22 جنوری 1957 کو سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی پروین رحمن صاحبہ بالآخر 1971 کو اپنے لٹے پٹے خاندان کے ساتھ کراچی پہنچیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کے خاندان نے 1962 میں بہار سے مشرقی پاکستان ہجرت کی تھی مگر حالات کی
👇
نزاکت نے انہیں صرف 9 سال بعد دوبارہ ہجرت پر مجبور کردیا۔
محض 15 سے 20 منٹ میں ان کے خاندان کو ڈھاکہ میں گھر خالی کرنے کا آرڈر ملا اور ان کا گھرانہ صرف اپنی جان اور عزت آبرو کے ساتھ کراچی پہنچا، کراچی میں کچھ دوسری قسم کی پریشانیوں کا سامنا تھا۔ بہرحال پروین رحمان کا تعلق
👇
کیوں کہ ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا اس لئے ان کو فورا ہی سینٹ پیٹرکس اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اسکول اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے داؤد انجینئرنگ کالج سے 1982 میں آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کی اور اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے لیے کسی ڈیفنس اور ایلیٹ کلاس کا انتخاب کرنے
👇
کے بجائے قائد آباد جیسے پسماندہ ترین علاقے میں دن رات ایک کر کے اپنا فائنل ائیر پروجیکٹ مکمل کیا جس میں بڑی تفصیلات کے ساتھ وہاں موجود شہری اور ترقیاتی مسائل سے لے کر کر ان کے حل تک سیر حاصل مواد بعد اکٹھا کر کے اپنے آخری سال کے پروجیکٹ کے طور پر جمع کروا دیا۔
ایک سال بعد
👇
ہی 1983 میں اختر حمید خان جو کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر تھے، انہوں نے اس ہیرے کو تلاش کر لیا اور اپنے ساتھ پروین رحمن کو جوائنٹ ڈائریکٹر لگا لیا۔ دو دو ہجرتوں کی تکلیف اور ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اپنا ہنستا بستا سامان سے سجا خوشیوں سے بھرا گھر چھوڑنے کا دکھ اور
👇
تکلیف پروین رحمان کو اورنگی لے آیا
اورنگی ٹاؤن کراچی کی وہ بستی جہاں سب سے زیادہ مہاجرین آکر آباد ہوئے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہاں زیادہ تر دو دفعہ ہجرت کرنے والے آباد ہوئے تو غلط نہ ہوگا۔ پروین رحمان نے زندگی کا مشن بنایا کہ کبھی کسی کوبے چھت اور بےآسرا نہیں ہونے دینا
👇
انہوں نے بڑی تحقیق اور محنت کے بعد اورنگی ٹاؤن کی گلیوں میں گھنٹوں خوار ہو ہو کر ہر گلی کا نقشہ اپنے ہاتھ سے بنایا اور وہاں کے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت سیوریج لائن انتہائی سستے طریقوں سے ڈالنا سکھائیں
1986 میں انہوں نے نیدرلینڈ کے انسٹی ٹیوٹ آف ہاؤسنگ اسٹڈیز سے ہاؤس بلڈنگ
👇
اور اربن پلاننگ میں اپنا پوسٹ گریجویٹ مکمل کیا
1986 کے بعد کراچی اور بالخصوص اورنگی کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہو گئے مگر ان حالات میں بھی وہ خاتون روزانہ دفتر جاتیں
پروین رحمان کی ریسرچ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد اور خصوصا 1971 کی ہجرت کے بعد کراچی میں کسی بھی
👇
قسم کی کوئی ترتیب اور پلاننگ نہیں کی گئی حتی کہ 2010 تک بھی کراچی اور حیدر آباد میں چار لاکھ سے زیادہ گھر بنانے کی گنجائش موجود تھی اور اگر حکومت ذرا سی سہولت فراہم کرتی تو لوگ بڑی تعداد میں کچی بستیاں بنانے کے بجائے وہاں آباد ہو جاتے۔ مثال کے طور پر لائنز ایریا برطانوی فوجوں
👇
کی بیرکوں کی جگہ تھی اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا مگر وہاں بغیر کسی پلاننگ کے بس لوگوں کو ان کے حال پر بسنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس طرح لائنز ایریا کی کچی آبادی وجود میں آ گئی اور اسی طرح ہر جگہ پورے شہر میں کچی آبادیاں بنتی چلی گئیں۔
پروین رحمان کی تحقیقات کا دائرہ
👇
سیوریج لائن تک وسیع ہو گیا وہ پورے کراچی میں گھومتی رہیں اور دیکھتی رہی تھی آخر یہ نالے کہا گرتے ہیں اور کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور ان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ انہوں نے کراچی سے نکلنے والے تمام نالوں کی انتہا اور ابتدا معلوم کی تو وہ مزید حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگیں کہ
👇
کراچی میں تو نالے "پلاٹوں" کی طرح بک رہے تھے بلکہ نالوں کی خرید و فروخت سرکاری سطح پر جاری تھی۔
سیوریج نالوں سے شروع ہونے والی یہ تحقیق انہیں کراچی میں پانی کی عدم فراہمی کی تحقیق پر لے آئی اور پروین رحمان نے بنفس نفیس جا کر دریائے سندھ اور حب ڈیم سے لے کر گھارو، پیپری اور
👇
مزید نچلے علاقوں میں جاکر تحقیقات کی تو ان پر حیرت کے مزید سمندر وا ہوتے چلے گئے اور انہیں معلوم ہوا کہ :
تیر کھا کے دیکھا جو کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئ
جو اس شہر کے حقوق کے نام پر ووٹ لے رہے تھے دراصل وہی تو اس شہر کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے تھے تھے،
👇
جن کو اپنا "محافظ" سمجھا جا رہا تھا وہ تو خود جگہ جگہ واٹر ہائیڈرنٹس بنا رہے تھے، نالوں پر قبضہ کرکے حسین خوبصورت بستیاں آباد کر رہے تھے حتی کہ وہ کراچی کے نکاسی کے عین منہ پر ایک ایسا خوش نما داغ لگا رہے تھے جو بظاہر بڑا حسین معلوم ہوتا تھا۔
👇
جو لوگ دے رہے ہیں تمہیں رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
آج سے دس سال پہلے انہوں نے تمام ثبوت اور شواہد کے ساتھ بتا دیا تھا کہ جس دن بھی کراچی میں ایک حد سے زیادہ بارش ہوئی اس دن کراچی کے مضافات اور کراچی کے اشرافیہ ایک جیسی مصیبت کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ آپ
👇
نالوں پر قبضہ کر سکتے ہیں مگر نالوں کے پانیوں پر بہرحال آپ کا قبضہ نہیں ہوسکتا۔
2011 اور 2012 میں ان کی شائع ہونے والی رپورٹس نے اصل میں "سرکار اور وقار" دونوں کے چہروں پر سے نقاب نوچ لیا تھا اس لئے پہلے ان کے دفتر میں گھس کر لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں اور بالآخر 13 مارچ 2013
👇
کو چار مسلح افراد نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔
پروین رحمٰن کے جملے سونے سے لکھے جانے کے قابل ہیں کہ "اس شہر کا مسئلہ میگا پروجیکٹس نہیں ہیں بلکہ میگا مینجمنٹ ہے"۔ شہر کو "میگا مینجمنٹ" کی ضرورت ہے اس شہر کو پروین رحمان جیسے درد دل رکھنے والے چاہیے جو اورنگی کے لوگوں کو
👇
اپنی مدد آپ پر لگا دیں، جن کے پاس ٹیم ہو، ویژن ہو اور سب سے بڑھ کر امانت داری اور دیانت داری ہو اب اس شہر کو اعلی ترین "مینجرز" کی ضرورت ہے۔
(جہانزیب راضی)
میں کیسے بھول جاؤں میرا حافظہ ضرور کمزور ہے لیکن میرا لکھا محفوظ ہے
آج 26 مارچ 2023 ہے اور اتوار کا دن ہے جب میں نے اپنی ڈائری کھولی تو 26 مارچ کا ہی دن تھا اور سال 2019 ، منگل کا دن تھا کراچی سے تخت پاکستان کا طلبگار بلاول زرداری کرپشن کیخلاف کراچی سے لاڑکانہ تک ٹرین مارچ
👇
نکال رہا تھا اور وہ بھی سرکاری خرچے پر جیسے وہ کرپشن نہیں بلکہ باپ کا مال تھا ۔
جبکہ 25 مارچ کو دادو میں پولیس نے بدترین تشدد اور تذلیل کا شکار بننے والی غریب عورت اور اس کے معصوم بچے کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کرلیا۔
تذلیل کرنے والے تشدد کرنے والے تماشہ دیکھنے والے
👇
اور پولیس والے سب آزاد گھوم رہے تھے ، کسی کو بھی کرپشن نظر نہیں آئی ۔
اسی دن 26 مارچ 2019 ، کو سابق وزیراعظم نواز شریف چھ ہفتوں کیلئے رہا کر دیئے گئے اور 25 مارچ کو ایک نازک اندام عورت کو مار مار کر لاک اپ میں ڈال دیا گیا ۔
پچیس حج اور سو سے زائد عمرے کیے ہیں ہمارے مولانا حنیف جالندھری صاحب نے اس کے علاوہ چھے برآعظموں کے چالیس ممالک کی سیر بھی کر چکے ہیں. اس سال الحاج صاحب چھبیسویں حج پر جانے کی تیاری میں ہیں. چھبیس حج میں سے ایک بھی اپنے خرچے پر نہیں کیا گیا. حنیف جالندھری صاحب
👇
وفاق المدارس کے چئیرمین ہیں اور مدارس کے نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو سکول کالج میں پڑھایا ہے. اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیٹی کو جرمنی سے کورس کروائے. یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کالج یونیورسٹی میں
👇
پڑھیں اعلیٰ تعلیم یورپ میں حاصل کریں جبکہ غریب کا بچہ وہی تین سو سال پرانا درس نظامی پڑھتا رہے..
آپ پورے پاکستان کے تمام بڑے مدارس کی فہرست بنائیں، تمام بڑے علمائے کرام کو لسٹ کریں. پھر حساب کتاب لگائیں کس کے بچے کشمیر افغانستان جہاد پر گئے ہیں؟ کس کے بچوں نے درس نظامی کیا ہے
👇
ہیمیں یہ تو بتاتے ہیں
کہ
حضرت یوسف بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے ،
مگر
کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس یوسف نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نہیں مرنے پایا
سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان کی بادشاہت اتنی
👇
دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے اپنے ملک فلسطین (انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ) اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن ( ایگریکلچرل/ ذرعی اکانومی ) کے درمیان دو طرفہ معاہدات کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی
👇
آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی
مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی زلفیں "والیل" اور روۓ مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں وہاں
👇
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق - لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے
انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں
👇
رمضان میں پورا مدینہ اشیائے خورونوش لے کر مسجد نبوی ﷺ حاضر ہو جاتا ہے - دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی ﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور ﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں ۔
👇
مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں -
میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا:
’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘
(How Rich became Elite in Pakistan
A well researched article by Rosita Armytage)
پاکستان کی ایک فیصد اشرافیہ گذشتہ چالیس سال کے عرصہ میں صرف بائیس خاندانوں سے بائیس لاکھ تک کیسے پہنچی؟ دولت کی یہ پیوند کاری کیسے ہوئی؟ اور یہ فصل اتنی ثمربار کس طرح ہو گئی۔ روزیٹا آرمیٹیج
👇
(Rosita Armytage)
کا تحقیقی مطالعہ پاکستان میں ارتکازِ دولت اور استحصالی طبقات کے مختلف طریقِ ہائے کار سے پردہ اُٹھاتا ہے۔
اس کے مطابق یہ ایک خوفناک گٹھ جوڑ ہے جو اعلیٰ سطح کے بیوروکریٹس، فوجی جرنیلوں، سیاسی رہنمائوں اور کاروباری اشرافیہ کے درمیان وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہوتا
👇
چلا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر گروہ کے اپنے اپنے طاقت کے مراکز (Power Blocks) ہیں، لیکن مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لئے یہ تمام گروہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ طاقت کے مراکز فوج، سول بیوروکریسی، بزنس اور سیاست میں پائے جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے گروہوں میں انفرادی طور ترقی کی سیڑھیاں
👇
جب ہم کہتے ہیں کہ ہم #حقیقی_آزادی_کی_جنگ لڑ رہے ہیں تو اس دور کا یزیدی ٹولہ ہم سے استہزا کرتا ہے
ٹھٹھے لگاتا ہے کہ آزاد ملک میں رہتے ہو کس سے آزاد چاہیے
پھر ہم نے دیکھا کہ پر امن مارچ پر تشدد کی انتہا کر دی گئی،
ہم سے کہتے ہیں کہ ہم یوتھئے ہیں ، فسادی ہیں،
کیا فساد کیا ہے؟
👇
کیا ہم یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو اسی طرح سازش کر کے چور راستے سے وزیراعظم بنا دو جیسے شہباز شریف کو بنایا ہے؟؟
ہم صرف شفاف انتخابات ہی تو مانگ رہے ہیں
کیا یہ گناہ ہے؟؟
یہ فساد ہے؟؟
اب بھی آئین پامال کرکے الیکشن ملتوی کر دئے گئے ہیں
اب ہم جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو کورٹ کی
👇
اجازت کے باوجود ریاستی ظلم جاری ہے
بےگناہ نوجوانوں کو اٹھایا جا رہا ہے
مارا جا رہا ہے
ننگا کیا جا رہا یے #بادشاہ_ننگا_ہے
یہ سب کو پتہ چل گیا ہے
اور ننگا بادشاہ اپنی جھینپ مٹانے کے لیے سب کو پکڑ کر ننگا کر رہا ہے
بوڑھوں کو، نوجوانوں کو
الیکشن کی مانگ کرنے والی خواتین کو بدکاری
👇