سُنو، بنتِ حوّا !
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں
آؤ تسلی سے نمٹائیں جھگڑا
یہ حوّا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں اور جانتا ہُوں
کہ مرد اور عورت ہی فطرت کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
اور دونوں ہی لازم ہیں، دونوں ضروری
👇
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
مجھے یہ خبر ہے
کہ مرد اور عورت محبت کے سکے کے دو رُخ ہیں
اور دونوں رُخ ہیں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
تم اور میں بہت دیر سے ہم سفر ہیں
تُم اور مَیں اکٹھے ہی جنت کے گھر سے نکالے گئے تھے
اور اس خاکداں میں اُچھالے گئے تھے
👇
چلو میں نے مانا کہ شہرِ ہوس میں ہیں کافی درندے
جنہوں نے سدا ابنِ آدم کی شہرت کو پامال رکھا
مگر وہ درندے تو گنتی کے ہیں
ان گنت مرد وہ ہیں جنہوں نے تمہیں شان و تکریم بخشی
کبھی باپ بن کر،کبھی بھائی بن کر،کبھی بیٹا بن کر
وہی باپ جس نے تمہارے لیے اپنی جاں بیچ کر بھی کھلونے خریدے
👇
وہی بھائی جس نے تمہارے دوپٹّے کو قُرآن کی طرح پاکیزہ جانا
وہی بیٹا جس نے ہمیشہ تمہارے ہی پیروں تلے اپنی جنت تلاشی
یہ سب مرد ہیں اور تمہارے محافظ
گلی میں اگر اک درندے نے تم پر کسا کوئی جُملہ
کئی اجنبی مرد بھی تب تمہاری حفاظت کو آئے
کوئی مرد تیزاب گردی کو آیا
👇
تو کتنے ہی مردوں نے تم کو بچایا
سُنو بنتِ حوّا !
بہن بھی ہو، بیٹی بھی ہو، ماں بھی ہو تم
مِرے سارے دردوں کا درماں بھی ہو تُم
مگر یہ بھی سچ ہے
تمہارے لیے مَیں شریکِ حیات و شریکِ سفر ہُوں
شریکِ غمِ جاں، شریک شبِ غم، شریکِ سحر ہُوں
تمہارا ہر اک اشک ہے میرا آنسو
👇
تمہاری ہنسی میری اپنی ہنسی ہے
چلو صلح کرلیں
چلو اپنے بچوں کی آئندہ نسلوں کی خاطر
محبت کی آئندہ فصلوں کی خاطر
جھگڑنا کریں ختم اور صلح کریں
چلیں آج شانہ بشانہ نئی زندگی کے نئے مارچ میں ہم
کہ جس میں چلےگی برابر برابر
تمہاری بھی مرضی
ہماری بھی مرضی
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں
ملیے شاہدہ رضا سے،
اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ
👇
فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ
👇
کر دیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا
پہلے وہ ترکی پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی،اِس سفر کے چوتھےروز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ
👇
جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چکڑالہ میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل
👇
کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر
👇
میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
👇
زیادتی کر رکھی ہے: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقین جانو اللہ سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، یقیناً وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے، بس تم اپنے رب سے لو لگالو۔‘‘
کسان اپنے گدھے کو اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے ہمسائے سے رسی مانگنے گیا تو ہمسائے نے انکار کرتے ہوئے کہا؛ رسی تو نہیں ہے میرے پاس، مگر ایک بات بتاؤں، جا کر عمل کرو تو رسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہمسائے نے کہا؛ اپنے گدھے کے پاس جا کر بالکل ایسی حرکتیں کرو جیسے رسی کو گردن میں
👇
ڈال کر کستے اور پھر کھونٹی کے ساتھ باندھتے ہیں، دیکھنا گدھا بغیر کوئی حرکت کیے ویسے ہی کھونٹے کے پاس کھڑا رہے گا۔
کسان نے گدھے کے پاس جا کر ہمسائے کی نصیحت پر عمل کیا اور گھر میں جا کر سو گیا۔ دوسری صبح باہر جا کر دیکھا تو گدھا ویسے کا ویسا کھونٹے کے پاس بیٹھا ہے۔
کسان نے گدھے
👇
کو ہانک کر کام پر لے جانا چاہا تو نئی آفت آن پڑی کہ گدھا اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نا ہوا۔ کھینچنے، زور لگانے اور ڈنڈے برسانے سے بھی کام نا بنا تو ہمسائے سے جا کر کہا؛ بھئی تیری نصیحت باندھ دینے تک تو ٹھیک تھی مگر اب میرا گدھا کام تو جاتا رہا ہے، اب کیا کروں؟
ہمسائے نے پوچھا؛
👇
لیو پولڈویس ١٩٢٠ء کی دہائی میں جرمنی کے شہر " برلن" میں فلسفہ کا استاد تھا۔برلن یونیورسٹی تک پہنچنے کے لئے وہ روزانہ ریل پر سوار ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتا۔ریل کے سفر میں کوئی شخص اخبار پڑھ رہا ہوتا، کوئی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوتا اور کوئی ویسے ہی اونگھ رہا ہوتا ۔
👇
لیکن پروفیسر لیو پولڈویس فلسفہ کا استاد تھا وہ کتاب یا اخبار کے بجائے لوگوں کے چہرے دیکھتا اور یہ جانچنے کی کوشش کرتا کہ. مسافروں کے دلوں پر کیا بیت رہی ہے ۔ایک روز اچانک اس پر انکشاف ہوا کہ ٹرین پر سوار ملازمت پر جانے والے افراد خوشی اور سکون کے جذبے سے خالی ہیں ۔اسے اس
👇
انکشاف پر حیرت بھی ہوئی، کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں بے روزگاری زوروں پر تھی اور بہت کم لوگ ایسی ملازمتیں حاصل کر سکتے تھے جس کے لیے وہ ٹرین پر سوار ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتے۔
پھر لیوپڈ نے اپنی سوچ کو مزید پھیلایا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ لوگ ہنستے بھی ہیں، مذاق
👇
اگر ایک تنہا کمرے میں ایک مرد اور ایک عورت کو بند کیا جائے اور ان کو صرف اتنا بتا دیا جائے کہ یہاں کیمرہ لگا ہے جو آپ کے حرکات کو ریکارڈ کر رہا ہے اور بوقت ضرورت یہ پبلک بھی ہوسکتا ہے، تو کوئی بھی صاحب عقل، عزت دار اور خاندانی انسان اس خوف کے
👇
مارے غلط حرکت نہیں کرسکتا کہ کہیں لوگوں کے سامنے رسوا نہ ہوجاوں۔
کیوں؟
اس لئے کہ ہمیں اس چھوٹی سی مشین پر یقین ہے اور اس کے مالک سے ڈر ہے اور دنیا میں اپنے جاننے والوں کے درمیان رسوائی کا خوف ہے۔
جبکہ یہی تنبیہ ہمیں مالک کائنات نے سچ اور حق کتاب میں فرمائی ہے کہ آپ کا لمحہ
👇
لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے،
انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا ، مگر اس پر ایک نگراں فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، ہر وقت اس کے ہر عمل کو لکھنے کے لیے تیار !
🔹سورہ ق 18
یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے
🔹سورہ فجر 14
خلوت میں ہو یا جلوت میں، یہ ریکارڈنگ آلات کسی بھی
👇