براعظم امریکہ کے غریب ترین ممالک نے جن میں پیرو ارجنٹائن کولمبیا پیراگوئے اور یوروگوائے نے بیس سال پہلے تک بہت زیادہ بھوک اور رزق میں کمی کا سا منا کیا اس کی ایک وجہ وہی ھے جو ساری دنیا کی مشترک وجہ ھے کہ
👇
نالائق حکمران اور منصوبہ بندی کا فقدان لیکن ان پانچ ملکوں کا ایک اتحاد شروع سے موجود ھےجسطرح ہمارا ھے سارک کے نام سے
چنانچہ اُس اتحاد کا سالانہ سربراہ اجلاس بیس سال پہلے تاریخی ثابت ہوا اس میں جو فیصلے کیے گے وہ مندرجہ ذیل ہیں
۱::زرخیز اور قابل کاشت زمین کا تحفظ مطلب وہاں کوئی
👇
تعمیرات نہ ہونے دینا
۲:: قابل کاشت اراضی کی باقاعدہ تقسیم اور ملکیت کی حد مطلب ہر ایک کو تقریبا پچاس کنال کا فارم دینا
۳::بہت (کم زرخیز )آراضی پر جنگلات اگانا
۴::اور بالکل ہی (بنجر اراضی) پر مکانات اور دیگر تعمیرات کرنا
۵: جس کے پاس دو یا چار کنال زرعی زمین ھے اور وہ ویسے ہی
👇
دبا کر بیٹھا زراعت اس نے کرنی نہیں ایک کھیتی یا دوکھیتیاں اس کے پاس ہیں تو وہ اس سے خرید کر پچاس کنال کے فارم میں شامل کر دی اور کچھ کو ان کھیتیوں کے عوض شہر میں مکان دے دیے جائیں
اب جناب ان ممالک نے ایسا کرنا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے خوراک کی گوشت کی انڈوں کی اور سبزی
👇
پھلوں کی کمی دور ہوتی نظر آئی
مثلا مقامی کونسل جب کسی بندے کو زرعی فارم دیتی تو ساتھ یہ ہدایت اور ان ہر سختی سے عمل کا کہتی وگرنہ یہ فارم چھین لینے کی دھمکی بھی ساتھ دیتی کہ
1: یہ فارم تماری ملکیت ھے لیکن اولاد میں قابل تقسیم نہیں بس جس بچے کے پاس زراعت کی کم سے کم درجے کی
👇
ڈگری ہو گی فارم کا مالک وہ کہلائے گا باقی بہن بھائیوں کو برابری کی رقم دے کر چلتا کرے گا
2: اس فارم کا مالک ہوتے ہوئے تماری اوپر لازم ھے کہ دس گائے تیس بکریاں اور سو پرندے یعنی مرغیاں لازمی فارم میں موجود ہونی چاہیں
3: فارم کی حدود یا باونڈری بنانے کے لیے اینٹ یا پتھر کی
👇
دیوار کے بجائے پھل دار درختوں کی قطار سے بنے گی
4: اور فارم کے مالک ہونے کے ناطے تمارے اوپر لازم ھے کہ فارم کا ایک چھوٹا حصہ سبزیوں کے لیے مختص ہو گا
5: اور ہر سال کے آخر میں کونسل کے نمائندے تمارے فارم آکر ایک ایک چیز کا جائزہ لیں گے کہ مطلوبہ چیزوں کی تعداد پوری ھے کہ
👇
نہیں ساتھ ساتھ پیداوار اور جانوروں کی صحت کو بھی چیک کیا جائے گا
6: اگر حدف پورا ھے تو ٹھیک -اگر کم ھے تو مدد کی جائے گی اور وارنیگ بھی دی جائے گی
7: لیکن اگر حدف سے بڑھ کر پیداورھے تو ایک الیکٹرک ٹریکٹر انعام دیا جائے گا جو ڈیزل وغیرہ پر بھی چلے گا لیکن عموما بجلی سے چارج
👇
ہو گا اور تمام زرعی ضرویات کو پورا کرے گا
اس سال 2020 میں ان ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس آن لائن ہوا اور دنیا کے دوسرے کونے سے ایک زرعی چیمپین ملک اسٹریلیا نے بطور ابزرور مہمان شرکت کی سب ممالک نے اس خودکفالت کو عبور کرنے پر خوشی کا اظہار کیا
جبکہ اسٹریلیا کی
👇
تجویز کو بھی انتہائی صحت افزا جان کر پروگرام کا حصہ بنا دیا اسٹریلیا کی تجویز یہ تھی کہ
ہر فارم میں جسطرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ھے اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تا کہ بہتر پرفارم کر سکے
لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر
👇
بجلی خود پیدا کر سکے
اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہو گا
نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا
اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں پھل دالیں آٹا چاول دودھ گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے روزگار بھی ملے گیس اور بجلی بھی بنی
👇
ہم تو زرخیز مٹی والا زرخیز موسموں والا ملک ہیں
غور کیجئے
Copied
اب مصنف اورمحقق کے نام کے ساتھ منقول بھی لکھ دیا
امید ہے اب کسی کو اعتراض نہیں ہوگا
😊😊
والدین کا گھر!
خلیل جبران کی یہ تحریر انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ کسی نے اردو ترجمہ کیا اور رلا دیا۔۔۔پوری تحریر ضرور پڑھیں ۔
والدین کا گھر
صرف یہی وہ گھر ہے
جہاں آپ جب جی چاہے
بغیر کسی دعوت کے جا سکتے ہیں
یہی وہ گھر ہے
جہاں آپ دروازے میں چابی لگا کر
براہِ راست گھر میں
👇
داخل ہو سکتے ہیں
یہ وہ گھر ہے
کہ جہاں محبت بھری نگاہیں
اس وقت تک دروازے پر لگی رہتی ہیں
جب تک آپ نظر نہ آ جائیں
یہ وہ گھر ہے
جو آپ کو آپ کی بچپن کی بےفکری
اور خوشیوں کے دن یاد دلاتاہے
یہ وہ گھر ہے
جہاں آپ کی موجودگی
اور ماں باپ کے چہرے پر محبت کی نظر ڈالنا باعثِ برکت ہے
👇
اور ان سے گفتگو کرنا اعزاز کی بات ہے۔
یہ وہ گھر ہے
جہاں آپ نا جائیں تو
اس گھر کے مکینوں ک دل مرجھا جاتے ہیں۔
یہ وہ گھر ہے
جہاں ماں باپ ک صورت میں
دو شمعیں جلی رہتی ہیں
تاکہ آپکی دنیا کو روشنی سے جگمائیں
اور آپ کی زندگی کو خوشیوں اور مسرتوں سے بھر دیں
یہی ہے وہ گھر
👇
اسکی شادی ہوئی اور تین ماہ میں طلاق ہو گئی۔ وہ فیملی اچھی نہیں تھی
والدین نے عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کروا دی
وہ بندہ اپنے ماں باپ کی سنتا تھا۔ اس کی ماں اور بہن جو کہتی تھیں وہ سچ سمجھتا تھا، بیوی جو کہتی تھی وہ جھوٹ سمجھتا تھا
خود کی کوئی سوچ سمجھ ہی نہیں تھی
لڑکی اپنے
👇
والدین کے گھر آ گئی۔ کچھ عرصے بعد
چھ ماہ تک کوئی پوچھنے بھی نہیں آیا۔ پھر سسرال نے ڈائریکٹ طلاق کے کاغذات بھجوا دیے
لوگ طعنے مارتے ہیں اسے۔ بہت ڈپریس ہو گئی ہے وہ ، دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتی
اب وہ کیا کرے؟ والدین اسکی پھر سے شادی چاہتے ہیں۔ دو بار کی طلاق کے بعد اچھے رشتے
👇
کیسے ملیں گے؟ شادی کے بغیر اکیلی اس معاشرے میں کیا کریگی؟
خواتین! یہ ہے وہ سیناریو۔ ۔
یہ ہے وہ مسئلہ جو آپ کی زہریلی پوسٹوں اور کامنٹس سے بن رہا ہے
آپ کے بغیر سوچے سمجھے مشورے، جو آپ نے اپنے حالات، اپنے تعصبات اور میڈیا کے شور میں خیالات بنائے ہیں، انکا نتیجہ ہے
یہ انسانی فطرت میں شامل ہی نہیں کہ اسے حرام کا لقمہ راس آجائے. زندگی میں اونچ نیچ بہت ہوجاتی ہیں اور ہوئی ہیں لیکن ایک بات ہر بار پائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم کچھ ایسا کریں جو ہماری طبیعت کے مخالف ہو تو ہمیں بےچینی سی شروع ہوجاتی ہے. اسی طرح اگر کسی کو دھوکا دیں یا کسی کے
👇
ساتھ زیادتی کریں تو بھی دماغ میں خیال دوڑتا رہتا ہے کہ کاش جو کچھ تھا،اسے سہہ جاتا اور یہ غلط کام نہ کرتا
لیکن میں نے دیکھا ہے چند ایسے لوگوں کو جنہیں جانے کیوں حرام راس آجاتا ہے اور کون ہے جو حرام سے حلال کے راستے پر ائے؟
وہ بھی اس دور میں جب حرام کی کمائی پر 1000 گنا ملے اور
👇
حلال کی کمائی پر 1 گنا
آخر یہ حرام راس آتا کیوں ہے؟
کافی کھوج کے بعد اتنا معلوم ہوا کہ انسان جب اپنی طبیعت سے ہٹتا ہے یعنی حرام کے لقمے کی طرف جاتا ہے تو شروع میں نقصان بھی اٹھاتا ہے اور بےچین بھی ہوتا ہے، لیکن چونکہ اس کے پاس اپنے آپ کو راضی کرنے کے لیے تاویلات موجود ہوتی ہیں
👇
شیر ، بھیڑیا اور چیتا خوبصورت اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے
لومڑی کے ہاتھ میں مائیک تھا اور وہ تقریر کر رہی تھی
اس کی آواز میں جوش تھا
"اے جانورو! تم کبھی بھی نہیں بدلو گے جب تک اپنے اندر کے ڈر کو ختم نہیں کرو گے
آگے بڑھنے کے لیے تمہیں اپنے اس ڈر کو ختم کرنا ہو گا
یہ میرے پیچھے
👇
یہ میرے پیچھے بیٹھے شیر ، بھیڑیا اور چیتا بھی کبھی تمہاری طرح ہرن ، زیبرا اور خرگوش تھے ۔ مگر انہوں نے محنت کی
خود کو بدلا
اپنے اندر کے ڈر کو ختم کیا
رسک لیا
اور آج دیکھو یہ کس روپ میں ہیں
جنگل کے جس کونے میں چلے جائیں سب ان کو سلام کرتے ہیں
ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرتا
👇
مگر اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں بہت کڑی محنت کرنی پڑی
تم لوگ بھی یہاں تک پہنچ سکتے ہو بس اپنے "کمفرٹ زون" سے باہر نکلو اور محنت کرو"
جانوروں کے سارے مجمعے پر سکوت طاری تھا
تبھی ایک کچھوا آگے بڑھا اور بولا
" کیا مطلب ہے تمہارا؟
یہ ہرن اگر محنت کرے ،کراٹے کی کلاسیں لے
👇
ماہر تعلیم اور ادیب محمد صہیب فاروق کی دِل کو موہ لینے والی تحریر
ایک بچے کے والدین ہرسال اسے ٹرین میں اس کی دادی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لے جاتے
پھر وہ اسے چھوڑ کر اگلے دن واپس آجایا کرتے تھے
پھر ایک سال ایسا ہوا کہ بچے نے ان سے کہا "میں اب بڑا ہو گیا ہوں
👇
اگر اس سال میں دادی کے پاس اکیلا چلا گیا تو کیا ہوگا ؟"
والدین نے مختصر بحث کے بعد اتفاق کر لیا مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گٸے والد نے جونہی کچھ سفرکی ہدایات دینا شروع کیں
تو بیٹا اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہنے لگا
: اباجان ! "میں ہزار مرتبہ یہ ہدایات سن چکا ہوں !"
👇
ٹرین کے روانہ ہونے سے ایک لمحہ پہلے، اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی
"یہ لو، اگر تم خوفزدہ ہو یا بیمار ہو تو یہ تمہارے لیے ہے"
اور اپنے بچے کی جیب میں کچھ ڈال دیا
بچہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں اکیلا بیٹھا تھا،
وہ کھڑکی سے زمین کی خوبصورتی کو
👇
گبر سنکھ پورے رام پور سے اناج لینے تین آدمی گھوڑوں پر بھیجتا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اتنا اناج لینا ہے کہ گاؤں والوں کو اپنی جان کے لالے نہ پڑ جائیں۔ کیونکہ اگر بھوک سے موت آنی ہے تو بندہ اپنا حق چھیننے والے سے لڑ کر ہی کیوں نہ مرے۔
👇
پاکستان کی فوج کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔جب تک خوشحالی تھی، ڈالرز آرہے تھے؛ کسی کو پرواہ نہیں تھی حمید گل کی بیٹی کی ٹرنسپورٹ کمپنی کی اور جنرل اختر عبد الرحمان کی اولاد کی صنعتی ایمپائر کی یا کور کمانڈرز کے کروڑ کمانڈرز ہونے کی۔
اب بات پیٹ تک آگئی ہے۔
👇
عوام لڑنے اور مرنے پر آگئی ہے۔ عمران خان تو محض ایک ماچس کی تیلی ہے؛ تیل تو آرمی چیفس خود چھڑکتے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ارب ڈالر دے بھی دے تو دو یا تین مہینے چلیں گے۔ کتنے مہینے ہو گئے مقبوضہ کشمیر کا نام تک نہیں لیا کسی نے؟ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ فوج کو فوری طور پر پلاٹوں
👇