موسمِ بہار کے استقبال کے لیے تقریبا ہر قوم قبیلے میں تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جھوم جھملیوں کی روایت موجود ہے۔
ہمارے نمائندہ تہواروں کا خطے میں آغاز ہوگیا ہے۔ لوہڑی اور ہولی کا تہوار گزر گیا ہے، نو روز کا تہوار آگیا ہے۔ بسنت اور بیساکھی کو بھی (1/18)
آنا چاہیے، مگر نہیں آئیں گے۔ آئیں گے بھی تو سرحد کے پار آئیں گے۔ ہمارے نصیب سے سب اچھے رنگ مٹا دیے گئے ہیں۔ قدیم ایرانی شمسی کیلینڈر کا آغاز یکم فروردین یعنی اکیس مارچ سے ہوتا ہے۔ سو ایرانی تہذیب میں نوروز کا جشن مناکر محض بہار کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، (2/18)
نئے سال آغاز بھی کیا جاتا ہے۔ ایران سے کئی قومیں، تہذیبیں اور مذہبی دھڑے ہوکر گئے ہیں۔ جو گیا نوروز کے آتش دان سے ایک چنگاری توڑ کر گیا۔ ایران خود بھی کہیں سے ہوکر آیا تو نوروز کی چھاپ چھوڑ کر آیا۔
اس کی تاریخ حضرتِ مسیح کے عہد سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ (3/18)
زرتشتوں نے نوروز کو سرکاری سطح پر منانے کی روایت ڈالی تو اس کے خاکے میں خوش رنگ علامتوں کا خوبصورت اضافہ ہوا۔
آگ، روشنی، سورج، روایتی ملبوس، پھول پودے، رقص و موسیقی، عطر، چراغ، دھونی، میوے اور خوردے نوروز کی علامتیں ہیں۔ (4/18)
اسی طرح !
دسترخوان پر سجائے جانے والے پھل پودے اور اوڑھے جانے والے رنگ در اصل انصاف، خوش حالی، مثبت سوچ اور درگزر کی علامات ہیں۔
نوروز ایران سے ہی پارسیوں کے ساتھ چلتا ہوا ہندوستان کے بازاروں میں آیا۔ مغلوں نے پھر اس کا اہتمام کیا۔ مقامی ثقافتوں کو اس کے (5/18)
خال و خد اپنے جیسے لگے۔ دل سے لگالیا۔
اسماعلیوں، پارسیوں اور بہائیوں کی ہی وجہ سے یہ چراغ کراچی میں جلتے تھے۔ اب بھی جلتے ہیں، مگر اب لو ذرا مدہم ہوتی ہے۔
افغانستان میں بارود اور خون کی بو پھیلی تو نوروز کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ اس نے وہاں سے ہجرت کرلی۔ (6/18)
اور یہ کوئی پہلی ہجرت نہیں تھی۔
نوروز کی روشنی ڈیورنڈ لائن کو بغیر کسی ویزے کے عبور کرکے اکثر اِس طرف کے پشتون علاقوں میں نکل آتی تھی۔ 'سپرلے' کے میلوں میں گھل مل کر بہار کو ہرکلے کہتی تھی۔ پاڑا چِنار اور اس کے اطراف میں نوروز کے رنگ اب بھی پھیکے نہیں پڑے۔ (7/18)
امیر عبد الرحمن کے دور میں ہزارہ قوم نے ہرات اور بامیان سے کوئٹہ کی طرف ہجرت کی تو نوروز کی روایت بھی پھولوں والی چادر لپیٹ کر یہاں آگئی۔ اسی لیے کوئٹہ کی ہواوں میں نوروز کی مہک اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔ (8/18)
لیکن نوروز کا حوالہ بلوچوں کے لیے کبھی نیا نہیں رہا۔ ایک تو بلوچستان اور ایران سنگ بہ سنگ ہیں۔ پھر عربوں کے تسلط اور انقلاب کے بعد جو پار سی اور بہائی یہاں وہاں فرار ہوئے، وہ کوئٹہ بھی آئے۔ پارسی اور بہائی آئیں، نوروز ساتھ نہ آئے، ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ (9/18)
آذر بائیجان اور تاجکستان میں نوروز کے ڈنکے ہفتے دو ہفتے پہلے ہی پِٹ جاتے ہیں۔ رونقیں، تحفے تحائف، میل جول، عشوے اور اظہاریے ماحول میں سال بھر کے لیے مثبت انرجی سٹاک کر رہے ہوتے ہیں۔ (10/18)
تاجکستان کی وجہ سے یہ روایت ساتھ کے علاقے گلگت بلتستان میں اب بھی بھرپور نظر آتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلتستان کے لیے یہ کوئی نئی روایت ہے۔ زمانے سے یہ روایت کشمیر میں ہولی اور دیوالی کے ساتھ ساتھ موجود تھی۔ وہیں سے اس نے بلتستان کی راہ لی اور پھر ہنزہ پہنچی۔ (11/18)
پھر اس خطے میں اسماعلی بھی تو ہیں۔ نوروز کا پانی اسی چینل سے گزر کر شندور اور اس کے پار تک جاتا ہے۔ شندور کے اس پار چترال میں بہار ہی کا ایک قدیم میلہ 'چِلم جوش' بھی سجتا ہے۔ کالاش میں اس کے رنگ ڈھنگ آپ دیکھ چکے ہوں گے۔ یوں سمجھیں یہ نوروز ہی ہے۔ (12/18)
بڑی بات یہ نہیں ہے کہ گلگت بلتستان میں یہ روایت بہت پہلے سے موجود ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ یہ روایت اب بھی موجود ہے۔ مگر کیسے موجود ہے۔ جب لاہور میں بسنت باقی نہیں رہا تو یہاں نوروز کیسے موجود ہے؟ (13/18)
در اصل ان کی ریت روایت اور تہذیب وتمدن پاکستان کے کلچر سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتی۔ مناسبت جوڑنے کی انہیں کوئی آرزو بھی نہیں ہے۔ ان کی ثقافت کو لپیٹنے کے لیے تبلیغی سیلیبریٹیز کو بھیجا تو جاتا ہے، مگر نصرت نہیں مل پاتی۔ (14/18)
پاکستان کی کوئی معلوم ثقافت وجود ہی نہیں رکھتی۔ ثقافتیں تو در اصل یہاں بسنے والی قوموں کی ہیں۔ ان ثقافتوں کا خاتمہ کرکے یہاں 'ایک قومی نصاب' کی طرح عرب کلچر رائج کردیا گیا ہے۔
نو روز کی خوبصورتی یہ تھی کہ اس کا خمیر اسی خطے سے اٹھایا گیا تھا۔ (15/18)
اس کی آنکھ میں یہیں سے جنم لینے والی تہذیبوں، قوموں اور مذاہب نے اپنے اپنے حصے کا سرمہ بھرا تھا۔ یہ سُرمہ اِسی سرزمین کی مٹی پِیس کر بنایا گیا تھا۔
وبا کی دنوں میں جب لوگ گھروں تک محدود ہوگئے تھے، تب دنیا بھر کے انسانوں کو درد اور موسیقی کے علاوہ جس چیز نے (16/18)
ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، وہ نوروز ہی تھا۔ یاد کیجیے، امریکا تک میں یہ جشن بھرپور انداز میں آن لائن منایا گیا تھا۔
اس خطے میں ہولی سے چِلم جوشت تک بہار کے ہر میلے کا رنگ نوروز میں نظر آتا ہے۔ یہ سورج اور آگ کی روشنی ہے، جو سرحد کے آر پر برابر اترتی ہے۔ (17/18)
وائے نصیب کہ ہمارے ہاتھ سے نوروز نکل گیا۔ نوروز ہی کیا، خوشیوں کا ہر تہوار نکل گیا۔ ایسے ہر تہوار کی یاد میں سب کو نوروز مبارک۔
فرنود عالم (18/18)
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اصل فیصلے میں پھانسی کی تاریخ مارچ کی چوبیس درج تھی مگر چند ناقابل بیان وجوہات کی بناء پہ یہ وقت لگ بھگ سولہ گھنٹے آگے کرنا پڑا۔ جیل کے حکام نے کوشش کی تھی کہ یہ خبر کال کوٹھری کے اندر ہرگز نہ پہنچے سو تینوں اسی طرح اگلے دن کا انتظار کرتے رہے۔
پنجاب میں بہار آچکی تھی۔ (1/13)
جب دونوں وقت مل رہے تھے اور دادی جے کور بی بی گھڑے ڈھانپ کر اندرجارہی تھی تو اچانک اس کے اپنے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ یہ سات تیس کاوقت تھا۔
گاؤں سے بہت دورلاہور شہر میں داتا دربار کی اذانیں مدھم پڑیں تو جیل میں ایک ہلچل مچ گئی۔ ڈیوٹی پہ موجود میجسٹریٹ نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔(2/13)
ڈپٹی، نوکری بچانے کی خاطر قصور کے ایک آنریری جج، نواب محمد احمد، کو لایا اور اسی نے حکم نامے پہ دستخط کئے۔
وقت آنے پہ تینوں اپنے پیروں پہ گھاٹ گئے۔ ان میں سے ایک نے انگریز سرجن کو مخاطب کر کے کہا، ’’صاحب ! دیکھ لو، ہندوستان میں لوگ اس طرح موت کو گلے لگاتے ہیں‘‘۔ (3/13)
Umade Bhattiyani was the second wife of Maldeo Rathore, the renowned Rathore ruler of Marwar (r. 1532 – 1562).
Umade was a princess of the Bhati Rajput clan of Jaisalmer and was the daughter of Rawal Lunkaran Bhati, (1/6)
the ruler of Jaisalmer (r. 1530 - 1551).
Maldeo Rathore was expanding his territories westward and plundered Jaisalmer in 1537. Rawal Lunkaran was forced to sue for peace by giving Maldeo his daughter Umade in marriage to him. (2/6)
The marriage was not a happy one. Lunkaran had given some davris (maidservants) to his daughter in her dowry. One of them was called Bharmali who was apparently very beautiful. Maldeo was greatly attracted by her beauty and on the first night of his marriage he (3/6)
Ilm-ud-Din case: Lahore High Court complete judgement
Ilam Din murdered Rajpal, the publisher of the pamphlet "Rangila Rasul", on April 6, 1929. Ilam Din was sentenced to death on May 22, 1929. Mohammed Ali Jinnah and Farrukh Hussain filed an appeal to the Lahore (1/25)
High Court against the death sentence. Following is complete judgement of the case.
Broadway, J.—Ilam Din, son of Talia Mand, a Tarkhan of some 19 or 20 years of age, and a resident of Mohalla Sirianwala, Lahore City, has been convicted of having caused the death (2/25)
of one Rajpal on 6th April 1929, and, under S. 302, I.P.C., has been sentenced to death. He has appealed, and the case is also before us under S. 374, Criminal P.C.
The deceased was a Hindu book-seller having a shop in the Hospital Road. Some little time back he (3/25)
باقرخانی ویسے تو مغلوں کے باورچی خانے میں متعارف ہوئی۔ لیکن اس کے نام کا قصہ یوں ہے کہ بنگال کے نواب سراج الدولہ کے دور میں چٹاگانگ میں ایک فوجی جرنیل تھا، باقر خان۔ باقر خان ایک خوبصورت شاہی رقاصہ خانی بیگم کے عشق میں مبتلا تھا اور خانی بیگم بھی باقر خان کی دیوانی (1/4)
تھی۔ محبت کی اس داستان میں ایک اور درباری زین الخان ولن تھا۔
زین الخان بھی خانی بیگم کا دیوانہ تھا۔ لیکن خانی بیگم کے دل کا محور کوئی اور تھا۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی جب زین الخان کو خانی بیگم کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا تو اس نے خانی بیگم کو اغوا کر کے قید میں (2/4)
ڈال دیا۔
باقر خان نے جلد ہی خانی بیگم کو زین الخان کی تحویل سے آزاد کروا لیا۔ لیکن، ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا۔ خانی بیگم کے آزاد ہونے پر زین الخان روپوش ہو گیا اور اپنے قتل کی افواہ پھیلا دی۔ اس قتل کا الزام باقر خان اور خانی بیگم پر آیا، اس جرم میں دونوں کو سزائے (3/4)
سنجے لیلی بھنسالی کا اپنا سینما ہے۔ وہ اپنی ہیروئنز کو سونے کا لباس پہناتا ہے مگر آنکھ ہمیشہ نم رکھتا ہے۔
دیوداس کی ایشوریا ہو یا پدماوتی کی دیپیکا سنجے کی فلموں کی ہیروئن ہمیشہ کسی سانحے سے گزرتی دل تنگ و بے آرام ہی دکھے گی۔
لاہور کی ہیرا منڈی اب نہیں رہی۔ (1/8)
داستانیں موجود ہیں مگر قدیم ہجروں کے نقوش زمانے کی ہوائیں چاٹ گئی۔
اب کوٹھے وہ نہیں رہے جہاں معزز گھرانوں کے شہزادے تربیت آداب و نفاست کے گُر سیکھنے کے لئے بھجوا دیے جاتے تھے۔
کوٹھے کی بالکنی سے غالب کی غزل ترنم میں گنگنا کر راہ چلتے گراہک متوجہ کرتی طوائفیں چل (2/8)
بسیں۔
اب کوٹھے کے مناظر منٹو کے افسانے اور اقرار الحسن کے سرعام چھاپے والے ہیں۔
اب کوٹھوں کی تعداد تو شاید پہلے زمانوں سے کہیں زیادہ ہو مگر انہیں منظم کرنے والے اور قانون دینے والے کتراتے ہیں ۔
کوٹھوں کی جگہ ہوٹلوں کے کمروں نے لے لی طوائفوں کو کال گرلز کا نام مل (3/8)
یہ اسلام آباد کا مارگلہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ شہر کے مزاج کی طرح خاموش، اداس اور ویران۔ یہاں نہ تو خوانچہ فروشوں کی آہو کار ہے، نہ سرخ وردی پہنے قُلیوں کی دھکم پیل۔ بس ایک سکوت کا عالم رہتا ہے۔ ماحول کا یہ سکوت صرف ریل کی آمد پر (1/13)
چند لمحوں کو ٹوٹتا ہے جو راولپنڈی سے کسی اژدھے کی مانند آتی ہے اور اِکا دُکا مسافروں کو نگل کر اسی راستے سے واپس چلی جاتی ہے۔
ڈوکیڈیس نے جب اس شہر کا نقشہ بچھایا تو سیکٹروں کی سیدھی لائنوں کے بیچوں بیچ زیرو پوائنٹ کے پاس کہیں ریلوے اسٹیشن کا بھی کوئی خانہ تو تھا، (2/13)
لیکن راولپنڈی کے نور اسٹیشن سے ریلوے لائن کو یہاں پہنچتے پہنچتے ایک دہائی لگ گئی۔ ایک کمرہ پر مشتمل اسٹیشن کی عمارت پر نصب تختی بتاتی ہے کہ اس لائن کی رسمِ افتتاح بتاریخ 21 نومبر 1979 بروز بدھ بمطابق 30 ذوالحج 1399 کو جناب میجر جنرل جمال سید میاں ایچ، آئی(ایم) (3/13)