کافی لوگوں نے میرے پرانے کالم جسمیں میں نے عمران خان کے خاندان کا شجرہ نسب بیان کیا تھا پوچھا کہ عمران خان کا نانا تو کٹر قادیانی تھا۔۔ اسکے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
اس بات نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا تاکہ سادہ لوح مسلمان پاکستانی اس سیاست نامی مافیا کے ہاتھوں
(1/11)
(2/11)
کم ازکم اپنا ایمان تو بچا سکیں۔
منشی گوہر والا سارا جھوٹ کا پلندہ ہے بحیثیت مسلمان میں نے اس پر پوری تحقیق کی ہے۔ یہ سارا جھوٹا پروپیگنڈا حسب رواٸت ن لیک کی طرف سے تھا۔ جسکو فضلو اور اسکے اندھے مٶقلدین پیروکاروں نے سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر ” اَنَّے وا “
(3/11)
پھیلایا۔
نبی اکرم صلى الله عليه واله وسلم کی ایک حدیث کے مفہوم کے مطابق اگر آپ کسی کو کافر کہہ رہے ہیں اگر وہ نہیں ہے تو پلٹ کر آپ کافر ہوجاتے ہیں۔
دوستو۔۔! یہ دین کا معاملہ ہے اس پر احتیاط بےحد ضروری ہے۔ مگر ملاں فضلو کے پیروکاروں کو اس سے کوٸی سروکار نہیں ہے۔ ان
(4/11)
کےہاں شاٸد معاذاللہ قرآن و حدیث کی کوٸی اہمیت نہیں۔۔ کیونکہ یہ فول پروف پیروکار قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ملاں فضلو کے جھوٹ اور غلیظ پروپیگنڈے پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنا اور اسے آگے پھیلانا عین دین سمجھتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے اب ان کے پروپیگنڈے کے زیراثر بغض عمران میں
(5/11)
نَک نَک ڈوبے اسٹیبلشمنٹ کے ہاٸی جیک کردہ لبیکی بھی من و عن ثواب سمجھ کر دھڑادھڑ لعنت لکھ لکھ کر شٸیر کرواتے ہیں۔
ویسے حیرت ہے اپنے سیاسی مقاصد کیلیے یہ نام نہاد ”عاشق رسول“ اس قدر بہادر ہوجاتے ہیں کہ اپنے اساس اپنے دین اور اپنے آقا صلى الله عليه واله وسلم کے
(6/11)
فرمان کی زرہ برابر بھی پروا نہیں کرتے۔ یہ بدبخت پروپیگنڈا کرکے الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان کی والدہ شوکت خانم کے والد کمشنر احمد حسن قادیانی تھا۔ اس نے جالندھر میں قادیانیوں کا پہلا مرکز بنایا تھا۔ کمشنر احمد حسن خان کا والد منشی گوہر علی مرزا غلام احمد قادیانی کے
(7/11)
تین سو تیرہ اصحاب میں پندرھویں نمبر پر تھا۔ اس لسٹ کو بھی شیئر کرتے ہیں یہ لوگ جس میں منشی گوہر علی کا نام درج ہوتا ہے۔
ان فتنہ گروں کا طریقہ واردات بڑا فُول پروف تھا۔ ان کو پتہ تھا کہ کمشنر احمد حسن خان تک شوکت خانم کا خاندان ہر کوئی جانتا تھا۔ جا بجا حوالے موجود تھے۔
(8/11)
کمشنر احمد حسن سے پہلے کا کوئی حوالہ کم از کم معلوم یا معروف نہیں ہے یا کوٸی اس بارے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرے گا۔ معاملہ ویسے بھی دینی تھا اور پھر لوگوں کو پہلے ہی اپنے گرداب میں پھنسا کر ابھارہ جارہا تھا اور بدقسمتی سے ہمارے عام لوگوں کی اکثریت جذبات میں آکر
(9/11)
زیادہ سوچنے سمجھنے کا خیال و شعور نہیں رکھتے۔ اسی لیے جو بھی چاہے ان کو اپنے مذموم مقاصد کیلیے استعمال کرلیتا ہے اور یہ بےلوث استعمال ہوجاتے ہیں۔
یہ سب مدنظر رکھتے ہوۓ ابلیس کے غلاموں نے منشی گوہر علی کو کمشنر احمد حسن کا والد قرار دیا ۔ ایک مزید خیال یہ بھی رکھا گیا
(10/11)
تھا کہ ایسے شخص کو کمشنر احمد حسن سے جوڑا گیا تھا جس کا تعلق بھی جالندھر سے ہی تھا۔ اب عام لوگوں مغالطے کا شکار کرنے کیلئے اتنا کافی تھا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شوکت خانم کے دادا اور کمشنر احمد حسن کے والد کا نام منشی گوہر علی نہیں بلکہ سیشن جج احمد شاہ خان تھا۔
(11/11)
عمران خان کا پورا شجرہ نسب میری پن ٹویٹ میں پڑھ سکتے ہیں۔ #چاچاافلاطون
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’مریم نواز میں دو بڑی خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑی لیڈر ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور دوسری یہ کہ نواز شریف ان کے والد ہیں‘‘۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ (1/5)
(2/5)
بھی لکھ دیا کہ مریم نواز کو جو بات اچھی نہ لگے اس کے لئے اپنا کان بند نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی زبان بند کردیتی ہیں۔ مخالفین مریم کو آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں کیونکہ جیل میں وہ فرائنگ پین سے کپڑے آئرن کیا کرتی تھیں۔ مریم کی سیاسی ٹریننگ میاں نواز شریف نے خود کی ہے اسی لئے
(3/5)
مریم نواز کی سیاست میں عوام کو نوے کی دہائی کے نواز شریف نظر آتے ہیں۔ بلاول مردوں کا بے نظیر بھٹو اور مریم نواز عورتوں کی نوازشریف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول کے متعلق لکھا ہے کہ بلاول کی اردو اور پاکستان کی اکانومی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے بہتر ہو پر ہوتی
#Swat
” یہ ایک یہودی تھا جو سکائی ویز ہوٹل میں رکا ہوا تھا شام کا وقت تھا شور مچا اور میں وہاں چلا گیا تب تک اس کا ہوٹل والے اسے چھڑوا گئے تھے اور وہ بازار کی طرف بھاگ گیا میں اور میرے ایک دوست نے اس کا پیچھا کیا اسے خور بازار میں پکڑ لیا میں نے اسے پکڑا میں نے اس کا بیگ ⬇️
کھینچا لیکن اس نے مزاحمت کی میں نے اسے چپیڑے ماری لوگوں نے اسے پھر مجھ سے چھڑوا لیا یہ رکشے میں وہاں سے چلا گیا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کیا اور اسے بازار کے پرلے کنارے پر پھر پکڑ لیا ہم نے تو پھر مارنا شروع کیا تو لوگوں نے پھر چھڑوا لیا لوگ مجھ سے ثبوت مانگ رہے تھے میں نے ⬇️
کہا ثبوت میرے پاس ہے لیکن لوگ نہ مانیں اور اس سے انہوں نے اسے چھڑوا لیا اور پھر میں نے ایس ایچ او کو فون کیا ایس ایچ او صاحب آئے اور موبائل میں ڈال کے اسے تھانے لے گئے ہم بھی ساتھ ساتھ تھانے پہنچ گئے اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس شخص نے قرآن شہید کیا تھا اس نے 25 دن⬇️
خواتین پر تہمت و بہتان جیسی غلاظت پھینکنا غلیظ منافقین کا پرانا ہتھکنڈا ہےجو رٸیس المنافقین عبداللہ بن ابی سے لیکر جنرل ایوب خان ،فرزند جنرل ضیاالحق(نواش ریف) سے ہوتا ہوا موجودہ جنرل تک تقریباً ایک طرز پر جاری ہے۔عبداللہ بن ابی نے پاک بی بی ام المومنین حضرت عاٸشہؓ پر بہتان (1/4)
(2/4)
درازی کی۔ جنرل ایوب نے بانی پاکستان قاٸداعظم رح کی سگی چھوٹی بہن محترمہ فاطمہ جناح پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے غلیظ ترین الزامات کی بوچھاڑ کرواٸی۔ جنرل ضیا کے سیاسی تخم نواش ریف نے ذوالفقار بھٹو کی صاحبزادی بےنظیر بھٹو کے الیکشن لڑنے پر ایڈٹ شدہ ننگی تصاویر بذریعہ ہیلی کاپٹر
(3/4)
جگہ جگہ پھینکواٸی۔ جب عمران خان سیاسی میدان میں اترا تو اسکی بیوی جماٸمہ کے خلاف اسقدر پروپیگنڈے کیےگٸے کہ انکی طلاق تک ہوگٸی۔ اور اب عمران خان کو جُھکانےکیلیے موجودہ غلیظ جنرل ٹولا اسکی بیوی #BushraBibi پر ن لیکی سوشل میڈیا کو قابو میں کرکے اسقدر بہتان اور غلیظ پروپیگنڈے
آٸی ایس پی آر نے انتہاٸی پیشہ وارانہ انداز میں میڈیا ٹاک کرتے ہوۓ فرمایا کہ
” پاک فوج کا بٹگرام میں انتہاٸی پیچیدہ اور مشکل ریسکیو آپریشن مکمل“
اب زرا یہ اصل حقاٸق پڑھیے اور کمپنی کے ان دلالوں پر لعنت بھیجنا ہرگز نہ بھولیے
”میرا تعلق چونکہ بٹگرام سے ہے اس لیے آج کے واقعے ⬇️
کا اصل منظرنامہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں, الائی ضلع بٹگرام کی تحصیل ہے جس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے, یہ ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقہ ہے جو کہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن سہولیات زندگی خاص کر سڑکیں اور پل نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے باشندے دو پہاڑوں کے درمیان ⬇️
اس طرح کے چیئر لفٹ لگا کر اس کے زریعے سفر کے ساتھ ساتھ اپنی ضروریات کی چیزیں سپلائی کرتے ہیں, اس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک گھنٹوں کا سفر چند منٹوں میں کٹ جاتا ہے دوسرا جب بارش کے وقت ندیوں میں طغیانی کی وجہ سے زمینی راستے بند ہوجاتے ہیں تو لوگ انہی چیئر لفٹ کے زریعے ⬇️
سلطنت بنو امیہ اور سلطنت پاکستان کے وساٸل ، جگہ اور وقت مختلف ضرور ہیں لیکن تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی رہتی ہے۔
جس وقت عبد الملک بن مروان کی خلافت کی بیعت ہوئی تھی اسی وقت اس کے دو بیٹوں ولید اور سلیمان کی ولی عہدی کی بیعت بھی ہوئی تھی ۔جس کا سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ (1)
(2) عبدالملک کی خلافت کے بعد ولید خلیفہ بنے گا اور اس کے بعد سلیمان بنے گا ۔
ولید نے اپنے دور خلافت میں چاہا کہ اپنے بھائی سلیمان کو معزول کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد نامزد کر دے ۔ جس پر حجاج بن یوسف نے ولید کے اس منصوبے میں اس کی حمایت کی ۔حجاج کی حمایت بہت معنی
(3) رکھتی تھی کیونکہ وہ عراق اور مشرقی اضلاع کا گورنر تھا اور جتنا رقبہ اس کے زیر انتظام تھا، وہ کم و بیش نصف مملکت تھی ۔ گویا اس حمائت کا مطلب یہ تھا کہ حجاج اپنے زیر انتظام علاقوں میں عبدالعزیز کی ولی عہدی کی بیعت کی حمائت کرے گا ۔یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، بلکہ اس کی
کیا ہم سب بھی کوفی ہیں؟؟؟
”کوفہ کسی ایک جگہ کا نام نہیں ہے، بلکہ جہاں جہاں ظلم ہے اور اس پر چپ رہنے والے موجود ہیں، وہ جگہ کوفہ ہے“ یہ الفاظ واقعہ کربلا کے شاہد اور مظلوم حضرت امام علی ابن الحسین زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ہیں۔
اہل کوفہ وہ بے حس ٹولہ تھا جو ایمان کی
(1/5)
(2/5)
کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بزدلی کی وجہ سے کوفی کہلایا۔
اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کوفہ اپنے بہادروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے بزدلوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ایک استعارہ بن گیا ہے بے حسی اور بے عملی کا۔ یہ ظالموں کے گروہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اس ظلم پر چپ رہنے والے
(3/5)
مجمعے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسے سماج کی شکل ہے جہاں کسی ایک مظلوم گروہ کو ایک ظالم گروہ مسلسل ظلم کا نشانہ بناتا ہے، لیکن اس ظلم سے نفرت کے باوجود لوگ تماشائی بنے اپنی اپنی عافیت گاہوں میں دبکے رہتے ہیں۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخاطَب بھی یہی لوگ تھے،