وہ 28 اگست 1963 کا ایک گرم ترین دن تھا جب واشنگٹن میں لنکن میموریل کے سامنے انسانی حقوق کے عظیم رہنما اور سیاہ فام امریکیوں کے محسن ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے تقریباً ڈھائی لاکھ انسانوں کے سامنے وہ تاریخی تقریر کی ۔۔
1)
جس کا تھیم " I have a dream " تھا ۔
وہ تاریخی تقریر جو آج پوری دنیا کی نصابی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے وہ انقلاب نہیں بلکہ ایک انقلاب کا نقطہ آغاز تھا اُس دن سے تقریباً سو سال پہلے امریکہ میں غلامی ختم کرنے کیلئے قوانین منظور کیے گئے تھے
2)
لیکن سو سال گزرنے کے بعد بھی اُن پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا
تھا بلکہ امریکی معاشرے میں تب بھی کالوں کو اچھوت سمجھا جاتا تھا کالے اور گورے ایک میز پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے تھے ایک تعلیمی ادارے میں تعلیم نہیں حاصل کر سکتے تھے
3)
حتیٰ کہ بسوں میں کالوں کو سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی وہ کھڑے رہتے جبکہ گورے سیٹوں پر براجمان ہوتے ۔
اِن حالات میں ڈاکٹر مارٹن نے ایک طویل جدوجھد کا آغاز کیا معاشرے میں رنگ و نسل کی بنا پر قائم اس غلامی اور نا انصافی کو ختم کرنے کی ٹھان لی اُسکی جدوجھد نان وائلنس تھی
4)
صدیوں سے قائم ایسے جبری نظام کو ختم کرنا نا تو آسان ہوتا ہے اور نہ ہی اس کیلئے کوئی شارٹ کٹ ہوتا ہے یہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجھد ہوتی ہے اِسی جدوجھد کی پاداش میں 4 اپریل 1968 کو صرف 39 سال کی عمر میں اُن کو قتل کر دیا گیا ۔
5)
لیکن ڈاکٹر مارٹن اپنے خون سے انقلاب کی بنیاد رکھ گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اُسی امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے چالیس سال بعد پہلی دفعہ ایک سیاہ فام امریکی صدر بنا ۔ اور آج حالت یہ ہے کہ نسلی امتیاز کہیں بہت پیچھے رہ گیا آج سیاہ فام لوگ امریکہ کے ہر شعبہ زندگی ۔۔۔۔
6)
گوروں کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں ، اور یہی وہ خواب تھا جس کا اظہار ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے 1963 میں اپنی مشہور زمانہ تقریر میں کیا تھا۔
وطن عزیز میں اگرچہ رنگ و نسل کی بنا پر کوئی تفریق نہیں ہے لیکن حالات اُس وقت کے امریکہ سے مختلف بھی نہیں ہیں ۔۔
7)
یہاں بھی طبقاتی نظام قائم ہے مُلک کی کُل آبادی کا تقریباً 2 فیصد حکمران اور طبقہ اشرافیہ مُلک کے تقریباً 70 فیصد وسائل پر قابض ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک میں بے انتہا غربت ہے نا انصافی، ظلم و جبر اور لاقانونیت کا بازار گرم ہے ۔
8)
ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے اپنی اُسی تقریر میں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہا تھا کہآزادی کے سو سال بعد بھی ہم نیگروزغربت کے سمندر کے بیچوں بیچ ایک ویران جزیرے پر رہ رہے ہیں آزادی کے سو سال گزرنے کو ہیں لیکن ہم اپنے ہی ملک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔۔۔
9)
وقت آگیا ہے کہ ہم ملک میں حقیقی آزادی کیلئے متحد ہو جائیں"۔
ان جملوں میں نیگروزکی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں کیا ایسا نہیں لگتا کہ ڈاکٹر مارٹن ہماری ہی بات کر رہے ہیں کیا ہمارے حالات اُس وقت کے امریکہ سے مختلف ہیں کیا ہم آزادی کے 75 سال بعد بھی حقیقی معنوں میں آزاد ہیں؟
10)
دوستوں ! یہ سچ ہے کہ ہم نے 75 سال پہلے تختِ برطانیہ سے آزادی حاصل کی لیکن قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم کی وفات سے اس طبقے کیلئے راہ ہموار ہوئی اور یہ ہم پر مسلط ہوگئے جو اِس وقت پاکستان کے تمام وسائل پر قابض ہیں جبکہ ہماری حالت ابھی تک ان سیاہ فام امریکی غلاموں جیسی ہے
11
وطنِ عزیز میں بھی سیاہ فام امریکیوں کی طرح طبقہ اشرافیہ اور عوام کے تعلیمی ادارے الگ ، رہائشی علاقے الگ ، عوام پبلک ٹرانسپورٹ پر جبکہ اشرافیہ کے پاس جدید ترین گاڑیاں ، حتیٰ کہ ہسپتال تک الگ ہیں ایسے میں اس ظلم اور نا انصافی پر قائم نظام سے بغاوت ہم پر فرض ہے۔
12)
مارٹن لوتھر کنگ کی طرح ہمیں خواب دکھانا والا عمران خان ہمارے درمیان موجود ہے جس کی جدوجھد کو تقریباً 27 سال ہونے والے ہیں ڈاکٹر مارٹن کی طرح عمران خان نے بھی پُرامن جدوجھد کا راستہ اپنایا ہے جو ہمیشہ طویل ہی ہوتا ہے لیکن نا ممکن نہیں۔۔
13)
آج عمران خان کے لیڈرشپ میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں پہلی دفعہ ہم یعنی عوام نے اُس طبقہ اشرافیہ کو ڈرا دیا ہے اور ان کے سارے اٹھائے گئے اقدامات اُن کے ڈر کی غمازی کرتے ہیں ۔
اس وقت طبقہ اشرافیہ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح عمران خان کو راستے سے ہٹایا جائے
14
کیونکہ عمران خان انکے راستے کا بہت بڑا کانٹا ہے لیکن ہم نے انکی اس کوشش کو ناکام بنانا ہے ہر صورت صاف اور شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کیلئے جدوجھد کرنی ہے یہ وقت مایوسی کا نہیں بلکہ اپنی جدوجھد کو تیز کرنے کا ہے اور اس کیلئے ہمیں اپنے قائد کی ہر آواز پر لبیک کہنا ہے
15)
اسی مقصد کیلئے عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا ہے ہمیں اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس تحریک کو ہر صورت کامیاب بنانا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں سے جیلوں اور ہتھکڑیوں کا خوف ختم ہو سکے اور اُس کےبعد ہی اصل جدوجھد کا آغاز ہوگا اور اسکا اس طبقاتی نظام کے خاتمے پر ہوگا
16)
ابھی اور بھی ہمیں مشکل حالات سے گزرنا پڑے گا لیکن قوموں کی زندگی میں ایسے مشکل وقت آتے رہتے ہیں اور قومیں ایسے مشکل حالات سے گزر کر ہی عظیم بنتی ہیں۔
چلے چلو کہ منزل قریب ہے ۔
تحریر : شمس خٹک
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کل سے پرویز مشرف کی موت کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جن میں کچھ لوگ اُنکو ہیرو اور کُچھ ولن بنا کر پیش کر رہے ہیں اس تھریڈ میں ہم مشرف کے لیے گئے فیصلوں کی روشنی میں اِس کا جائزہ پیش کرینگے
1)👇
پرویز مشرف کی کہانی کارگل وار سے شروع ہوتی ہے اِس بات سے قطع نظر کہ کارگل ایڈونچر ٹھیک تھا یا غلط(اس پر بھی متخلف آراء موجود ہیں)
لیکن یہاں مشرف نے دو بڑی غلطیاں کی پہلی غلطی اُس وقت کے منتخب وزیرِ اعظم نواز شریف کے علم میں لائے بغیر کارگل پر چڑھائی کرنا جبکہ ۔۔۔
2)👇
دوسری غلطی ایک غلط وقت کا انتخاب تھا یہ دونوں غلطیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ اس وقت وزیرِ اعظم نواز شریف اور انڈین وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان دو مہینے پہلے ہی " لاہور ڈیکلریشن" کے نام سے ایک امن معاہدہ ہو چکا تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان ۔۔۔