زیتون کا باغ لگائیں ہزار سال تک بھرپور منافع کمائیں
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ایک مرتبہ زیتون کا باغ لگا لیں تو وہ کم از کم ایک ہزار سال تک پھل دیتا رہے گا.
زیتون کن کن اضلاع میں لگایا جاسکتا ہے؟
زیتون کے باغات پنجاب سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں
کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں. حتی کہ چولستان میں بھی زیتون کی کاشت ہو سکتی ہے.
لیکن فی الحال زیتون کی کاشت کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کی ساری توجہ پوٹھوہار کے علاقوں پر مرکوز ہے.
زیتون کس طرح کی زمین میں لگایا جاسکتا ہے؟
زیتون کا پودا ہر طرح کی زمینوں مثلاََ ریتلی، کچی، پکی،
پتھریلی، صحرائی زمینوں میں کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے. صرف کلر والی زمین یا ایسی زمینیں جہاں پانی کھڑا رہے، زیتون کے لئے موزوں نہیں ہیں.
زیتون کو کتنے پانی کی ضرورت ہے؟
زیتون کے پودے کو شروع شروع میں تقریبا دس دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے. جیسے جیسے پودا بڑا ہوتا جاتا ہے ویسے
ویسے اس کی پانی کی ضرورت بھی کم ہوتی جاتی ہے.
دو سال کے بعد زیتون کے پودے کو 20 سے 25 دن کے وقفے سے پانی لگانا چاہیئے.
زیتون کے پودے کب لگائے جا سکتے ہیں؟
زیتون کے پودے موسمِ بہار یعنی فروری، مارچ , اپریل یا پھر مون سون کے موسم یعنی اگست، ستمبر ، اکتوبر میں لگائے جا سکتے ہیں.
زیتون کے پودے لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
زیتون کا باغ لگاتے ہوئے پودوں کا درمیانی فاصلہ 10×10 فٹ ہونا ضروری ہے. اس طرح ایک ایکڑ میں تقریبا 400 پودے لگائے جا سکتے ہیں. یہ بھی دھیان رہے کہ زیتون کے پودے باغ کی بیرونی حدود سے تقریباََ 8 تا 10 فٹ کھیت کے اندر ہونے چاہیئں.
پودے لگانے
کے لئے دو فٹ گہرا اور دو فٹ ہی چوڑا گڑھا کھودیں. اس کے بعد زرخیز مٹی اور بھل سے گڑھوں کی بھرائی کر دیں. اب زیتون کا پودا لگانے کے لئے آپ کی زمین تیار ہے.
عام طور پر 3 سال میں زیتون کے پودے پر پھل آنا شروع ہو جاتا ہے.
بہتر یہ ہے کہ زیتون کے پھل کو بیچنے کی بجائے اس کا تیل نکلوائیں
اور پھر اس تیل کو مارکیٹ میں فروخت کریں. زیتون کے پھل سے 20 سے 30 فی صد کے حساب سے تیل نکل آتا ہے.
20 فی صد کے حساب سے ایک ایکڑ زیتون کے پھل ( 10000 کلوگرام ) سے تقریبا 2000 کلو گرام تیل نکل آتا ہے.
چکوال میں تحقیقاتی ادارے کے پلانٹ سے نکالا جانے والا تیل کم از کم 2 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے بک رہا ہے. واضح رہے کہ چکوال کا زرعی تحقیقاتی ادارہ کسانوں کو تیل نکالنے کی مفت سہولت فراہم کر رہا ہے.
اگر ریٹ واقعی دو ہزار روپے فی کلو گرام ہو تو آمدن کا حساب آپ خود لگا سکتے ہیں.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
الائی کا نام شاید آپ نے پہلی بار سنا ہو مگر یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ کوئی چھوٹا سا گاؤں نہیں بلکہ ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے اور یہاں تک آپ تھاکوٹ سے کسی بھی گاڑی، موٹرسائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ پہ با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ تھاکوٹ سے الائی تک ٹوٹل سفر ایک سے دو گھنٹے کا ہے۔یہاں بازار
سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مل جاتی ہے، پیراڈائز گیسٹ ہاؤس یہاں کا سب سے اچھا ہوٹل ہے
الائی شہر سے قریب ترین مقام گلئی میدان ہے جہاں جانے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر روڈ اور پیدل ٹریک موجود ہے، موجودہ سیاسی نمائندگان اور وادئ الائی کی عوام گلئی میدان میں ٹوورازم کے فروغ کے لئے
دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں، کیمپنگ پوڈز کا کام کافی حد تک پورا ہو چکا ہے جو عنقریب سیاحوں کے لئے کھول دیے جائیں گے
گلئی میدان بنیادی طور پہ ایک میڈوز ہے جہاں سے آگے کئی وادیوں کی طرف پیدل راستے جاتے ہیں جن میں سب سے منفرد چوڑ میڈوز ہے جہاں جانے کے کئے
سنوفال میں جب کار کے شیشے اور دروازے بند ہوں تو باہر سے تازہ ہوا ، جس میں زندگی کی سب اہم ضرورت جو آکسیجن ہے وہ کار کے اندر آنا بند ہو جاتی ہے۔ کار میں جتنے زیادہ افراد ہوں گے، ہیٹر کے چلنے اور ان کے سانس لینے کی وجہ سے آکسیجن اتنی تیزی سے ختم ہو گی۔ اگرچہ ہیٹر باہر سے
ہوا بھی کھینچ رہا ہوتا ہے لیکن ٹریفک جام میں جب گاڑیاں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتی ہیں تو اگلی گاڑی کا دھواں جس میں کافی مقدار میں کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے وہ بھی پچھلی گاڑی کے اندر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ کاربن مونو آکسائیڈ کی زیادتی سے چند منٹوں میں موت واقع ہو جاتی ہے ۔ انسان
کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کا بھی موقع نہی ملتا ۔
۔
ایسی صورت میں ہیٹر کو ایک گھنٹے میں دس پندرہ منٹ سے زیادہ نہ چلائیں اور گاڑی کا شیشہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھولتے رہیں
۔
اگر گاڑی میں زیادہ لوگ ہوں تو ہیٹر کی زیادہ ضرورت نہی ہوتی ۔ انسانی جسموں کی اپنی گرمی کافی ہوتی ہے۔
۔