شیر ، بھیڑیا اور چیتا خوبصورت اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے
لومڑی کے ہاتھ میں مائیک تھا اور وہ تقریر کر رہی تھی
اس کی آواز میں جوش تھا
"اے جانورو! تم کبھی بھی نہیں بدلو گے جب تک اپنے اندر کے ڈر کو ختم نہیں کرو گے
آگے بڑھنے کے لیے تمہیں اپنے اس ڈر کو ختم کرنا ہو گا
یہ میرے پیچھے
👇
یہ میرے پیچھے بیٹھے شیر ، بھیڑیا اور چیتا بھی کبھی تمہاری طرح ہرن ، زیبرا اور خرگوش تھے ۔ مگر انہوں نے محنت کی
خود کو بدلا
اپنے اندر کے ڈر کو ختم کیا
رسک لیا
اور آج دیکھو یہ کس روپ میں ہیں
جنگل کے جس کونے میں چلے جائیں سب ان کو سلام کرتے ہیں
ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرتا
👇
مگر اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں بہت کڑی محنت کرنی پڑی
تم لوگ بھی یہاں تک پہنچ سکتے ہو بس اپنے "کمفرٹ زون" سے باہر نکلو اور محنت کرو"
جانوروں کے سارے مجمعے پر سکوت طاری تھا
تبھی ایک کچھوا آگے بڑھا اور بولا
" کیا مطلب ہے تمہارا؟
یہ ہرن اگر محنت کرے ،کراٹے کی کلاسیں لے
👇
تو اگلی دفعہ اسے چیتے سے ڈر کے بھاگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ؟ کیا وہ خرگوش باکسنگ کی کلاسیں لے تو بھیڑیے کی ناک توڑ دے گا ؟
اور یہ زیبرا کیا سیکھے کہ اسے دیکھ کر ببر شیر بھی کانپ اٹھے"؟
میں کتنے کلومیٹر رننگ کروں کہ کہانیوں کے علاؤہ بھی خرگوش کو ہرا سکوں
کچھوے کے سوال سن کر
👇
لومڑی پریشان ہو گئی
وہ کچھ بولنے لگی تو کچھوے نے اسے خاموش رہنے کا کہا اور پھر بولا
"جنگل میں سب برابر نہیں ہیں
ہر کوئی خونخوار اور طاقت ور نہیں ہو سکتا ہر کوئی تیز اور پھرتیلا نہیں ہو سکتا
مگر سب نے رہنا اسی جنگل میں ہے
سب شیر کی طرح طاقت ور ہو گئے تو سب ہی بھوکے مریں گے
👇
سب اگر اس ہرن کی تیز رفتار ہو جائیں تو دوسرے شکاری جانوروں کے لیے شکار پکڑنا ناممکن ہو جائے گا
سانپ کی طرح خرگوش بھی زہریلا ہو گیا تو بھیڑیا کبھی بھی اسے پکڑ نہیں سکے گا
ہم ایک دوسرے سے الگ ہیں تو ہی یہ نظام چل رہا ہے ۔ جس دن سب شیر یا سانپ بن گئے تو اس جنگل کو برباد ہونے میں
👇
زیادہ عرصہ نہیں لگے گا
ایک تو تم شکاریوں کی چیرہ دستیوں کو برداشت کریں اور اوپر سے لیکچر بھی سنیں
ہم جو ہیں جیسے ہیں خوش ہیں
👇
اس لیے اگر موٹیویشننل اسپیکر بننے کا زیادہ شوق چڑھا ہے تو پاکستان چلی جا ۔ ہمارے جنگل کو پاکستان نہ بنا ___
اس سے پہلے کہ جانور زیادہ شور مچاتے لومڑی نے جلدی سے مائیک شیر کو پکڑا دیا ۔
سات سو سال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے:
“مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے،
👇
اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے
👇
دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی،
👇
لڑکی کا رشتہ آیا۔ دادی نے کہا.. گھر بھی ہے آمدنی بھی ہے اپنے بھی ہیں ہاں کردو
شادی ہو گئی۔۔زندگی نشیب و فراز کے ساتھ گزر گئی۔
چند دہائیاں مزید گزر گئیں۔۔۔پھر لڑکی کا رشتہ آیا۔۔دادی یا نانی نے کہا کہ گھر بھی ہے، تعلیم بھی ہے، آمدن بھی ہے. ہاں کردیتے ہیں۔۔لیکن لڑکی نے کہا کہ 👇
ماں ان کا اور ہمارا ماحول بہت مختلف ہے، ہاں مت کیجیے گا
ماں سمجھ دار خاتون تھی اس کی سمجھ میں بات آگئی رشتےسے معذرت کر لی گئی
کچھ عرصہ مزید گزر گیا۔۔اب وقت کچھ اور بھی بدل گیا۔۔ہر زمانے کی ترجیحات اور ضروریات الگ ہوتی ہیں
ایک محنتی شریف لیکن غریب بچے کا رشتہ آیا ماں نے سوچا کہ
👇
جب میری شادی ہوئی تب میرا شوہر بھی زیادہ امیر نہیں تھا مگر محنتی تھا تو میں نے کچھ عرصہ مشکل لیکن مجموعی طور پر ایک اچھی زندگی گزاری۔۔اس رشتے پر غور کرتے ہیں۔۔
لیکن
بیٹی نے کہا "ماں مجھےامیر شوہر چاہئیے میں اپنی آدھی زندگی آپ کی طرح ترس ترس کر نہیں گزار سکتی۔۔چاہے بوڑھا ہو،
👇
انسانی عادتوں کے ماہرین نے ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی ہے اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتا چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں۔
👇
یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ”ڈسین میکنگ“ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتا چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ”ری چارجنگ“ کی ضرورت ہوتی ہے
👇
اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے‘ ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی
👇
مما مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، مجھے گرلڈ ٹماٹر کھانا ہے!!
میں لرز کر رہ گئی کہ گھر میں اب پھاکنے کو دھول بھی نہ بچی تھی. اچھا میرے لال میں کچھ کرتی ہوں.
یوسف، میرا سات سالہ بیٹا، میرا لاڈلا. وہ میری نیم شبی کی مقبول دعا، جیسے میں نے شادی کے آٹھ سال بعد بڑی
👇
منتوں مرادوں سے پایا تھا. میرے بھورے گھنگھریالے بالوں والا یوسف واقعی یوسفِ ثانی ہے. میرا تو دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اسے ایک پل کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے دوں مگر دل پر پتھر رکھ کر اسکول بھیجنا ہی پڑا. اس کی جدائی کے آٹھ گھنٹے میرے لیے اٹھ صدی ہوتے. میں گیلری میں
👇
کھڑی اس کی راہ تکتی اور جیسے ہی اسکول بس پھاٹک پر رکتی میں لپک کر دروازہ کھولتی اور اپنی پھیلی ہوئی بانہوں میں اپنی زندگی کو سمیٹ لیتی. گرل ٹماٹر، یوسف کے پسندیدہ سبزی اور وہ ہر روز، دن کے کھانے میں لازمی کھایا کرتا.
آہ !! دس دنوں سے چلتی یہ جنگ. اب میرے گھر میں کھانے کو
👇
ایک تحریر بڑی پرانی
مگر ہر دور میں کوئی نہ کوئی کردار اسے زندہ رکھتا ہے
یہ 1998 کی بات ھے، مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا،حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک سب فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔
قاہرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد فیفی نے شراب
👇
پینے کیلئے بار کا رخ کیا ،شراب زیادہ پینے کی وجہ سے وہ اپنے ہوش کھو بیٹھی اور بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیا، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوراً وہاں پہنچ گیا،اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں
👇
دیتی۔
یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھا اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں،
وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔
فیفی کو پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ھی اعلیٰ ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ
👇