#SupremeCourtOfPakistan
آیئن کا آرٹیکل 184 وہ آرٹیکل ہے جو کہ سپریم کورٹ کو کسی "فوجی معاملے" کے علاوہ کسی بھی ایشو پر سوموٹو لینے کا اختیار دیتا ہے۔ فوجی معاملے پر سوموٹو لینے سے آیئن کا آرٹیکل 199 روکتا ہے جو کہ بھٹو کی مہربانی سے اس میں شامل کیا گیا
آیئن کے آرٹیکل 184 کی 3 شقیں ہیں۔
جس کے کسی بھی دو حکومتوں یا وفاق اور صوبائی حکومتوں یا اداروں میں اختلاف کی صورت میں چیف جسٹس سوموٹو لے سکتے ہیں سوائے آیئن کے آرٹیکل 199 میں بیان کی گئی چیز پر۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو اس پر فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔شق نمبر 3 میں بتایا
گیا ہے کہ ایمرجنسی کے علاوہ کسی بھی صورت میں عوام کے حقوق متاثر ہورہے ہوں تو اس صورت میں عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سوموٹو نوٹس لے سکتی ہے ۔
اس کیس میں یہاں کچھ چیزوں میں اختلاف تھا۔
1۔ پنجاب میں گورنر نے اسمبلی نہیں توڑی تو یہاں الیکشن کی تاریخ دینے کے معاملے پر اختلاف تھا۔
2۔ کے پی میں گورنر نے اسمبلی توڑی لیکن وہ تاریخ نہیں دے رہا تھا۔
3۔ ان دونوں کے تاریخ نہ دینے پر صدر نے تاریخ کا اعلان کردیا۔ جس پر گورنر کو اختلاف ہوا۔
4۔ اداروں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔
5۔ پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ 90 دن میں الیکشن کروانا نہیں بلکہ صرف
تاریخ دینا ضروری ہے۔
6۔ ووٹ کے ذریعے عوامی حکومت کا قیام 10 کروڑ پنجاب کی اور 4 کروڑ کے پی کی عوام کا بنیادی حق تھا جو کہ یہ حکومت انہیں نہیں دے رہی تھی۔
ان سب چیزوں کے بعد اور یہ پورا کیس آرٹیکل 184 پر پورا اترتا ہے لہذا تب ہی سپریم کورٹ کے دو ججز نے چیف جسٹس کو اس معاملے پر
سوموٹو لینے کا کہا جس پر چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لیا۔
جب ایمرجنسی لگتی ہے تو ایمرجنسی میں عوام کے بنیادی حقوق کے سارے آرٹیکل معطل ہوجاتے ہیں اور وہاں اس آرٹیکل 185 کی شق نمبر 3 بھی معطل ہوجاتی ہے یہ آیئن میں لکھا ہے تو تب اس کی شق نمبر 3 کے مطابق سپریم کورٹ سوموٹو نہیں لے
سکتی تھی۔ یہاں نہ تو ایمرجنسی لگی تھی اور نہ ہی یہ فوجی معاملہ تھا لہذا سپریم کورٹ کا سوموٹو نوٹس لینا بالکل ٹھیک ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا اپنے اختلافی ججمینٹ کے پہلے پوائینٹ اور جسٹس مندوخیل نے اپنے اختلافی ججمینٹ کے پوائینٹ نمبر 6 میں سوموٹو کو غلط قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ یہ معاملہ پارلیمینٹ کے اندر حل ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ دونوں کی اختلافی ججمینٹ کا ایک کامن پوایئنٹ کہ یہ معاملہ لوئر ہایئکورٹس میں پینڈنگ ہے اس لیے اس پر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ قابل سماعت نہیں۔ یہ سارا کیس آرٹیکل 184 کے انڈر آتا ہے اس سے عوام
کے حقوق متاثر ہورہے ہیں تو سپریم کورٹ ہایئکورٹ سے اوپر کا سپریم ادارہ ہے جو کہ اس معاملے پر صرف ڈکلیریشن جاری کرسکتا ہے اور پھر ہایئکورٹ اسی ڈکلیئریشن کی روشنی میں اپنا فیصلہ سنانے کا مجاز ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں آپ نے ایک خبر سنی کہ رتھس چائلڈ اینڈ کومپنی پاکستان میں آئی ہے اور اس کی ملاقات اسحاق ڈار اور شہباز شریف سے ہوئی ہے۔ اس ملاقات میں کیا طے ہوا ہوگا؟؟ یہ رتھس چائلڈ کومپنی کون ہے؟ کیا کرتی ہے اور اس کا پرانا ٹریک ریکارڈ کیا ہے؟ اور اس کا پاکستان کو کیا نقصان یا فائدہ
ہوسکتا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔۔اور آئی ایم ایف کو آج کل پاکستان میں یک دم غریبوں کا بخار کیوں چڑھ گیا ہے۔۔
روتھس چائلڈ کومپنی بنیادی طور پر ایک بینکر ہے جو کہ بینک چلاتے ہیں اور یہ پانچ بھائی تھے جنہوں نے مل کر یہ کام شروع کیا اور ان پانچ بھایئوں کی ایک بات یہ ہے کہ ان کے
خاندان میں آج تک کوئی شادی باہر نہیں ہوئی یعنی یہ لوگ شادی بھی اپنے خاندان میں کرتے ہیں تاکہ ان کی دولت یا ان کا بزنس ان کی فیملی سے باہر نہ نکلے۔
یہ لوگ دنیا کے پہلے چند منی ایکسچینجرز میں سے ایک ہیں جو کہ سولہویں یا سترہویں صدی میں سونے کے بدلے کرنسی کا بزنس کرتے تھے یعنی
رتھس چائلڈ کی وجہ شہرت ہمیشہ افواہیں پھیلا کر، سازشیں کرکے، سپیکولیشن پھیلا کر پیسے کمانا ہے۔انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں افواہ اڑائی کہ برطانیہ جنگ ہار گیا ہے جس سے برطانیہ کی سٹاک مارکیٹ کریش کی بھی آخری سٹیج کراس کرگئی کیونکہ تب مارکیٹ کو کیپ نہیں لگاکرتا تھا اب تو مارکیٹ
صرف 5 فیصد کریش ہو تو اس کو فورا کیپ لگ جاتا اور اس دن کے لیے مارکیٹ بند ہوجاتی ہے لیکن تب لوگوں کے شیئرز کوڑیوں کے بھاو ہوگئے۔ اور یوں رتھس چائلڈ نے کمپنیوں کے میجورٹی شیئر سستے داموں خرید کر بہت سی کمپنیوں کے میجر شیئر ہولڈر بن گئے۔۔اسی رتھس چائلڈ کو آج پاکستان میں
آئی ایم ایف کی جگہ بلایا گیا ہے۔۔ماضی میں عمران خان کو جب ی ہودی ایجنٹ کہا جاتا تھا تو عمران خان پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ رتھس چائلڈ عمران خان کا سسر اور جمائما کے والد گولڈ سمتھ کا رشتہ دار ہے اور یہ عمران خان رتھس چائلڈ کے ذریعے پاکستان میں اسرایئلی ایجنٹ ہے۔۔لیکن آج اسی
#خان_بمقابلہ_کرپٹ_نظام
فری میسن کون ہیں اگر اس متعلق جاننا چاہتے ہو تو ترکش ڈرامہ سلطان عبدالحمید لازمی دیکھو. اس ڈرامے میں سلطنت عثمانیہ کے آخری دور کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح دشمن اپنی چالیں چل کر سلطنت عثمانیہ کے وجود کو ختم کر دیتے ہیں. اس ڈرامے کا ایک کردار ہے روتھس چائلڈ
جو کہ بظاہر ایک بینکر ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ سلطان عبدالحمید کو معزول کرنے کے لیے سازشی گروہ کا سرغنہ ہوتا ہے. اس ڈرامے میں بتایا گیا ہے کہ روتھس چائلڈ کس طرح سازش کر کے پہلے سلطنت عثمانیہ کو قرضوں کے دلدل میں پھنساتا ہے اور پھر ان قرضوں کی وصولی کے لیے سلطنت کو اپنی خودمختاری
تک پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اور بالآخر سلطنت عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ختم ہو جاتی ہے. سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کر کے اسرائیل کو قائم کرنے والا بھی روتھس چائلڈ ہی تھا جو کہ درحقیقت تھیوڈر ہرزل اور کاراسو کا سرپرست تھا جنہوں نے اسرائیل کے قیام کی تحریک شروع کی.
یہ بڑا ایک مشہور کیس تھا جس پر بات کرنے سے پہلے میں اس کی ڈیٹیل بتادوں تاکہ معاملہ آپ سب کو سمجھ آئے اور پھر آپکو جسٹس منصور علی شاہ جسٹس مندوخیل کی منافقت پتہ چلے۔
زرداری کی گورنمنٹ نے ایران سے گیس پائپ لایئن کا معاہدہ کیا اور معاہدے کے
بعد انڈسٹریز پر جی آئی ڈی سی کے نام پر ایک ٹیکس عائد کیا جس کی رو سے یہ انڈسٹریاں گورنمنٹ کو پیسے دیں گی اور گورنمنٹ اس پیسے ایران گیس پایئپ لایئن بچھائے گی تاکہ گیس کی ڈیمانڈ اور سپلائی کے گیپ کو کم کیا جائے۔۔
زرداری کی حکومت نے بھی یہ معاہدہ کرکے ان انڈسٹریز سے پیسے لے لیے
لیکن اس کی حکومت ختم ہوگئی اس کے بعد ن لیگ کی حکومت آئی اور اس حکومت نے یہ منصوبہ ہی کھٹائی میں ڈال دیا اور اس کی بجائے قطر سے پاکستان کی تاریخ کا مہنگا ترین ایل این جی کا معاہدہ کرلیا اب اس پر ان انڈسٹریوں نے ہایئکورٹ میں پٹیشنز دائر کردی کہ گیس پائپ لایئن تعمیر نہیں کرنی تو
#خان_بمقابلہ_کرپٹ_نظام
یہ اب الیکشن کروائیں یا نہ کروائیں، دونوں صورتوں میں ذلالت ان کا مقدر ہے
الیکشن میں perception کی بہت اہمیت ہے۔ تحریک انصاف تن تنہا یہ پرسیپشن بنانے میں کامیاب ہوچکی کہ وہ عوامی سطح پر اس قدر مقبول ہوچکی ہے کہ 1 درجن سے زائد پارٹیاں، اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور
مدد کے باوجود اس کا انتخابی میدان میں سامنا کرنے سے بری طرح گھبرا رہی ہیں
اس پرسیپشن کا تحریک انصاف کو زبردست فائدہ پہنچے گا
دوسری طرف اب یہ الیکشن نہیں کرواتے تو یہ ساری جماعتیں اور ان کا سپورٹر تاریخ میں آئین شکنی اور غیر جمہوری رویوں کی کالک اپنے منہ پر ہمیشہ کے لیے مل لے گا
یہ تاریخ میں، ویسی گالیاں کھائیں گے، جیسے آج تک 71 کے کرداروں اور ضیاء الحق کے زمانے میں انتخابات ٹالنے والے کھاتے ہیں
اسی صورتحال کی وجہ سے پی ڈی ایم کا سپورٹر سوشل میڈیا پر سنجیدہ بیانیہ چھوڑ کر بھاگ چکا ہے
"پہلے (میرے باپ کے ساتھ) انصاف ہوگا، پھر الیکشن ہوگا"
یعنی،
پہلے اس کے حرام خور باپ کے کیسز ریورس کیے جائیں، پھر الیکشن ہوسکتا ہے، اس سے پہلے نہیں
آئین کی کوئی اوقات ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
اس عورت نے بیچ بازار آئین اور ادارے ننگے کردئیے
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جرنیلوں نے اس کے باپ کو
ملک سے بھگادیا۔ اس کا چچا ان کا ملازم۔ زرداری غائب، بلاول جی حضوری۔ ملا فضل الرحمن بیماری کی آڑ میں رفو چکر۔ خواجہ آصف سیاست سے بیزاری کا اعلان کررہا ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے پلان سے سامنے سب ڈھیلے پڑ گئے
پر ایک مریم اسٹیبلشمنٹ کو پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔
کیوں؟
اس کے پاس کوئی عہدہ
نہیں (عہدے کو تو وہ خیر لفٹ بھی نہیں کرواتے)
اس کے پاس معمولی عوامی سپورٹ ہے۔ اس کے جلسے خالی پڑے ہوتے ہیں۔ بڑی جلسہ گاہوں سے سمٹ کر اب تمبوؤں میں آچکی ہے
اس کے باوجود عدالتیں اور جرنیل اس کے آگے سرنڈر کیے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔