اسٹیبلشمنٹ کو جب بھی کسی سیاسی لیڈر کو ٹھکانے لگانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے اس پر اینٹی اسٹیٹ کا ٹھپہ لگاتے اور کہتے کہ یہ شخص
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سودا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پاکستان کی اکثریتی عوام جو کہ پاکستان سے محبت کرتی ہے ان کے بہکاوے میں آ جاتی اور اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان ہو جاتا جیسے انہوں نے شیخ مجیب رح کے ساتھ کیا.
اس کے بعد سب سے اہم طبقہ آتا ہے اور وہ ہے مذہبی طبقہ. یہ تو سب کو
ہی معلوم ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقہ بڑے بڑے شہروں سے ملک کے پسماندہ ترین دیہاتوں تک اپنی مضبوط جڑیں مضبوط کر چکا ہے. اور یہی وہ جڑیں ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ بڑی آسانی سے اپنے دشمنوں کے لیے پھان سی کے پھندے میں تبدیل کر دیتی ہے. بس کسی بھی لیڈر کے متعلق یہ مشہور کروا دو کہ وہ شخص
گستاخ ہے یا پھر ایرانی لابی ہے یا پھر قادیا نی لابی ہے پھر کسی یہو دی ایجنڈے کی سازش کر رہا ہے. بس پھر کیا اس لیڈر کی حکومت ختم کر دو تاکہ عوام کی بڑی تعداد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہو جائے جن کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ نے ایک اسلام دشمن حکومت کا خاتمہ کیا ہے. جیسے انہوں نے بینظیر بھٹو
کی دونوں حکومتیں ختم کرتے وقت کیا اور جب بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور پھر اسے لٹکانا مقصود تھا تو ضیاء الحق پاکستان کی تقریباً تمام تر مذہبی جماعتیں ضیاء الحق کے ساتھ کھڑی ہو گئی جس کی وجہ سے بھٹو جیسے لیڈر کے قتل پر بھی عوام جشن مناتی رہی کہ ضیاء الحق نے اسلام کے خلاف سازش کرنے
والے کو اپنے انجام تک پہنچایا.
اسکے بعد آتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے سب سے اہم اور فکری اسٹریٹیجک اثاثوں یعنی لبرل طبقے پر. یہ طبقہ زیادہ تر میڈیا سے وابستہ ہے جنہیں پاکستان کی کروڑوں عوام پڑھتی ہے یا یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ یہی وہ طبقہ ہے جو طے کرتا ہے کہ عوام کو کس بیانیے کے
پیچھے لگانا ہے. اسٹیبلشمنٹ جب دیکھتی ہے کہ کسی لیڈر کے خلاف انکا اینٹی پاکستان اور اینٹی اسلام کارڈ ناکام ہو رہا ہے تو وہ ایک بیانیہ اپنے لبرل طبقے کے حوالے کرتے ہیں کہ یہ لیڈر اس قدر مذہبی شدت پسند ہے کہ آپ داڑھی کے بغیر باہر نہیں نکل سکیں گے اور آپ کو نماز نہ پڑھنے پر کوڑے
مارے جائیں گے جینز پہننا حرام ہوگا اور آپ کی بہنوں کو گھروں میں قید یر دیا جائے گا. بس اس بیانیے کو وہ لبرل طبقہ عوام کے سامنے اتنی مرتبہ دہراتا ہے جس سے عوام میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اگر اس لیڈر کا خاتمہ نہیں ہوا تو یہ ہمیں دور جاہلیت میں پہنچا دے گا. جیسے لال
مسجد اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے لئے اسی طبقے کے ذریعے عوام کو تیار کیا گیا.
مگر اب انکے تینوں کارڈ بیکار ہو چکے ہیں کیونکہ وہ عمران خان کے خلاف اینٹی پاکستان کارڈ استعمال نہیں کر سکتے کہ اس شخص نے پاکستان کی محبت میں ایسے ایسے کارنامے انجام دے رکھے ہیں جو دنیا بھر میں
پاکستان کی پہچان ہے. اسٹیبلشمنٹ اس پر اینٹی اسلام کارڈ بھی استعمال نہیں کر سکتی کیونکہ عمران خان انٹرنیشنل سطح پر اسلامی مقدمات لڑنے والی سب سے طاقتور آواز کے طور پر جانا چاہتا ہے. اسٹیبلشمنٹ اسکے خلاف اپنا لبرل ازم کارڈ بھی استعمال نہیں کر سکتی کہ وہ دنیا بھر میں روشن خیالی
کا برانڈ بن چکا ہے.
اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب ایک ہی کارڈ بچ جاتا ہے اور وہ "آئی ایم سوری" والا کارڈ کے اس کارڈ پر اپنے گناہوں سے سچی توبہ لکھ کر عمران خان کو بھیج دیں شاید وہ معاف کر دے.
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
#چوروں_کا_یار_خود_بھی_غدار
جس وقت ہم پاکستان کا پوری دنیا کے سامنے تماشا بنا کر، یہاں سے انویسٹمنٹ بھگا رہے ہیں، عین اسی وقت بھارت، دبئی کے بزنس جائنٹ Emaar گروپ کو کشمیر میں انویسٹمنٹ کروانے میں کامیاب ہوچکا
دبئی، بھارتی حکومت کے "زیر انتظام" کشمیر میں انویسٹ کررہا ہے
یعنی،
ریاست دبئی، پاکستان کے بھارتی کشمیر کے حوالے سے سرکاری مؤقف کو کھلم کھلا پیروں تلے روند چکی
یہ بھارت کی بڑی کامیابی ہے
یہ ابتداء ہے۔ اس گروپ کی دیکھا دیکھی، مختلف ممالک کے بزنس گروپ یہاں پر انویسٹمنٹ کرنے میں دلچسپی لینا شروع کریں گے۔
اب یہاں پر گڑبڑ کرنے کا مطلب ہے
انٹرنیشنل انویسٹرز کے مالی مفادات کو زک پہنچانا، جو وہ اور ان کے ملک کبھی برداشت نہیں کریں گے
محنتی اور مخلص قومیں اسی طرح قومی مفادات پر دل و جان سے فوکس کرتی اور نتائج حاصل کرتی ہیں
بھارت نے اس پر برسوں کام کیا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ معشیت سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ دنیا کو نت نئی
#ZamanPark_under_attack
لندن سے بھگوڑا چیختا ہے کہ عمران خان کو ہمارے سر پہ بٹھا رکھا ہے اور وہ پنجاب میں بیٹھ کر ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے۔ اسے یہاں سے نکالو یا مار دو ۔ ایک مہینے میں حالات نارمل ہو جائیں گے پھر میں واپس آ جاؤں گا ،
حافظ ڈرٹی پہ چلاتا ہے کہ یہ شخص تم سے گرفتار
نہیں ہو رہا ۔اس نے ہماری عزت خاک میں ملا دی ہے ،
ڈرٹی ہیری محسن نقوی اور رانا ثنا اللہ کو گندی گالیاں دے کر تلملاتا رہتا ہے کہ اسے پکڑو یا ختم کرو ،
رانا ثناء اللہ اور محسن نقوی آئی جی کو جھاڑ پلاتے ہیں کہ تم کیا کر رہے ہو ،
ایک خراب چھوکری جاتی امرا میں مٹھیاں بھینچ رہی
ہوتی ہے کہ عمران خان ڈان بن چکا ہے ، اس کا قصہ ختم کرو ،
المختصر عمران خان ان کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اسلام آباد میں فول پروف انتظامات اور زمان پارک میں تھوڑ پھوڑ کے باوجود اس کا بچ جانا اور واپس زمان پارک ہی آنا ان کے توقعات کے برعکس تھا ۔ اب اس نے مینار پاکستان پہ اپنے
#عمران_خان_ہماری_ریڈ_لائن
71 میں، اسٹیبلشمنٹ اور اس کی ٹاؤٹ جماعتیں بنگالیوں سے "مایوس" ہوچکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بنگالیوں پر اب ان کا کوئی پروپگینڈا کارگر نہیں رہا۔ وہ یک جت ہوکر مجیب الرحمٰن کے پیچھے کھڑے ہوگئے تھے
یعنی،
بنگالی اس پورے استعماری و جاگیرداری مائنڈ سیٹ کے
خلاف فیصلہ کن اسٹانس لے چکے تھے
بنگالیوں سے اسی "مایوسی" کی بناء پر، اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ٹاؤٹس نے، ان کے خود سے الگ ہوجانے کا مائنڈ بنا چکے تھے۔ انھیں غدار قرار دینا، بھرے جلسوں میں انھیں فحش گالیاں بکنا (سؤر کے بچوں) وغیرہ جیسی باتیں تاریخ کا حصہ ہیں
اب،
اسٹیبلشمنٹ اور ان
کے سیاسی ٹاؤٹس کا پختونوں کے ساتھ وہی رویہ ہوتا جارہا ہے جو بنگالیوں کے ساتھ تھا۔ انھیں حیلے بہانوں سے، دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے
وجہ وہی پرانی ہے،
یہ اب پختونوں سے بھی "مایوس" ہوتے جارہے ہیں۔ سندھ پنجاب وغیرہ میں تو ان کی ابھی بھی کافی جڑیں ہیں پر خیبرپختونخوا میں ان کا
#زمان_پارک
جب 1996 میں عمران خان نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو ن لیگ نے عمران خان کو اپنی پارٹی جوائن کرنے کی دعوت دی۔ اس دعوت کو عمران خان نے ٹھکرا دیا اور تحریک انصاف لانچ کردی
اپنے مقابل ایک مقبول شخصیت کو آتا دیکھ کر ن لیگ حسب عادت ذاتی انتقام پر اتر آئی @ImranKhanPTI 💞
اس حوالے سے انھوں نے جمائما خان جیسی انتہائی امیر خاتون کو نشانہ بناتے ہوئے، ان پر ٹائلز اسمگلنگ کا جھوٹا کیس بنادیا
عمران خان پر یہودی ایجنٹ جیسے الزامات بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے
جمائما جو برطانیہ جیسے قانون پسند ملک کی شہری رہیں تھیں، وہ ن لیگ کے گھٹیا ہتھکنڈے برداشت نہ
کرسکی اور اس نے عمران خان کے سامنے فیملی اور پاکستان کے لیے سیاست میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا آپشن دیا
ایک انٹرویو نے جمائما نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ،
"میرے لیے پاکستان میں عمران خان کی سیاسی زندگی کے ساتھ چلنا مشکل تھا"
#عمران_خان_ہماری_ریڈ_لائن
تم نے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی چاہے مخالف مسلح ہو یا نہتا ۔ کشمیر کے محاذ پہ تم نے شکست کھائی ، پینسٹھ میں تم نے شکست کھائی ، نہتے بنگالیوں سے تم نے شکست کھائی ، بھارتی فوج کے سامنے تم نے سرنڈر کیا ، سیاچن پہ تم نے شکست کھائی ، کارگل تم ہارے
جب بھی ملک کو دفاع کی ضرورت پڑی ، یہی عوام بارڈر تک پہنچی اور آج بھی یہی کھڑی ہے۔ کل لاہور، سیالکوٹ اور کشمیر کے محاذ پہ دشمن کے سامنے یہی قوم تھی اور آج لاہور اور اسلام آباد میں حقیقی دشمن کے سامنے بھی یہی قوم ہے۔ تمھیں لگتا یے کہ تم اپنی اس نام نہاد طاقت کا استعمال کر کے
یہ جنگ جیت لو گے تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے۔ تم اس قوم کو جنگ کی جانب دھکیل رہے ہو لیکن جب چنگاری سلگ پڑی تو پھر تمہارا اپنے گھروں میں رہنا حرام ہو جائے گا۔ تمہارے کور کمانڈرز اپنی سیکورٹی کےلیے پولیس کو ہاتھ جوڑیں گے لیکن تب وہ بھی نہیں آئے گی۔ اس بار قوم ٹینکوں کے نیچے