پشتون ہیں اور آباو اجداد قندھار سے ہندوستان تبلیغ دین کے لیئے ھجرت کر کے بریلی آگئے۔
میرے آباو اجداد نے جنرل بخت خان کے ساتھ مل کے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی کیونکہ پشتون ایک آزاد قوم ہے اور غلامی
سے نفرت ان کےخون میں شامل ہے۔
بریلی میں ھمارے خاندان میں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جن کو آج دنیا بھر میں اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ماشااللہ ان کا عشق رسول اور ایک پولی میتھ ہونے کے ناطے ان کی تصانیف
اور دینی فتوؤں سے مزین فتاوئے رضویہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیئے آج بھی مشعل راہ ہیں۔
مولانا احمد رضا خان کے دو پوتے تھے حماد رضا خان اور ابراہیم رضا خان۔
ابراہیم رضا خان کی اولاد آج بریلی انڈیا کی مکین ہے اور دربار عالیہ مولانا احمد رضا خان کا پورا انتظام و انصرام
ان کے ہاتھ میں ہے۔
انڈیا میں مولانا احمد رضا خان کی اولاد مذہبی اثر و رسوخ کے علاوہ ایک سیاسی حیثیت کے طور سے بھی پہچانی جاتی ہے۔
دوسری طرف حماد رضا خان (میرے دادا) جو کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے نام پر بنے خطے سے دور نہ رہ سکے،
انڈیا سے براستہ کھوکھرا پار، سکھر اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کر گئے۔
رئیس زادے تھے لیکن انڈیا میں اپنی بے پناہ جائیداد چھوڑ کر پاکستان کے لئے پاکستان ہجرت کر آئے۔
یہاں آکر حماد رضا خان نے بمعہ اپنی اہلیہ طاہرہ خاتون اور سات بچوں کے نئے سرے سے زندگی کی شروعات کی۔
حماد رضا خان قائد اعظم سے بہت متاثر تھے اور پاکستان ہجرت سے پہلے کبھی کبھی چھپ چھپا کے پینٹ کوٹ پہن کر اپنا قائد اعظم بننے کا شوق پورا کر لیا کرتے تھے۔
اللہ کی کرنی، صرف 38 سال کی عمر میں جناب حماد رضا خان کا انتقال ہوگیا اور پھر میری دادی طاہرہ خاتون نے تن تنہا
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے خاندان کی باگ دوڑ سنبھالی۔ مال و متاع کی بے انتہا کمی کے باوجود اپنی اولاد کو بہت حد تک تعلیم سے مزین کیا۔
میرے والد حمید رضا خان نے کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کی اور بینک میں ملازم ہو گئے۔
ھمارے خون میں اسلام اور پاکستان سے محبت شامل ہے اور اس کی پہلی جھلک میں نے اپنے گھر میں اس وقت محسوس کی جب میری عمر بمشکل چار سال تھی۔
16 دسمبر 1971 کی شام میرے گھر میں 10محرم کا سا سماں تھا۔گھر کے صحن میں ھمارا پورا خاندان بیٹھا تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے میری دادی زار و قطار
رو رہی تھیں۔
بہت چھوٹا تھا لیکن درد کی وہ ٹیس جو سب کو روتا دیکھ کر میرے دل میں اٹھی میں شاید ابھی تک نہ بھول سکا۔
دادی کے کہے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔
"ظالموں نے توڑ دیا میرا پاکستان"۔
میں ایک محب وطن ماحول میں بڑا ہوا۔
نوجوانی سے پاکستان کے ایک خوبصورت معاشرے کو ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے کچھ کتابوں میں پڑھا اور کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہلوانے والے امریکہ کے ڈارلنگ ایوب خان اور بھٹو کی دوستی سے لیکر نور جہاں کے عشق میں فریفتہ، امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے منتظر یحییٰ خان
اور پھر پاکستان کے مذہبی ھم آہنگی سے بھرپور اولیاء کرام کی سر زمین کو واہابیزم جیسے فتنے سے دو چار کرنے والے ضیاالحق تک ہر ایک نے بلاشبہ پاکستان کو نقصان پہنچایا۔
90 کی دھائی نے پاکستان میں ایک نئے فتنے کو جنم دیا، کرپشن اور یہاں سے شروع ہوتا ہے ہماری تباہی کا دور۔
نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے ادوار نے سوسائٹی کے ٹوٹتے ہوے سٹرکچر کو کرپشن کی وہ دیمک لگائی جس نے پاکستان کی تباہی کے عمل کو مزید تیز کر دیا۔
اب آتے ہیں جناب پرویز مشرف کے دور اقتدار پہ۔ اگر میں اس دور کو ideological اعتبار سے سب سے زیادہ تاریک دور کہوں تو حق بجانب ہوں گا۔
اڑھی کو ناسور اور اللہﷻ اور رسول کے نام لیواؤں کو دھشتگرد کا لیبل لگانے میں جو کمال مشرف صاحب نے کیا اسکی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اپنے آقا امریکہ بہادر کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول تو دے دیا لیکن نظریہ پاکستان جو پاکستان کی اصل طاقت ہے اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا۔
جاتے جاتے مشرف صاحب نے ایک کارنامہ اور کیا 90 کی دھائی کے کرپشن کو NRO کے روپ میں مکمل تحفظ دے دیا۔
بھٹکی ہوئی سوسائٹی، کرپشن سے آلودہ لیڈر، اور نظریہ پاکستان سے نا بلددانشور اور میڈیا سے مکمل رچے بسے معاشرے میں نہ جانے کہاں سے ایک مسیحا عمران خان کے روپ میں پاکستان کو مل گیا۔
عمران خان جو لا اللہ کے بعد بے خوفی کا درس دیتے ہیں، نبی آخرازماں حضرت محمدﷺ کی تکریم کے لئے دنیا سے دست و گریبان ہیں، اولیاء کرام کی تکریم کرتے ہیں، پاکستان کو کرپشن کے دیمک سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں،
امریکہ بہادر کو خطرے کی طرح محسوس ہونے لگے۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا رجیم چینج آپریشن۔
پچھلے دس مہینوں کا جائزہ لیا جائے تو دو باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
1۔ پاکستان ایک ازسرنو تعمیر کے مرحلے تک پہنچا چاھتا ہے۔
2۔ اس ازسر نو تعمیر کے لیئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ترکیب کیمیا شعور اب پاکستانیوں کے پاس ہے۔
عمران خان اپنا پچاس فیصد کام کر چکے ہیں جو زیادہ مشکل تھا اور بقایا پچاس فیصد مکمل کرنے کے لیئے، آپ سب کے ساتھ ملکر میں بھی نہ صرف عمران خان کی زندگی کے لیے دعا گو ہوں
بلکہ اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔ معاشرے کی اصلاح کا عمل ایک دو روز یا چند ہفتوں کا نہیں ہوتا اس میں برسوں محنت کرنا پڑتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایک فرد کے طور پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ عورتوں کے ذمہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ
ہماری بنیادی درسگاہیں گزشتہ ادوار سے آہستہ آہستہ میڈیا کی غلط پرسیپشنز اور گھریلو پالیٹکس میں الجھ کر بچوں کی تربیت و تعلیم سے غفلت برتنے لگی تھیں۔ جب تک ہماری عورتیں آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت نہیں کرینگی معاشرے میں اصلاح کا عمل سست ہی رہے گا۔
اسی طرح مردوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حق سچ پر قائم رہیں، اہل و عیال کے منہ میں جانے والا ایک ایک لقمہ حلال کی کمائی کا ہو۔ کسی کام کو چھوٹا مت جانیں۔ شروع سے بچوں کو بھی کام کاج اور کمانے کی عادت ڈالیں۔ ایک عمران خان کو سب ٹھیک کرنے کیلئے اکیلا چھوڑنے کی بجائے
عمران خان سے بہتر نہ سہی کم سے کم اس جیسا بنانے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں، پھر دیکھیں کیسے نہیں ملک ترقی کرتا لیکن شرط محنت ہے کیونکہ اللہﷻ بھی انکی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران، 3 : 200)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد و مجاہدہ کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا
تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘
ان سنی باتیں جواد رضا خان
غزنوی: لٹیرا؟
عمران خان گھڑی چور؟
جیسے بالی ووڈ سے علم حاصل کرنے اور پھر اسکی روشنی میں کتابیں لکھنے والے آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ غزنوی کو اسکالرز کا اغواء کار بھی کہا جاتا ہے۔
محمود غزنوی قابل محققین کو ہر قیمت پر غزنی بلوا لیا کرتا تھا۔
وہ ان محققین پر سالانہ چار لاکھ درہم سے زائد خرچ کرتا تھا۔۔۔ فردوسی اور البیرونی کو اسی نے فائنانس کیا تھا۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے کرتے دھرتے یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ عمران خان نے سیرت النبی محمدﷺ اتھارٹی قائم کی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بیرون ملک سے بلا کر
پاکستان کی خدمت پر مامور کیا اور صوفیاء کرام کی تعلیمات سمجھنے اور سمجھانے کے لیئے لاہور میں Sufism Research Center کی داغ بیل ڈالی۔
سلطان محمود غزنوی نے پنجاب میں اس دور کے نظام انصاف، پولیس، ڈاک، اکیڈمک اور سوشل سروسز کو اس دور کے شاعر سعد سلمان نے بہت تفصیل سے قلمبند کیا ہے
قادر پٹیل کو وزیر صحت بنانے کے بعد اب کامران ٹیسوری کو کراچی کا گورنر بنا دیا گیا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ حکومت یہ عہد کر چکی ہے کہ کوئی چور اچکا اور ڈاکو ہم نے باہر نہیں رہنے دینا۔ بلکہ چن چن کر تمام مجرموں کو اعلی عہدوں پہ لا بٹھانا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی جس میں
دو سو انسٹھ مزدوروں کو زندہ جلانے والے کسی انسان کو گورنر کے عہدے پہ لا بٹھایا جائے۔ کامران ٹیسوری کا ایک سرسری سا تعارف کرواتا ہوں تا کہ قوم جان سکے کہ کس طرح کے لوگوں کو آپ پہ مسلط کیا جا ہیں۔
ماضی میں کامران ٹیسوری کراچی میں سونے کی سمگلنگ کےلیے انڈر ورلڈ میں ایک جانا پہچانا نام تھا۔
سنہ دو ہزار آٹھ میں کامران ٹیسوری کو دبئی ایئرپورٹ پہ اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بھیس اور شناخت تبدیل کر کے دبئی میں داخل ہو رہا تھا۔