ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺅ
ﮐﻮﭼﻮﺍﻥ : ﭘﮭﺎﻧﺴﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎﺅ ﮔﮯ ؟
ﺩﺍﺅﺩ ﺧﺎﻥ : ﻣﺎﺭﻭ ﺗﺎﻟﯽ
اگر دو چار تالیاں ہمارے ملک میں بھی بج جاتیں تو ملک میں کبھی کوئی کرپشن کا سوچتا بھی نہیں ۔
پیارے پاکستانیوں!
انسان جب دنیا کے مصائب سے عاجز آجاتا ہے تو وہ اپنی ماں سے دعائوں کا طالب ہوتا ہے۔ اپنے رب سے گلہ شکوہ کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری لاوارث ہوچکے ہیں۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حکمران ظالم اور جابر ہیں عیش و عشرت ختم کرنے پر آمادہ ⏬
نہیں ہیں۔ انسان اس قدر دکھی ہیں کہ مرنے کی آرزو کرتے ہیں مگر موت ان کے اختیار میں نہیں ہے۔
زندگی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
عجیب سا گلہ شکوہ ہے۔
علامہ اقبال نے بھی شکوہ کیا لیکن ساتھ میں جواب شکوہ بھی لکھ ڈالا۔
دوستو!
میرا خیال ہے کہ!⏬
ہم لوگ اللہ پاک سے گلہ شکوہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔
واصف علی واصف لکھتے ہیں،
”شیخ سعدی کا مشعور واقعہ کہ میرے پاس جوتا نہیں ہے۔آگے جا کے دیکھا کہ ایک شخص کی ٹانگیں ہی نہیں ہیں۔۔۔شکر ادا کیا۔جوتے کا گلہ تھا اور جوتے کی عدم موجودگی میں شکرہو گیا۔یہ حسن نظر ہے۔جس بات کا گلہ تھا⏬
Dear Friends!
The word "We" is as lime poured over men, which sets and hardens to stone, and crushes all beneath it, and that which is white and that which is black are lost equally in the grey of it. It is the word by which the depraved steal the virtue of the good, ⏬
by which the weak steal the might of the strong, by which the fools steal the wisdom of the sages.
Dear Pakistanis!
What is my joy if all hands, even the unclean, can reach into it? What is my wisdom, if even the fools can dictate to me? What is my freedom, if all creatures, ⏬
even the botched and impotent, are my masters? What is my life, if I am but to bow, to agree and to obey?
But now!
I am done with this creed of corruption, DHA mafia.
I am done with the monster of "We," the word of serfdom, of plunder, of misery, falsehood and shame.⏬
دوستو!
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بیوروکریٹس کے گھر اتنے بڑے بڑے کیوں ہوتے ہیں؟
ویسے تو اس پر پوری تفصیل سے لکھ چکی ہوں لیکن مختصراً پھر بتا دیتی ہوں۔
انگریز چونکہ تعداد میں بہت ہی کم تھے اور وہ ڈرتے تھے کہ ہندوستانی کہیں گھر میں گھس کر مار نہ دیں تو کمشنر ہو یا کوئی دوسرا ⏬
بیوروکریٹ وہ بڑے بڑے گھر بنوا کر رہتے تھے جس کی چار دیواری کے اندر سبزیوں سے لے کر چھوٹی موٹی فصل تک بیجی جا سکتی تھی۔
گھوڑوں کا اصطبل، کھیل کا میدان وغیرہ وغیرہ۔ ملاقاتی کو اندر سے اجازت لے کر ہی داخل ہونے دیا جاتا۔
اور جب گورا صاحب چلا گیا پاکستان بن گیا ہمارے جو بیوروکریٹس ⏬
بنے تو بجائے اس کے کہ وہ عوام کی رسائی اپنے تک آسان بناتے انہوں نے کاٹھا انگریز بننا ہی ضروری سمجھا۔
دوستو!
اگر میں یہ تحریر ساٹھ کی دہائی میں لکھ رہی ہوتی تو ان لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی بلکہ آواز اٹھاتی۔
لیکن آج جب کہ!
سب کچھ سامنے آ چکا تو میں ان پر تنقید نہیں ⏬
دوستو!
محمد سعید صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے۔
کتاب کا نام ہے ’پاکستان ‘ اور اِس میں یکم اگست 1947ءسے لے کر 31 دسمبر 1947ء تک پاکستانی اخبارات سے حیرت انگیز ، ناقابل یقین اور چونکا دینے والی خبروں کا انتخاب ہے۔
جن اخبارات سے مولف نے استفادہ کیا ہے، اُن میں پاکستان ٹائمز لاہور⏬
ڈیلی گزٹ کراچی، سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اور ڈیلی ڈان کراچی شامل ہیں۔
چند نمونے کی خبریں اور اشتہارات دیکھیں:
پنجاب کے سابق وزیر میجر عاشق حسین کو ✓چوبرجی لاہور کے قریب اشارے کے باوجود نہ رکنے پر کانسٹیبل نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے فُٹ کانسٹیبل غلام حسین کو گرفتار ⏬
کر لیا۔
✓لاہور میں امنِ عامہ کی صورتحال خاصی بہتر۔ آگ لگانے کے صرف تین واقعات ہوئے۔
✓آج کراچی میں فی تولہ سونے کا بھاؤ ایک سو آٹھ روپے گیارہ آنے پہ بند ہوا۔
✓حکومت پاکستان کے عملے کے لیے مختص عمارتوں میں بجلی اور روشنی کے انتظامات کے لیے چار لاکھ روپے مخصوص کیے گئے ہیں۔
⏬
جسٹس منیر کا آج بڑا تذکرہ سن رہے ہوں گے آپ سب تو سوچا تعارف کروا دوں۔
وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کی طرف دھکیل دیا۔
یہ تبصرہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں ہے جس نے قیام پاکستان سے قبل⏬
برصغیر کی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے باؤنڈری کمیشن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے یہ بعد یہ شخص پنجاب چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) کا چیف جسٹس بنا اور اس کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ) کا چیف جسٹس آف پاکستان بنا۔
پاکستان کی قومی ⏬
تاریخ میں جسٹس منیر کا کردار باؤنڈری کمیشن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
باؤنڈری کمیشن کے ذریعے پنجاب کی ایسی تقسیم جس کی وجہ سے آزادی کے وقت بڑے پیمانے پر ہجرت اور قتل و غارت گری کے علاوہ کشمیر جیسا پیچیدہ مسئلہ بھی پیدا ہو گیا جو برصغیر کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا۔⏬
مریم نواز کو اکثر اپنے ہاتھوں میں
اسٹیل کا گلاس پکڑے دیکھا جاتا ہے۔
اس کی وجہ مریم نواز کا علم نجوم پر
پختہ یقین ہے۔
مریم نواز کی پیدائش 28 اکتوبر 1973 کو
ہوئی تھی،
زوڈیئک سائین اسکورپیو اور سیارہ مریخ ہے۔ نجومی حضرات اسٹیل کو
سکورپیو⏬
افراد کے لیے خوش قسمت
دھات بتاتے ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی،
مریم نواز صرف علم نجوم پر نہیں بلکہ
اس سے آگے بڑھ کر کالے علم
سے بھی مدد لیتی ہے ۔
ایک صحافی کے بقول مریم نواز ایک
نہیں بہت سارے ایسے لوگوں سے
ملتی ہے جو کالے علم میں مہارت رکھتے ہیں اور ان سے مختلف عمل کرواتی⏬
ہے ۔
اسی لئے کہا گیا ہے کہ معاشرے
اور قوم کی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہوتا ہے۔ صرف ایک تعلیم یافتہ طبقہ ہی بہتر معیار زندگی کی قیادت کر سکتا ہے۔
پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی کا نفاذ اور تعمیری سیاسی و سماجی تبدیلی صرف تعلیم سے ہی ممکن ہے۔ لہذا، یہ معاشرے کی اصلاح اور تعمیر میں ⏬