کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا خبط تھا۔ اس کے لیے وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نرالا کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔ ایک روز اس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ میں روز روز لباس بدلنے سے تنگ آ چکا ہوں، مجھے کوئی ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے، ایسا لباس
👇
جو کسی کے پاس نہ ہو، اوراگر تم ایسا نہ کر سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گیایسا لباس نہ بننا تھا نہ بنا۔ آخر بادشاہ کا بلاوا آ گیا، درزی نےاپنی زندگی کی آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، جان تو ویسے بھی جانا ہی تھی، کچھ چالاکی کر کے آخری کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یہی سوچ کر وہ
👇
ایک مرصع صندوق لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لباس تیار ہے، بس حضور یہ احتیاط فرمائیں کہ اسکو غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں، ایسا لباس دنیا میں ایک ہی ہے، اسکی خوبیاں بے شمار ہیں۔ آخری خوبی اسکی یہ ہے کہ یہ لباس صرف عقل مند اور دور اندیش بندے کو ہی
👇
نظر آئے گا،کسی عقل کے اندھے کو اس لباس کا ایک دھاگہ بھی دکھائی نہ دے گا۔بادشاہ خوشی خوشی صندوق لے کر غسل کرنے گیا اور جیسا کہ آپ نے جان لیا، جب وہ حمام سے باہر نکل کر لباس پہننے لگا تو صندوق خالی تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ لباس تو موجود ہے، مگر چونکہ وہ خود عقل کا اندھا ہے، اس لیے
👇
اسکو نظر نہیں آ رہا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ باہر کیسے جائے۔ خیر رستہ ایک ہی بچا تھا، وہ ننگا ہی کمر پر ایسے ہاتھ رکھ کر ایک بازو پھیلائے ، جیسے وہ لباس کا ایک پلو سنبھالے ہوئے ہے، دربار میں آ نکلا۔اب دربار میں ہر شخص کو علم تھا کہ آج بادشاہ ایسا لباس پہن کر آنے والا ہے جو صرف
👇
عقل مندوں کو نظر آتا ہے۔ بے وقوف کو اس لباس کا دھاگہ تک نظر نہیں آتا۔ سب سے پہلے وزیر اعظم نے اپنی نوکری بچائی، اور واہ واہ کا شور بلند کر دیا، کہ کیا لباس ہے، ایسا لباس کبھی دیکھا نہ سنا، کیا سنہری تاریں ہیں، کیا لاٹیں مارتا دامن ہے، واہ کیا بات ہے۔ جب درباریوں نے ننگے بادشاہ
👇
کے بارے میں وزیر اعظم کا یہ بیان سنا تو سب لباس کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔اتنے میں وزیر اعظم نے صلاح دی کہ پوری رعایا کو اس لباس کی زیارت کروانا چاہیے۔ سب درباریوں نے اسکی تائید کی، اور اگلے روز منادی والے ڈھول لیکر شہر کے گلی کونوں میں پھیل گئے اور ڈھول پیٹ پیٹ کر منادی
👇
کروا دی کہ ظل سبحانی، بادشاہ سلامت، ایک انوکھے لباس کے ساتھ پورے شہر کا دورہ کریں گے۔ اس لباس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عقلمند کو نظر آئے گا، بے وقوف کو اس کا ایک دھاگہ بھی نہ دکھ پائے گا۔۔
اگلے روز کے سورج نے وہ انوکھا لباس تو نہ دیکھا کہ سورج بھی مہا مورکھ تھا، مگر اس
👇
نے اپنی زندگی کا انوکھا منظر ضرور دیکھا، کہ ایک بادشاہ الف ننگا گھوڑے پر سوار، ایک ہاتھ ہوا میں ایسے اٹھائے ، جیسے لباس کا پلو پکڑے ہوئے ہے، چلا جا رہا ہے، اور اسکے جلو میں سینکڑوں چاپلوس درباری چلے آرہے ہیں، اور رعایا سڑکوں کے کنارے کھڑی بادشاہ پر پھول برسا رہی ہے۔ ہر کوئی اس
👇
ان دیکھے لباس کو دیکھ کر واہ واہ کر رہا ہے۔ کوئی شخص بھی دوسروں کو یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اسے لباس نظر نہیں آ رہا، کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اسکو بیوقوف سمجھ لیا جائے گا۔کرنا خدا کا یہ ہوا کہ یہ جلوس ایک کھیل کے میدان کی طرف جا نکلا ،
جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ وہاں کھیلتے سب سے چھوٹے
👇
بچے نے جب یہ ہییت کذائی دیکھی تو چلا اٹھا، ارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے،ارے دیکھو دیکھو، سارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے
باقی بچوں نے بھی جب دیکھا تو سب اکٹھے ہو کر چلانے لگے
بادشاہ ننگا،بادشاہ ننگا
دوستو! کوئی ہےجو مخلوق خدا کوبتائے کہ بادشاہ ننگا ہے؟
تختہ کھینچا گیا تو ایک جسم دار پر جھولنے لگا جسے دیکھ کر سامنے کھڑی بوڑھی عورت کی آنکھ سے ایک اشک نکل کر اس کے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا..
یہ 5 جون 1992 تھا، ٹنڈو بہاول سندھ کے گاؤں میں
👇
ایک حاضر سروس میجر ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر9 کسانوں کو گاڑیوں میں بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر گولیاں مار کر قتل کر دیا
فوج کے ان افسران نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے اور ان کا تعلق بھارت سے تھا
لاشیں گاؤں آئیں
👇
تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہر ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے، ان ماؤں میں ایک 72 سال کی بوڑھی عورت مائی جندو بھی تھی۔
اس کے سامنے اس کے دو بیٹوں بہادر اور منٹھار کے علاوہ داماد حاجی اکرم کی لاش پڑی تھی مگر وہ خاموش تھی،
👇
گزشتہ دنوں ڈاکٹر محسن ممتاز صاحب ملتان سے اپنے نجی کام سے واپس وہاڑی آرہے تھے کہ راستے میں سڑک کنارے چار کار سواروں کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار دیں. دو کو کولہے کی ہڈی کے پاس ٹانگوں میں اور دو کو پیٹ میں گولیاں لگیں.
👇
وحشت کا عالم ھے مریض درد سے کراہ رہے ہیں ڈر کے مارے لوگ گاڑیاں بھگا کر لے جا رہے کہ ان پر بھی حملہ نہ ھو جائے
ڈاکٹر محسن کی گاڑی اسی سڑک سے گزرتی ھے خون میں لت پت چار لوگوں پر نظر پڑتی ھے. جذبہء مسیحائی غالب آتا ھے. تمام خطرات مول لیتے ہوئے گاڑی سائیڈ پر کرتے ہیں اور 1122 کو
👇
پہلے کال کرتے ہیں. پھر اپنی گاڑی سے ایمرجنسی کٹ نکال کر درد سے کراہتے افراد کی طرف بڑھتے ھیں. فوری چاروں مریضوں کے جسموں سے نکلتے خون کو روکنے کی کوشش میں لگ جاتے. ریسکیو 1122 کی ایمبولینس آتی ھے تو ڈاکٹر محسن ان چاروں کو ملتان نشتر ہسپتال بھیجتے ھیں اور ساتھ وہاں جاننے والے
👇
احمقوں کی بستی میں ایک بکرے کا سر گھڑے میں پھنس گیا۔ سب بستی والے اکٹھے ہوئے مگر بکرے کا سر گھڑے سے نہیں نکال سکے
آخر فیصلہ ہوا کہ بستی کے سب سے سیانے بزرگ کے پاس چلتے ہیں
بزرگ نے ساری کتھا سنی،حقے کے دو کش لگائے اور آنکھیں بند کر کے گہری سوچ میں ڈوب گیا
👇
پھر آنکھیں کھولیں اور بولا کہ اتنا آسان حل ہے، تم احمقوں کو کیوں سمجھ نہیں آیا۔
بستی کا ایک لڑکا کھڑا ہوا اور بولا میں نے کتنی بار کہا ہے کہ گھڑا توڑ دو مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن میری کوئی سنتا ہی نہیں۔
بزرگ نے ایک کش اور لگایا اور غصے سے بولا کہ گھڑا توڑتے ہوئے بکرے کو
👇
چوٹیں لگیں گی اور اسے تکلیف ہوئی تو کون ذمہ دار ہو گا؟
سب احمقوں نے ستائشی انداز میں سر ہلا کر بزرگ کی دانش کو داد دی۔ اور لڑکا شرمسار ہو کر بیٹھ گیا
آخر بزرگ نے کہا ایک چھری لاؤ۔ چھری آ گئی تو اس نے بکرے کی گردن کاٹنے کا حکم دیا
ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرکٹ کے مقابلے بھی پوری چکا چوند سے جاری ہیں اور جہاں سے لوگ نقل مکانی کرتے ہوئے اپنی جان بھی گنوا رہے ہیں
ملیے شاہدہ رضا سے،
اِن کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تھا،یہ
👇
فٹ بال اور ہاکی کی غالباً واحد خاتون کھلاڑی تھیں جنہوں نے بیک وقت دو کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی، اِن کا ایک معذور بیٹا تھا ، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کا علاج ہواور وہ باقی بچوں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے ، انہیں جو بھی تنخواہ ملتی وہ اپنےتین سال کے معذور بچے پر خرچ
👇
کر دیتیں مگر گزشتہ برس جب اُن کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ بالکل دل برداشتہ ہوگئیں اور انہوں نےبچے کے علاج کی خاطرملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا
پہلے وہ ترکی پہنچیں اور پھر وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچنے کی کوشش کی،اِس سفر کے چوتھےروز تک اُن کا اپنے خاندان والوں سے رابطہ تھا اور وہ
👇
جب نمبر دار علاقہ کے ذمہ دار ہوا کرتے تھے تب مسافر کے علاج اور دیکھ بھال نہ کرنے پر نمبردار پر پرچہ ہوا تھا
تھانہ چکڑالہ میں انگریز حکمران کے اقتدار میں درج ایک تاریخی ایف آئی آر ملاحظہ کریں
یہ 1911 میں تھانہ چکڑالہ میں درج ایک ایف آئی آر ہے ۔یہ ایف آئی آر اُس وقت کے ابا خیل
👇
کے ایک نمبردار پر درج ہوئی ۔ نمبردار کا نام سردار خان لکھا ہوا ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نمبردار کا جُرم یہ تھا کہ ایک مسافر ابا خیل میں آیا ،بیمار ہوا اور ایک بیری کے درخت کے نیچے فوت ہوگیا ۔اُس کے بعد پولیس نے پتہ کیا تو وہ شخص کیمبل پُور اٹک کا رہنے والا تھا۔ اس ایف آئی آر
👇
میں لکھا ہوا ہے کہ نمبردار صاحب آپکی ذمہ دار تھی کہ آپ اُس مسافر کا علاج کرواتے اور آپ اُسکو کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے آپکی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ایک انسان کی قیمتی جان چلی گئی ہے آپکو آپنے علاقے کا پتہ نہیں ہے.۔۔۔۔۔
👇
سُنو، بنتِ حوّا !
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں
آؤ تسلی سے نمٹائیں جھگڑا
یہ حوّا کی عزت کا ہوّا بنا کر دکھایا گیا ہے
مجھے تم سے ناحق لڑایا گیا ہے
مَیں آدم کا بیٹا ہُوں اور جانتا ہُوں
کہ مرد اور عورت ہی فطرت کی گاڑی کے پہیے ہیں دو
اور دونوں ہی لازم ہیں، دونوں ضروری
👇
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
مجھے یہ خبر ہے
کہ مرد اور عورت محبت کے سکے کے دو رُخ ہیں
اور دونوں رُخ ہیں ضروری
نہ ہو ایک بھی تو کہانی ادھوری
تم اور میں بہت دیر سے ہم سفر ہیں
تُم اور مَیں اکٹھے ہی جنت کے گھر سے نکالے گئے تھے
اور اس خاکداں میں اُچھالے گئے تھے
👇
چلو میں نے مانا کہ شہرِ ہوس میں ہیں کافی درندے
جنہوں نے سدا ابنِ آدم کی شہرت کو پامال رکھا
مگر وہ درندے تو گنتی کے ہیں
ان گنت مرد وہ ہیں جنہوں نے تمہیں شان و تکریم بخشی
کبھی باپ بن کر،کبھی بھائی بن کر،کبھی بیٹا بن کر
وہی باپ جس نے تمہارے لیے اپنی جاں بیچ کر بھی کھلونے خریدے
👇