کل میرے والد کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 4 ماہ ہو چکے۔ آج عید ہے اور میں اپنے ابا کو بہت یاد کر رہی ہوں۔ لیکن جب میں ابا کو یاد کرتی ہوں، مجھے یہ تسلی ملتی ہے کہ میں ابا کو گلے لگا سکی, ان کو بتا سکی کہ میں ان سے کتنا پیار کرتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق ان کا خیال رکھ سکی۔ آپ کو
کبھی نہیں لگتا کہ جو وقت ملا وہ کافی ہے لیکن ان خاندانوں کی کیا تقلیف ہوگی جو آج بھی اپنے لاپتا پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں... وہ خاندان جنہیں اپنے پیاروں کی گمشدگی کے برسوں بعد مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔ وہ خاندان جو ہر عید پر اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے نئے کپڑے تیار کرتے ہیں.
وہ خاندان جو اپنے پیاروں کی بحفاظت بازیابی کے لیے پورے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں یہ جاننے کے لیے کہ کیا ان کے پیارے زندہ ہیں. اس سے بڑی اذیت کوئی نہیں۔ اس انتظار سے بڑا کوئی درد نہیں۔ آج لاپتہ افراد کے خاندانوں کو اپنی دعاؤں میں صرف یاد
نہ کریں بلکہ اپنا کردار ادا کریں اور ان کے لیے آواز بلند کریں۔
Thinking of the 1000s of families of the disappeared this Eid who will keep looking towards the door in anticipation that their loved ones may just walk in.
The only constant in their lives is waiting...for proof of life, for a dead body, for answers. #EndEnforcedDisappearances
Thinking of Rahat aunty & Sachal who have approached every forum for any information on Mudassar Naaru. #FindNaaruAlive
Thinking of Buss Khatoon, who despite old age and ailing health, has travelled far and wide to find out where her son, Rashid Hussain, is. #SaveRashidHussain
Thinking of Noor Bux and his family who have been waiting for the return of their 17 year old son, Feroz Baloch, who they sent to Arid Agriculture University Rawalpindi for a better future. He was last seen on 11 May 2022. #ReleaseFerozBaloch
یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بن رہا ہے۔ اور یہ جواب اُن سب کے لیے بھی جن کے لیے ریاستی جبر اپریل 2022 میں شروع ہوا ہے۔ میں سمجھ سکتی ہوں کہ پی ٹی آئی کے لیے اپریل 2022 میں جبر شروع ہوتا ہے جب ان کی حکومت کا
تختہ الٹ دیا گیا تھا (جیسا کہ سیاسی تاریخ بھی 2008 سے شروع ہوتی ہے اور آمر جنرل مُشرف کے تمام سیاسی سہارے اور آمر جنرل ایوب اور جنرل ضیا کی اوّل اولادیں پی ٹی آئی کا حصہ ہیں) لیکن براہِ کرم میری ٹائم لائن پر مجھے نہ بتائیں کہ کس چیز کی مذمت کرنی ہے، کیسے مذمت کرنی ہے اور کس کے
لیے آواز اٹھانی ہے۔ میں آپ سے بہت بہتر یہ جانتی ہوں کیونکہ پچھلے چار سال جب آپ فوج کے cheerleaders بن کر ان کے ہر ظلم کا دفاع کر رہے تھے تو مجھ جیسے لوگ اس جبر کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے۔ اس وقت آپ بوٹ پالش کرنے اور فوج کی طرف سے ہر زیادتی کا جواز پیش کرنے میں مصروف تھے۔ اب آپ
آصف غفور دراصل بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی نفری بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں. خواتین کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے بھاری پڑے گا صرف انہیں نہیں بلکہ ہم سب کو. جس طرح بنگلہ دیش میں جہاں ہماری فوج نے ریپ کو weapon of war کے طور پر استعمال کیا۔
ہمارا سر آج بھی اس war کرائم کی وجہ سے جھکا ہوا ہے۔
شہنشاہِ اعظم جناب جنرل غفور صاحب بلوچستان میں بلوچ خاتون ماہل کو گرفتار کرکے اور اس کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کر کے کونسا سٹریٹجک ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ جو کسی stage پر یا تو واپس لے لی جائے گی یا منسوخ کر دی جائے
گی۔۔ ہم نے یہ پہلے دیکھا ہے پرامن کارکنوں، طلباء، خواتین اور بزرگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے سے بلوچ عوام میں پاکستان کے خلاف مزید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اگر conflict میں شدت پیدا کرنا مقصد ہے جس کو بظاہر فوج حاصل کرنا چاہتی ہے، تو غفور صاحب کے بطور کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدہ کے تحت
بلوچستان کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ہمیں ریاست سے منظور شدہ پاکستان اسٹڈیز کی نصابی کتب کو discard کرنے کی ضرورت ہیں۔ ایک خوفناک تاریخ ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں۔ نوجوان نسل تاریخ سے بالکل ناواقف نظر آتی ہیں۔ بلوچستان کو کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا گیا، ہمارا تعلق ہمیشہ
سے قابض اور مقبوضہ کا رہا ہے۔ بلوچستان اسٹیٹس یونین (جو قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر مشتمل تھا) کا پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں ایک سفارت خانہ تھا۔ 11 اگست 1947 کو ایک اعلامیہ کے تحت، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ حکومت پاکستان نے قلات کو ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر
تسلیم کیا اور اس کے مطابق،پاکستان اور قلات کے درمیان ایک standstill معاہدہ ہوا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد علی جناح چند سال قبل خان آف قلات کے وکیل تھے اور بلوچستان کی آزادی کے لیے دلائل دیتے تھے۔پاکستان کے قیام کے بعد دسمبر 1947 میں legislature کے ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہوا
پچھلے کئی ماہ سے اپنی آنکھوں سے بلوچ طُلبا کو ریاستی جبر کا سامنا کرتے دیکھ رہی ہوں۔ ریاست بظاہر پالیسی کے تحت ایک کے بعد ایک بلوچ طالبعلم کو لاپتہ کرکے اُسکے پیچھے بچ جانے والے پورے خاندان کو اجتماعی سزا دے رہی ہے۔ سوچئیے اِس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہوگا کہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ
آپکا پیارا کہاں ہے اور کِس حالت میں ہے۔ بُدھ سے آج تک دو دن میں چار بلوچ طلبہ کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ بے حسی کی انتہا ہے کہ بلوچ طلبا جو مرضی کرلیں جِس مرضی دروازے پر دستک دیں اِنہیں کوئی ہمدردی سے سُننے اور سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک واحد اسلام آباد ہائیکورٹ تھی جہاں بلوچ طلبا
کو سُنا گیا اور اُنکے تحفظات کے ازالے کے لیے عدالت نے کمیشن قائم کرنے کا حُکم دیا لیکن اِس نئی حکومت نے اُس حُکمنامے کو بھی سُپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ بلوچ طُلبا کو آج بھی اسلام آباد میں یونیورسٹی کیمپس سے لے کر ہاسٹل اور رہائشی فلیٹس میں مُنظم طریقے سے ہراساں کیا جارہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ اسے دہراتے ہیں۔ خودساختہ عقلِ کُل، تکبر اور تعصب کے نتیجے میں ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے، ہم نے ان خصوصیات کو اپنی قومی شناخت بنا لیا ہے۔
بلوچستان کے علاقے گچک سے شاہ بی بی اور شہزادی کی گمشدگی پر کسی بھی مرکزی دھارے
کے میڈیا چینل یا سیاسی رہنما نے کوئی تبصرہ نہیں کیا (مذمت تو دور کی بات ہے میڈیا میں کسی نے رپورٹ تک نہیں کیا)۔ ایچ آر سی پی کی 2019 میں جاری کردہ رپورٹ کے مُطابق بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بالخصوص آواران اور ڈیرہ بگٹی میں۔اس وقت میڈیا بلیک آؤٹ تھا
اور اب بھی ہے۔
ہم جنگ اور تنازعات کے خواتین پر اثرات کے بارے میں خاموش ہے۔ آج ہم بلوچ خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بالکل ویسے ہی خاموش ہے جیسے دہایوں بعد بھی بنگلہ دیش میں خواتین کے خلاف جرائم کی ذمہٰ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔