لوہڑی کے گیت میں دُلے بھٹی کا ذکر یوں ہے کہ اس نے کسی زمیندار کی قید سے ایک مجبور لڑکی کو چھڑوایا اور اپنی اولاد کی طرح پالا۔ مناسب وقت آنے پہ دھوم دھام سے اس کی شادی کی اور بیٹیوں کی طرح رخصت کیا۔
عبداللہ یا دلا بھٹی، ساندل بھٹی کا پوتا اور فرید بھٹی کا بیٹا تھا (1/11)
اور بار کا یہ حصہ اس کے دادا کے نام سے منسوب تھا۔ یہ سوریا ونشی راجپوت، چاند سے اپنا تعلق جوڑتے اور پنجاب میں کثرت سے ملتے تھے۔ ہمایوں کے بعد اکبر نے تخت سنبھالا تو باغیوں کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی۔ ساندل کے علاقے میں مغلوں کے سب سے بڑے دشمن فرید اور ساندل بھٹی تھے سو (2/11)
ان دونوں کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔
بڑے ہونے پہ ماں نے اسے باپ دادا کی موت کا بتایا تو دُلے نے قسم کھائی کہ وہ اکبر کو نہیں چھوڑے گا۔ اس نے مغلیہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور خراج دینا بھی بند کر دیا۔ اسی دوران اس نے ایک چھوٹی موٹی فوج تیار کی اور (3/11)
اکبر کے حامی امراء اور زمینداروں کے گھروں پہ ڈاکے ڈالنا شروع کر دیے۔ ادھر انار کلی کی محبت نے باپ سے ننگے پاؤں مانگا بیٹا چھین لیا تھا سو سلیم نے بھی دُلے کی پس پردہ حوصلہ افزائی کی۔ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ سلیم کی پیدائش پہ دُلے کی ماں نے سلیم کو دودھ پلایا تھا اسی لئے (4/11)
دونوں ایک دوسرے کے کافی قریب تھے۔ دُلے کی ان ریشہ دوانیوں کے سبب مغلوں کو اپنا دارالحکومت لاہور لانا پڑا۔
اس کا خاص نشانہ مختلف حکمرانوں کی جانب سے اکبر کو بھیجنے والی ڈالیاں اور اکبر کی جانب سے ان کو بھیجے جانے والے تحائف تھے۔ روز روز کی لوٹ مار سے تنگ آ کر، اکبر نے (5/11)
اپنے دو جرنیل اس جانب روانہ کیے ۔ مرزا علا الدین اور مرزا ضیا الدین کی قیادت میں بارہ ہزار کے لگ بھگ لشکر دلا کے گاؤں پہنچا۔ مغل فوج نے بہت کوشش کی کہ دُلے کو گرفتار کر لے مگر دلا عمومی طور پہ اکبر کے حامی امرا سے لوٹ مار کر کے وہ پیسا غربا میں تقسیم کرتا تھا اور ان سے (6/11)
بچیوں کی شادی کرواتا تھا اس لئے مقامی آبادی دُلے کے ساتھ تھی۔ بادشاہ نے حکم دے رکھا تھا کہ اگر دلا بھٹی زندہ نہ ملے تو اسے مردہ پکڑ کر لایا جائے اور اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو گھر کی خواتین کو دربار میں پیش کیا جائے۔ دُلے تو مل نہیں سکا مگر ظل الہٰی کے حکم کی تعمیل میں (7/11)
سپاہی گھر کی خواتین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔
دُلے کو معلوم پڑا تو اس نے پلٹ کر مغل فوج پہ حملہ کیا اور گھمسان کا رن پڑا، سپاہ پٹ گئی اور مغل جرنیلوں نے دُلے کی ماں سے پناہ طلب کی۔ ماں نے بتیس دھاروں کا واسطہ دے کر دُلے کو روک لیا۔ فوج کی ناکام واپسی کے کچھ عرصے بعد مغلوں نے (8/11)
صلح کی شرائط طے کرنے کے لئے دُلے کو بلا کر دھوکے سے گرفتار کر لیا۔ پنجاب کی روایت کے عین مطابق کچھ دن شاہی قلعے میں رکھنے کے بعد دُلے کو تھانہ کوتوالی کے سامنے نکاص منڈی میں پھانسی دی۔ پنجاب کے اس مرد حریت کی نماز جنازہ مشہور صوفی بزرگ مادھو لال حسین نے پڑھائی۔ (9/11)
اب لاہور کے میانی صاحب سے بھکر کے دلیوالا تک دُلے کی کہانیاں پھیلی ہیں۔مغلوں کاخیال تھاکہ مٹی کے ڈھیرمیں یہ بغاوت بھی دفن ہو جائے گی مگر چغتائی شاید پنجاب کی روایت سے نا آشنا تھے۔صدا کے انداز میں لکھی گئی دُلے کی وارپورے پنجاب میں مائیں بہت صدیوں تک اپنے بچوں کوسناتی رہیں۔(10/11)
تقسیم ہوئی تو سب کچھ اتھل پتھل ہو گیا۔ اب دُلے کے وارثوں نے گھوڑوں پہ لڑنے کی بجائے گھوڑوں کی تجارت شروع کر دی ہے۔ حمیت بچانے سے زیادہ جمہوریت بچانے کی فکر میں ہیں اور رہی لوریاں تو اب ان کی ضرورت ہی نہیں رہی کیونکہ بچے اپنے اپنے کمروں میں سوتے ہیں۔
۔ محمد حسن معراج (11/11)
جس دن دُلے بھٹی کو پھانسی دی گئی وہ 26 مارچ کا دن تھا اور سن تھا 1599۔
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
کنجوانی سے نکلتی ریل، چناب کے پانیوں سے دور اور راوی کے آسیب کے ساتھ ساتھ، کمالیہ کے کوٹ پہنچتی ہے۔
صدیوں پہلے یہاں بہت گھنا جنگل ہوا کرتا تھا۔ جنگل کے ساتھ ساتھ راوی صاف صاف بہتا تھا۔ دریا کے کنارے ملاحوں کی بستی تھی جو امن پسند بھی تھے اور بہادر بھی۔ (1/12)
پانی سے زندگی جوڑنے والے یہ لوگ اول اول تو لڑتے نہ تھے اور جو بھڑ جاتے تو چھوڑتے نہ تھے۔ جہلم میں پورس کو شکست دینے کے بعد جب سکندر یہاں آیا تو ان کھوکھروں سے بھی لڑا۔ جنگ کا نتیجہ تو معلوم نہیں کیونکہ تاریخ لکھنے والے ہمیشہ ایسے موقع پہ چوک جایا کرتے ہیں (2/12)
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اب کمالیہ کی تاریخ میں ایک نام سکندر کا بھی ہے۔
ایک ہزار سال بعد یہاں راجہ سرکپ کی حکومت قائم ہوئی۔ اپنے ظلم کی وجہ سے مشہور یہ راجہ سر کی بازی لگاکر چوگان کھیلتا اور بے ایمانی سے اپنے مخالف کو ہرانے کے بعد ان کے سر کٹوا کر محل کی دیوار پہ لگوا دیتا۔ (3/12)
When asked how he felt about his Indian viceroyalty eighteen years after Partition, Mountbatten himself admitted to BBC's John Osman, when they sat next to one another at dinner shortly after the 1965 Indo-Pakistani War, that he had “got things wrong." (1/4)
Osman felt "sympathy" for the remorseful sixty-five-year-old ex-viceroy and tried to cheer him, but to no avail. Thirty-nine years after that meeting he recalled: “Mountbatten was not to be con-soled. To this day his own judgment on how he had performed in India rings (2/4)
in my ears and in my memory. As one who dislikes the tasteless use in writing of … “vulgar slang” ... I shall permit myself an exception this time because it is the only honest way of reporting accurately (3/4)
اصل فیصلے میں پھانسی کی تاریخ مارچ کی چوبیس درج تھی مگر چند ناقابل بیان وجوہات کی بناء پہ یہ وقت لگ بھگ سولہ گھنٹے آگے کرنا پڑا۔ جیل کے حکام نے کوشش کی تھی کہ یہ خبر کال کوٹھری کے اندر ہرگز نہ پہنچے سو تینوں اسی طرح اگلے دن کا انتظار کرتے رہے۔
پنجاب میں بہار آچکی تھی۔ (1/13)
جب دونوں وقت مل رہے تھے اور دادی جے کور بی بی گھڑے ڈھانپ کر اندرجارہی تھی تو اچانک اس کے اپنے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ یہ سات تیس کاوقت تھا۔
گاؤں سے بہت دورلاہور شہر میں داتا دربار کی اذانیں مدھم پڑیں تو جیل میں ایک ہلچل مچ گئی۔ ڈیوٹی پہ موجود میجسٹریٹ نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔(2/13)
ڈپٹی، نوکری بچانے کی خاطر قصور کے ایک آنریری جج، نواب محمد احمد، کو لایا اور اسی نے حکم نامے پہ دستخط کئے۔
وقت آنے پہ تینوں اپنے پیروں پہ گھاٹ گئے۔ ان میں سے ایک نے انگریز سرجن کو مخاطب کر کے کہا، ’’صاحب ! دیکھ لو، ہندوستان میں لوگ اس طرح موت کو گلے لگاتے ہیں‘‘۔ (3/13)
موسمِ بہار کے استقبال کے لیے تقریبا ہر قوم قبیلے میں تہواروں، میلوں ٹھیلوں اور جھوم جھملیوں کی روایت موجود ہے۔
ہمارے نمائندہ تہواروں کا خطے میں آغاز ہوگیا ہے۔ لوہڑی اور ہولی کا تہوار گزر گیا ہے، نو روز کا تہوار آگیا ہے۔ بسنت اور بیساکھی کو بھی (1/18)
آنا چاہیے، مگر نہیں آئیں گے۔ آئیں گے بھی تو سرحد کے پار آئیں گے۔ ہمارے نصیب سے سب اچھے رنگ مٹا دیے گئے ہیں۔ قدیم ایرانی شمسی کیلینڈر کا آغاز یکم فروردین یعنی اکیس مارچ سے ہوتا ہے۔ سو ایرانی تہذیب میں نوروز کا جشن مناکر محض بہار کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا، (2/18)
نئے سال آغاز بھی کیا جاتا ہے۔ ایران سے کئی قومیں، تہذیبیں اور مذہبی دھڑے ہوکر گئے ہیں۔ جو گیا نوروز کے آتش دان سے ایک چنگاری توڑ کر گیا۔ ایران خود بھی کہیں سے ہوکر آیا تو نوروز کی چھاپ چھوڑ کر آیا۔
اس کی تاریخ حضرتِ مسیح کے عہد سے بھی بہت پہلے کی ہے۔ (3/18)
Umade Bhattiyani was the second wife of Maldeo Rathore, the renowned Rathore ruler of Marwar (r. 1532 – 1562).
Umade was a princess of the Bhati Rajput clan of Jaisalmer and was the daughter of Rawal Lunkaran Bhati, (1/6)
the ruler of Jaisalmer (r. 1530 - 1551).
Maldeo Rathore was expanding his territories westward and plundered Jaisalmer in 1537. Rawal Lunkaran was forced to sue for peace by giving Maldeo his daughter Umade in marriage to him. (2/6)
The marriage was not a happy one. Lunkaran had given some davris (maidservants) to his daughter in her dowry. One of them was called Bharmali who was apparently very beautiful. Maldeo was greatly attracted by her beauty and on the first night of his marriage he (3/6)
Ilm-ud-Din case: Lahore High Court complete judgement
Ilam Din murdered Rajpal, the publisher of the pamphlet "Rangila Rasul", on April 6, 1929. Ilam Din was sentenced to death on May 22, 1929. Mohammed Ali Jinnah and Farrukh Hussain filed an appeal to the Lahore (1/25)
High Court against the death sentence. Following is complete judgement of the case.
Broadway, J.—Ilam Din, son of Talia Mand, a Tarkhan of some 19 or 20 years of age, and a resident of Mohalla Sirianwala, Lahore City, has been convicted of having caused the death (2/25)
of one Rajpal on 6th April 1929, and, under S. 302, I.P.C., has been sentenced to death. He has appealed, and the case is also before us under S. 374, Criminal P.C.
The deceased was a Hindu book-seller having a shop in the Hospital Road. Some little time back he (3/25)