1757ء عیسوی میں ایک معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں۔
دستخط کرنے والوں میں ایک صاحب کا نام ہوتا ہے کرنل کلایئو جو کہ بطور ایڈمرل کے سٹاف آفیسر، اس معاہدے پر دستخط کرتا ہے اور دوسری طرف دستخط گزار ہوتا ہے میر محمد جعفر خان بہادر آف بنگال۔ #آئین__پاکستان_سے_غداری_نامنظور
ا
س معاہدے کا ایک عکس میری نظر سے بھی گزرا۔ واضح رہے یہ وہی میر جعفر ہے جو نواب سراج الدولہ کا سپاہ سالار تھا اور اس نے غداری کرتے ہوئے انگریزوں کاساتھ دیا تھا۔
اس معاہدے کے 13 آرٹیکل ہیں۔ جن میں سے بیشتر میں اس تھریڈ میں آپکے لیے تحریر کر رہا ہوں۔
ساڑھے تین سو سال گزرنے کے بعد بھی، نہ آقا بدلے نہ غلام اور نہ ہی ان کا طریقہ واردات!
زراعت، معیشت اور معاشرت سب کا قلع قمع کیسے ہوتا ہے یہ میں نے تو پڑھ لیا ہے آپ بھی پڑھ لیں۔۔ #آئین__پاکستان_سے_غداری_نامنظور
آرٹیکل نمبر1:
نواب سراج الدولہ کے ساتھ زمانہ امن کے تمام نقاط پر پہلے جیسا عمل درآمد ہوگا۔
آرٹیکل نمبر 2:
انگریزوں کے دشمن میر جعفر کے بھی دشمن ہوں گے چاہے وہ ہندوستانی ہی کیوں نہ ہوں۔ #آئین__پاکستان_سے_غداری_نامنظور
آرٹیکل نمبر 3:
اوڑیسہ، بہار اور بنگال میں موجود فرانسیسیوں کی تمام فیکٹریاں اور دیگر تنصیبات انگریزوں کے قبضے میں جائینگی اور ان کو کسی بھی صوبے میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
آرٹیکل نمبر 4:
نواب سراج الدولہ نے کلکتہ میں جو نقصانات پہنچائے اس کا معاوضہ ایک کروڑ روپے انگریزوں کو ادا کیا جائے گا۔
آرٹیکل نمبر 5۔
جو نقصان انگریزوں کو پہنچایا گیا اس کے ازالے کے طور پر 50 لاکھ روپے ادا کئیے جائیں گے۔
آرٹیکل نمبر 6۔
جو نقصان امریکی شہریوں کو ہوا اس کے عوض سات لاکھ روپے ادا کئے جائیں گے۔
آرٹیکل 9 اور 10
کلکتہ کے بارڈر کی ساری زمینیں انگریز کمپنی سرکار کی ہونگی۔ اور اس کا سارا ٹیکس کمپنی بہادر کے پاس جمع ہوگا۔
آرٹیکل نمبر 11۔
دریائے گنگا کے ساتھ کوئی ایسی رکاوٹ نہیں بنائی جائے گی جس سے فوجوں کی پیش قدمی میں کوئی رکاوٹ پیش آئے۔
آرٹیکل نمبر 13
میر محمد جعفر خان بہادر جب تمام نقاط پر عمل کر لیں گے تو پھر ان کی حکومت بنگال اوڑیسہ اور بہار میں قائم کردی جائے گی۔
آجکل کے حالات میں یہ سب پڑھ کے ایک بار پھر سے حبیب جالب یاد آگئے۔۔۔ فرماتے تھے
خوشامد ان کی فطرت ہو گئی ہے
انہیں جھکنے کی عادت ہوگئی ہے
خدایا اب انہیں جلدی اٹھا لے
بہت اب ان کی ذلت ہوگئی ہے #آئین__پاکستان_سے_غداری_نامنظور
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
اکثر لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ اتنے بڑے خانوادے سے ہونے کے باوجود ایک سیاستدان عمران خان کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔
شاید یہ تحریر آپ کے دل کو چھو سکے۔
میں جوں جوں تاریخ کا مطالعہ کرتا گیا، ولی اللہ اور انصاف پسند حکمرانوں کے تصور کو گویا پوری طرح سمجھتا گیا۔ #حقیقی_آزادی_جلسہ
یہ ایک ایسا تعلق ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔
سلطان محمود غزنوی کا حضرت سید علی ہجویری سے تعلق ہو یا سلطان شہاب الدین غوری کا حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے لگاؤ۔ حضرت میاں عمر چمکنی کا ابدالی کے لئے مراٹھوں پر حملے کا حکم ہو یا حضرت محی الدین ابن عربی کی ارتغل غازی سے محبت۔
حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کا بادشاہ محمد تغلق سے تعلق ہو یا پھر ادابالی کا عثمان کے شانہ بشانہ عثمانیہ سلطنت کی داغ بیل ڈالنا۔ ہر ولی نے انصاف پسند حکمرانوں کا ساتھ جی جان سے دیا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ یہی ولی حکمرانوں کو صحیح راہ پر چلنے کی تلقین بھی کرتے رہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی بریلوی کے پاکستان میں چشم و چراغ ہونے کی حیثیت سے اپنے خاندان کی تاریخ، پاکستان ہجرت کی وجوہات، پاکستان کی اخلاقی اور سیاسی تربیت، بشمول ملک کی موجودہ صورت حال پر ایک تھریڈ لکھا ہے۔
ضرور پڑھیئے گا۔ #باغی_ہوں_کرپٹ_نظام_سے
میرا تعلق انڈیا کے ایک مذہبی اور رئیس خاندان سے ہے۔
بڑیچ قبیلے کے یوسف زئی پشتون ہیں اور آباو اجداد قندھار سے ہندوستان تبلیغ دین کے لیئے ھجرت کر کے بریلی آگئے۔
میرے آباو اجداد نے جنرل بخت خان کے ساتھ مل کے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی کیونکہ پشتون ایک آزاد قوم ہے اور غلامی
سے نفرت ان کےخون میں شامل ہے۔
بریلی میں ھمارے خاندان میں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا جن کو آج دنیا بھر میں اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ماشااللہ ان کا عشق رسول اور ایک پولی میتھ ہونے کے ناطے ان کی تصانیف
غزنوی: لٹیرا؟
عمران خان گھڑی چور؟
جیسے بالی ووڈ سے علم حاصل کرنے اور پھر اسکی روشنی میں کتابیں لکھنے والے آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ غزنوی کو اسکالرز کا اغواء کار بھی کہا جاتا ہے۔
محمود غزنوی قابل محققین کو ہر قیمت پر غزنی بلوا لیا کرتا تھا۔
وہ ان محققین پر سالانہ چار لاکھ درہم سے زائد خرچ کرتا تھا۔۔۔ فردوسی اور البیرونی کو اسی نے فائنانس کیا تھا۔ بالکل اسی طرح پاکستان کے کرتے دھرتے یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ عمران خان نے سیرت النبی محمدﷺ اتھارٹی قائم کی۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر جیسے پڑھے لکھے لوگوں کو بیرون ملک سے بلا کر
پاکستان کی خدمت پر مامور کیا اور صوفیاء کرام کی تعلیمات سمجھنے اور سمجھانے کے لیئے لاہور میں Sufism Research Center کی داغ بیل ڈالی۔
سلطان محمود غزنوی نے پنجاب میں اس دور کے نظام انصاف، پولیس، ڈاک، اکیڈمک اور سوشل سروسز کو اس دور کے شاعر سعد سلمان نے بہت تفصیل سے قلمبند کیا ہے
قادر پٹیل کو وزیر صحت بنانے کے بعد اب کامران ٹیسوری کو کراچی کا گورنر بنا دیا گیا ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ حکومت یہ عہد کر چکی ہے کہ کوئی چور اچکا اور ڈاکو ہم نے باہر نہیں رہنے دینا۔ بلکہ چن چن کر تمام مجرموں کو اعلی عہدوں پہ لا بٹھانا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی جس میں
دو سو انسٹھ مزدوروں کو زندہ جلانے والے کسی انسان کو گورنر کے عہدے پہ لا بٹھایا جائے۔ کامران ٹیسوری کا ایک سرسری سا تعارف کرواتا ہوں تا کہ قوم جان سکے کہ کس طرح کے لوگوں کو آپ پہ مسلط کیا جا ہیں۔
ماضی میں کامران ٹیسوری کراچی میں سونے کی سمگلنگ کےلیے انڈر ورلڈ میں ایک جانا پہچانا نام تھا۔
سنہ دو ہزار آٹھ میں کامران ٹیسوری کو دبئی ایئرپورٹ پہ اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بھیس اور شناخت تبدیل کر کے دبئی میں داخل ہو رہا تھا۔