جسٹس یحییٰ آفریدی ، کیس عوامی مفاد سے متعلق نہیں
جسٹس جمال مندوخیل ، کیس عوامی مفاد سے متعلق نہیں، پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کرے
جسٹس محمد علی مظہر، الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس اعجاز الاحسن، 90 روز میں الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس منیب اختر، الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، 90 روز میں الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس اطہر من اللہ، اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل ہوئیں یا نہیں؟ یہ جائزہ لیں
جسٹس امین الدین خان، 184/3 والے کیسز کی سماعت روک دیں
ابھی تک ان 4ججز نے مائنڈ اپلائی نہیں کیا
جسٹس سردار طارق مسعود
جسٹس عائشہ اے ملک
جسٹس شاہد وحید
جسٹس حسن اظہر رضوی
مزے کی بات ہے ابھی تک کسی ایک جج نے بھی یہ نہیں کہا کہ الیکشن آئین کے مطابق 90 روز میں نہیں ہوں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کیس کی سماعت میں ریمارکس دئیے کہ آئین 90 روز میں الیکشن پر واضح ہے
باقی سب ٹیکنیکلیٹیز کا سہارا لیا جا رہا ہے اور بینچ ٹوٹتے جا رہے ہیں، صاحب فیصلہ کریں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
آرٹیکل 232میں لکھا ہے کہ 1) صدر خود مطمئن ہوں کہ پاکستان کو اندرونی یا بیرونی خطرہ اور قابو پانا حکومت کے بس سے باہر ہے تو ہنگامی حالت کا اعلان کر سکتا، اس صورت میں صوبائی اسمبلی کی قرار داد درکار ہو گی
2) صدر کے اعلان کے بعد مجلس شوری (سینیٹ+قومی اسمبلی) سے منظوری لینا ہو گی
قومی اسمبلی کی مدت کیسے بڑھ سکتی ہے؟
جواب آرٹیکل 232 کے سیکشن 6 میں
اگر ہنگامی حالت یا Emergency کا اعلان ہو چکا ہو گا تو ہی قومی اسمبلی میعاد میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کی توسیع ہو سکے گی
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس میں clear کیا ہے کہ 90روز میں الیکشن کرانا ہی آئین کی منشا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، اور یہ ایک لازمی آئینی امر ہے
سوال یہ ہے کہ پھر از خود نوٹس کیوں؟؟ تھریڈ
سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس صرف جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی نشاندہی پر نہیں لیا۔۔ بلکہ نوٹس میں بتایا ہے کہ پنجاب اور KP اسمبلی کے اسپیکرز، اسلام آباد ایسوسی ایشن کی درخواست بھی لگی ہے پہلے ہی
عدالت نے نوٹس میں ہائیکورٹس میں چلنے والے کیسز اور دونوں گورنرز کے طرزِ عمل کو بھی سامنے رکھا ہے
پنجاب کا گورنر کہتا ہے اسمبلی تحلیل نہیں کی تاریخ نہیں دوں گا
خیبر پختون خوا کے گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے، پھر بھی نہیں بتا رہا کہ وجہ کیا ہے
ارشد شریف کیخلاف میمن گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج کرنے والے SHO خلیل الرحمان کے مطابق، ان کو SP نے ایک دفتر بلایا، وہاں 3 لوگ اور بیٹھے تھے، SHO کو مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا، SHO نے کہا بغاوت کا مقدمہ حکومت کی مرضی کے بغیر درج نہیں ہونا چاہیے، SP نے کہا اجازت بعد میں لے لیں گے
ایس ایچ او خلیل الرحمان کے مطابق: مقدمے میں ارشد شریف اور عماد یوسف @AmmadYousaf کو نامزد کیا گیا ، عماد یوسف کو رات گئے 'کوئی اور' گرفتار کر کے تھانے لایا، گرفتاری میں پولیس involve نہیں تھی
میں عمران خان کا ساتھ دینا چاہتا تھا
شریفوں نے ہمیشہ جھوٹ بولا، جو بھی کہا پورا نہیں کیا
جنرل باجوہ سے بات ہوئی تو انہیں اپنا ارادہ بتایا
جنرل باجوہ نے کہا عمران خان کا ساتھ دینا آپ کیلئے قابل عزت اور بہتر راستہ ہے
پرویز الہیٰ
فوج نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے
وہ اب کسی کو لانے یا گرانے کا فیصلہ نہیں کریں گے
جب بھی الیکشن ہوئے سب کیلئے فری اینڈ فیئر رولز ہوں گے
عمران خان کیلئے راستے کھلے ہیں
عارف علوی نے راستے ھولنے میں بہت کردار ادا کیا
وزیراعلیٰ پنجاب
خاندان میں بچوں کے بہت زیادہ مسائل ہیں
شاید بچے اب اپنی اپنی سیاست الگ الگ کریں
بڑے بیٹھ کر سمجھائیں تو شاید مسائل حل ہو جائیں