Moona Sikander Profile picture
Apr 17 31 tweets 12 min read Twitter logo Read on Twitter
دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، بوڑھے شخص نے دروازہ کھولا تو ہمسائے اور اہل محلہ سارے اکٹھے تھے، تیور تو غصے والے تھے جنہیں دیکھ کر گھر سے برآمد ہونے والے بزرگ تھورا سا پریشان ہوئے، اور پوچھا کیا بات ہے سب خیریت ہے نا؟
خیریت کہاں ہے بھائی تمھارا لڑکا آئے روز ہمارے گھر کی
👇 Image
دیواروں پر کوئلے سے پتا نہیں کیا نقش و نگار بناتا رہتا ہے، ساری دیواریں اس نے کالی کررکھی ہیں، تم اپنے لاڈلے کو منع کیوں نہیں کرتے؟اسے سمجھاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"

بڑے میاں نے وقتی طور پر اہل محلہ کو سمجھا بجھا کر بھیج تو دیا، لیکن وہ اس شکایت سے قدرے نالاں بھی تھے، بیٹے کو
👇
سمجھایا " یار باز آجا کیوں تو لوگوں کو تنگ کرتا ہے، اپنی پڑھائی پر دھیان دے اور آئندہ شکایت کا موقع نہ دینا" بیٹے نے سر جھکا کر سن تو لیا، لیکن وہ باز رہنے والا کہاں تھا۔ یہ آڑھی ترچھی لکیریں تو اس کا شوق تھا اور شوق سے لاتعلقی کون اختیار کرسکتا ہے۔

پھر اس لڑکے نے باپ کا مان
👇
رکھتے ہوئے دیواروں کو کالا کرنا ترک تو کردیا لیکن دیواروں کے علاوہ جو بھی خالی جگہ ملتی وہاں وہ چاک یا کوئلے سے کچھ نہ کچھ بناتا رہتا، یوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا، اسکول میں اساتذہ کی غیر موجودگی میں تختہ سیاہ پر چاک کی مدد سے وہ اپنے شوق کی تکمیل کرتا رہتا، کبھی ڈانٹ اور کبھی
👇
حوصلہ افزائی دونوں برابر ملتے رہے. وقت گزرتا رہا، اسکول میں منعقدہ خطاطی اور خوش نویسی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا، جو بھی لکھا ہوا، یا بنا ہوا نمونہ دیکھتا اسے ہو بہو چاک کی مدد سے بنا لیتا تھا
خوش نویسی کے قواعد یا خطوں کی پہچان تو اسے بالکل بھی نہیں تھی لیکن جیسا بھی
👇 Image
مشکل سے مشکل خط ہوتا وہ اسے کاغذ پر اتار لیتا، کوئی پوچھتا کہ یہ کون سا خط ہے یا کون سا اسٹائل ہے تو وہ بتا نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے پاس باقاعدہ تعلیم تو نہیں تھی نہ ہی پہچان تھی۔ کلاس میں سب سے پہلے آتا، چاک سے تختہ سیاہ پر اپنی مشق کرتا رہتا، باقی ہم جماعتوں اور اساتذہ کے
👇
آنے سے پہلے وہ ٹھیک ٹھاک مشق کرلیتا اور اگر کبھی کبھار کوئی استاد دیکھ لیتا تو حیران رہ جاتا کہ نو عمر اور نو آموز بچے کا اتنا عمدہ خوش خط۔ آہستہ آہستہ اس کی مشق میں پختگی تو آگئی لیکن باقاعدہ راہنمائی سے محروم ہی رہا، اسکول میں کوئی خطاطی کا استاد نہیں تھا اور آرٹ یا ڈرائنگ
👇
کا استاد اسے تھوڑا بہت سکھا تو دیتا تھا لیکن وہ لڑکا ان استادوں سے زیادہ بہتر لکھ لیتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مقابلے جیتتا رہا، محلے میں بھی بینر اور اشتہار لکھنے والے کی حیثیت سے پہچان بنوا لی۔ اسی دوران میٹرک کرلی اور آگے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا تو اسکول جانا چھوڑ دیا۔

👇 Image
برش اور رنگ لیتا اور گلیوں محلوں میں نکل جاتا لوگوں کی دکانوں پر نام لکھتا، بینر لکھتا اور چند پیسے کماتا، اس کام سے اسے تسکین نہیں مل رہی تھی وہ اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتا تھا لیکن اسے کوئی راہ نہیں مل رہی تھی۔ اسکول جب چھوڑ دیا تو وقت کی فراوانی بھی ہوگئی اور
👇
کام میں روانی بھی ہوگئی۔ ایک دن اسے کہیں سے ایک کتاب مل گئی جس کا نام تھا، خوشخطی سیکھیں۔ اس کتاب میں اردو اور عربی کے خطوں کے متعلق معلومات تھیں جیسے برش، قلم اور رنگوں کی بنیادی معلومات۔ اس نے وہ کتاب حفظ کرلی اور خطوں کی شکلیں یاد کرکے ان کی مشق شروع کردی۔ ایک دن وہ بڑی
👇
کتابوں کی دوکان میں گیا اور وہاں سے اپنے کام کے متعلق کسی کتاب کا پوچھا، اسے کوئی خاص کتاب تو نہ ملی مگر عربی رسم الخط کے متعلق اسے ایک چھوٹا سا کتابچہ مل گیا اس نے وہی خرید لیا۔ اب عربی تو وہ پڑھ نہیں سکتا تھا لیکن عربی خطوں کی شکلیں اسے پتا چل گئیں، چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے
👇 Image
وہ بڑی کمپنیوں اور اداروں کے کام کرنے لگا۔

ایک دفعہ کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر وہ یونہی تاج کمپنی کا سائن بورڈ لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک بڑی گاڑی اس بورڈ کے نیچے آکر رک گئی اور گاڑی میں بیٹھے شخص نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ نیچے آیا تو دیکھا اس سے مخاطب ایک عربی شخص
👇 Image
ہے اور عربی زبان سے تو وہ ناواقف تھا، اس بڑی گاڑی کے پیچھے ایک چھوٹی گاڑی بھی آکر رکی اس میں عربی شخص کے جاننے والے پاکستانی افراد تھے۔ وہ نیچے اترے اور اس لڑکے سے کہنے لگے کہ شیخ چاہتا ہے کہ تم اس کے ساتھ سعودی عرب چلو اور وہاں جاکر اس کے لیے خطاطی کا کام کرو۔ لڑکا کہنے لگا
👇
مجھے تو عربی بولنا اور لکھنا آتی ہی نہیں میں کیسے یہ کام کروں گا، تو اس عربی شخص نے بتایا کہ تم جس خط میں یہ بینر لکھ رہے ہو یہ عرب کا مشہور خط ہے اور اسے ہر کوئی لکھ بھی نہیں سکتا۔ تم تو اسے کمال مہارت سے لکھ رہے ہو اور کہتے ہو میں جانتا بھی نہیں۔
وہ عربی سعودی سفیر کا دوست
👇 Image
تھا اور پاکستان سے ہنر مند افراد کو لینے آیا تھا، اسے پاکستانی خطاط لڑکے کا کام پسند آگیا اور اسے ساتھ چلنے کا کہا۔ یوں گھر سے اجازت لے کر اس نے پاسپورٹ بنوا کر شیخ کے حوالے کیا اور چند دنوں بعد وہ سعودی شہر ریاض میں بیٹھا بینر لکھ رہا تھا۔ جب کام کرتے ہوئے کافی سال گزر گئے تو
👇
سعودیہ میں رہنے سے ایک تو اس نے عربی زبان میں مہارت حاصل کرلی دوسرا تمام عربی خط اور رسم الخط میں وہ تقریباً کمال کے مدرجے تک جا پہنچا
اس کا کفیل اچھا آدمی تھااور اس پاکستانی خطاط کی بے پناہ عزت بھی کرتا تھا،وہ اپنے کفیل سےاجازت لےکر کئی بار عمرہ اور زیارتیں وغیرہ بھی کر آیا
👇
ایک دفعہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر نماز ادا کرتے ہوئے اس کے دل میں خواہش نے جنم لیا کہ کاش مجھے موقع ملے اور مسجد نبویﷺ کے اندر اپنے ہاتھ سے ایک تختی پر ایسی خطاطی کروں کہ دنیا حیران رہ جائے. یہ خواہش لے کر وہ وہاں سے ریاض آگیا، کام کاج کرتا رہا، وقت گزرتا رہا لیکن
👇 Image
خواہش برابر پروان چڑھتی رہی۔ایک بار اس نے کہیں سے سنا کہ مدینہ منورہ میں اعلان ہوا کہ دنیا بھر سے خطاط حضرات کو دعوت ہے کہ وہ ایک مقررہ تاریخ پر ایک مخصوص رسم الخط میں ایک مخصوص عبارت لکھ کر جمع کروائیں جو خطاط اس مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اسے
👇
مسجد نبویﷺ کا خطاط مقرر کیا جائے گا۔ اسے لگا جیسے اس کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا ہے، وہ وہاں گیا تو دیکھا وہاں دنیا بھر سے ایسے ایسے خطاط اپنا کام لے کر آئے تھے کہ ان سب کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ گیا اور اپنا کام پیش کرنے کی خواہش کی لیکن کسی نے بھی اسے
👇
سنجیدہ نہ لیا، نہ تو وہ معروف تھا اور نہ ہی اس کا کوئی کام ایسا تھا جو مشہور ہو، اور اوپر سے وہ کتابت کی جگہ سائن بورڈ اور بینر لکھنے والا اور پھر اہل زبان بھی نہیں، اور یوں اسے حصہ نہ لینے دیا گیا اور وہ مایوس ریاض لوٹ آیا۔ مقابلے کے اختتام کا وقت قریب تھا اور اس کی ایک بھی
👇
نہیں چل رہی تھی، تقریباً اس نے دل چھوڑ ہی دیا تھا کہ اس کی دکان پر ایک عربی آیا اس نے کہا مجھے فلاں سائز کی تختی خط ثلث میں چاہیے، اس نے لکھ دی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنے چند ریالوں میں اتنا بہترین کام تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو اور میرے لیے کام کرو وہاں
👇
معاوضہ دگنا ملے گا۔ اس لڑکے نے انکار کردیا تو وہ عربی کہنے لگا میں ایک دکان مدینہ منورہ میں کھولنا چاہ رہا ہوں اگر کوئی دوسرا خطاط ہوا تو بتانا۔ جب اس لڑکے نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو کہا مجھے لے چلو میں وہاں کام کروں گا۔ اسے ایک امید لگ گئی کہ شاید میرا وسیلہ بن جائے۔
یوں وہ
👇 Image
کسی نہ کسی طرح پہلے مہربان کفیل کو تقریباً ناراض ہی کرکے مدینہ منورہ چلا گیا۔ مقابلے کے اختتام کا وقت قریب تھا اور نئے کفیل کے ساتھ کام کاج بہت زیادہ تھا، دکان چھوڑ کر نکلنا بڑا مشکل تھا۔ نیا کفیل اس کے کام سے حد درجہ خوش تھا، اس جیسا کام تو سعودیہ میں کوئی دوسرا کرنے والا تھا
👇
ہی نہیں۔ کفیل تو یوں تھا جیسے اس کا مرید ہوگیا ہو، اسے بہترین کھانے کھلاتا، جب بھی ملتا تو ہاتھ اور ماتھا چومتا، غرض بڑی آؤ بھگت کرتا۔ اس نے ایک دن کفیل سے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں مسجد نبوی ﷺ میں خطاطی کے مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہوں میری کچھ مدد کردو۔ کفیل نے اس کی بات
👇
مان لی اور اپنے جاننے والوں سے کہہ کہلوا کر اسے کسی طرح اس مقابلے تک لے ہی گیا، بڑی مشکل سے اس کا نام رجسٹر ہوا اور اسے مقابلے کے لیے بطورِ نمونہ پہلے ایک عبارت لکھوائی گئی پھر اسے شریک کیا گیا۔ یوں اس کی لکھی ہوئی تختی اور وہ اس مقابلے میں شریک ہوگئے۔

مقابلہ ختم ہوا اور
👇
نتائج کے اعلان کا دن تھا، دنیا بھر سے ماہر اساتذہ کے درمیان اس کا کام کیا حیثیت رکھتا تھا، بہرحال مقابلے کے نتیجے کا اعلان ہوا اور خلاف توقع وہ دنیا بھر کے ماہر خطاطوں کو پچھاڑ کر اوّل انعام کا حقدار ٹھہرا، امام الحرم اور جیوری نے جب اس خطاط کا نام اور ملک پوچھا تو کہنے لگا:

👇
" شفیق الزمان، پاکستان سے"

پورے مجمعے پر خاموشی چھا گئی اور پورے عرب کے خطاط ایک دفعہ حیران رہ گئے کہ اجنبی نام اور غیر عرب کیسے اہل عرب سے جیت گیا، اور وہ شخص جیتا جسے مقابلے میں شریک ہی نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔یوں جناب محترم شفیق الزمان کی خوش نصیبی اور سعادت کہ کہاں ایک ImageImage
تختی لگانے کی خواہش اور کہاں در و دیوار منور کرنے کے لیے مسجد نبوی ﷺ کا خطاط مقرر کیا گیا۔ آہستہ آہستہ وہ وہاں کے تمام خطاطوں کے استاد بن گئے۔ آج سعودی عرب میں نصف صدی کے لگ بھگ عرصہ گزارنے کے بعد مسجد نبوی ﷺ کے در دیوار پر پچاسی فیصد کام شفیق الزماں کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے
👇 Image
حتیٰ کہ جس دروازے (باب سلام) سے داخل ہوکر اور جس مقام پر پہنچ کر سارا عالم اسلام روضۂ اقدسﷺ پر حاضری اور سلام کی سعادت حاصل کرتا ہے ان تمام جگہوں کو شفیق الزمان کے قلم اور برش نے مزین کررکھا ہے۔ ایک عجمی کا خطاط المسجد النبوی ﷺ پانا ایک معجزہ اور ایک سعادت سے کم نہیں۔
👇 Image
آج حرم مکی کے امام، حرم مدنی کے خطاط سے ملنے میں سعادت اور فخر سمجھتے ہیں اور حرمین الشریفین کے تمام خطاطی کے کاموں کے لئے شفیق الزمان سے مشاورت کی جاتی ہے۔

Copied
#نمود_عشق
#موناسکندر ImageImageImageImage
ImageImageImageImage

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with Moona Sikander

Moona Sikander Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Moona_sikander1

Apr 19
1/5
ایسے بنا تھا پاکستان ImageImage
2/5

ایسے ٹوٹا تھا پاکستان ImageImage
3/5
ایسے کھایا تھا پاکستان ImageImageImage
Read 6 tweets
Apr 18
اس کا نام صوفی تھا،اس کا تعلق فرانس سے تھا وہ ایک فرانسیسی عیسائی رضاکار خاتون تھی،وہ پچھلے چار سال سے افریقی ملک مالی میں باغیوں کی قید میں تھی.

اس کی رہائی کیلئے فرانس نے 10 ملین یورو خرچ کئے تھے،اسکی رہائی کے بدلے فرانس نے 200 باغیوں کو بھی رہا کر دیا۔۔۔
10 اکتوبر 2020،
👇 Image
وہ اب آزاد فضاؤں میں تھی،اسے لینے کیلئے فرانس نے خصوصی جہاز بھیج دیا تھا۔
فرانسیسی صدر خود استقبال کیلئے ائیرپورٹ پر موجود تھا
میڈیا کا لاؤ لشکر بھی ائیرپورٹ پہنچا ہوا تھا،فرانسیسی صدر والہانہ اور فاتحانہ انداز میں آگے بڑھا
اور صوفی کو خوش آمدید کہتے ہوئے گلے لگانا چاہا،
👇 Image
لیکن صوفی نے گلے لگنے سے انکار کر دیا،صوفی کا پہلا جملہ تھا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے، نماز کا وقت گزر رہا ہے،میں مسلمان ہوچکی ہوں،میرا نام اب مریم ہے۔۔۔فرانسیسی صدر کا تو بدن میں لہو نہیں،چونکہ چند دن پہلے ہی فرانسیسی صدر نے اسلام سے متعلق نفرت انگیز بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ
👇 Image
Read 5 tweets
Apr 18
پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اورپہلےصدر
( میجر جنرل )سکندر مرزا میر جعفر کے پڑپوتےتھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اسکندر مرزا 13نومبر 1899ء کو مرشد آباد بنگال میں پیدا ہوئے

قیام پاکستان کے بعد سکندر
👇 Image
مرزاحکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے

مئی 1954 میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے، پھر وزیر داخلہ بنے۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے

ملک غلام محمد کی صحت کی خرابی کی بنا پر 6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنرجنرل بن گئے۔
👇
آئین وجود میں آنے کے بعد 5 مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔

اور 23مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے اور گورنر جنرل کا عہدہ ھمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا

اکتوبر 1958 میں ملک کے سیاسی حالات بدتر ہوگئے۔ 7 اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا
👇
Read 11 tweets
Apr 16
ابولہب رسول اللہ ﷺ کا چچا تھا جو تا وقت وفات مشرک رہا۔ اس کا اصل نام عبد العزیٰ اور اس کی کنیت ابو عتبہ تھی۔ حسن اور چہرہ کی چمک کی وجہ سے عبد العزیٰ کی دوسری کنیت ابولہب ہو گئی تھی۔ آپ ﷺ کا حقیقی چچا تھا مگر حضور ﷺ کا سخت دشمن تھا
اس کی بیوی جمیل بنت حرب جو ابو سفیان
👇 Image
کی بہن تھی وہ شوہر سے بھی زیادہ حضور ﷺ کی دشمن تھی۔ رسول اللہ ﷺ کے نبی بنائے جانے کے بعد جب تک یہ دونوں میاں بیوی زندہ رہے انہوں نے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
آپ ﷺ کی دو بیٹیاں اس کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میں تھیں۔ جب آپؐ ﷺ نے
👇
اپنی نبوت کا اعلان کیا اور دعوت دینی شروع کی تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دیا کہ محمدؐ ﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دے دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان میں سے عتیبہ تو اتنا بدبخت تھا کہ اس نے حضورؐ ﷺ کی شان میں انتہائی گستاخی کی جس پر آپ کی زبان سے نکلا کہ اللہ اپنے کتوں میں سے
👇
Read 12 tweets
Apr 15
راستے میں دریا ہو تو منزل پر پہنچنے کے لیے کشتی ضروری ہے
لیکن کشتی میں سفر کا ایک اصول ہے
کشتی اور پانی کا تعلق کتنا ہی لازم ہو مگر پانی کشتی کے باہر ہی رہتا ہے
مسافر کو پانی کتنا ہی دلفریب، شفاف اور حسین لگے
اگر کشتی میں پانی بھرنا شروع کیا تو منزل پر پہنچنے سے پہلے
👇
کشتی ڈوب جائے گی

بس یہی دنیا اور انسان کا تعلق ہے

انسان کو اپنی منزل (جنت) تک پہنچنے کے لیے دنیا کا دریا پار کرنا ہی ہے
اللہ نے کشتی (زندگی) دی ہے مگر اس کشتی کو دریا (دنیا) سے پار کرتے ہوئے اسے کشتی کے اندر جمع نہیں کرنا، دنیا حرام نہیں ہے جیسا کہ دوسرے مذاہب کہتے ہیں
👇
(رہبانیت، سادھو، جوگی) لیکن دنیا کو اپنے اوپر حاوی بھی نہیں ہونے دینا ہے
ورنہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کشتی ڈوب جائے گی

اور دل تو ہے ہی بس اللہ کے لیے
دنیا بہت دلفریب ہے، وقتی طور پر دنیا انسان کو لبھاتی ہے، انسانی فطرت ہے مگر اسے پورے سفر پر حاوی کرکے اپنا سفر اکارت نہ کریں
👇 Image
Read 4 tweets
Apr 5
کچھ دن پہلے ایبٹ آباد میں ایک شخصیت 106 سال کی عمر میں وفات پا گئی
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ وہ کون سی شخصیت تھی جو گمنام رہی تو وہ شخصیت اس سید اکبر کی بیوی تھی جس نے 1951 میں ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کیا تھا. اس سید اکبر کو تو موقع
👇 Image
پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا
مگر اسکے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر الاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اُس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہیا کی گئی تھیں
اسکا بڑا بیٹا دلاور خان جو اُس وقت 8 سال کا تھا، آج بھی 85 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی
👇
بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے کیونکہ جو گھر اس کو اور اسکی ماں کو الاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور انکا بچپن وہاں گزرا
اِسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے انکی ماں نے شادی کر لی اور اسکے ہاں 5 بچے یعنی 4 بیٹے اور ایک بیٹی کی مزید پیدائش ہوئی،
👇
Read 10 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(