#copied
میں دبئی میں ایک ائیر کنڈیشن فٹنگ اینڈ رئپیرنگ کمپنی میں ٹیکنیشن کا کام کرتا تھا۔ رات بارہ بجے قریبی ہسپتال سے کال آ گئی کہ مردہ خانے میں ٹھنڈک کا نظام رک گیا ہے جلد از جلد ٹھیک نہ کیا تو شدید گرمی کی وجہ سے لاشیں خراب ہو جائیں گی، میں نے ساتھ والے بندے کو کال کی تو اس نے
کال نہیں اٹھائی، میں نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے موبائل وین نکالی اور دئیے گئے پتے پر پہنچ گیا۔
وہاں جاکر چیک کیا تو پتہ چلا فیوز اڑ گیا ہوا تھا۔ جلدی جلدی فیوز بدلا اور مشینیں دوبارہ کولنگ کرنے لگ گئیں، لیکن وہاں موجود نگران نے کہا کہ پچھلے تین گھنٹے سے یہ نظام بند پڑا
تو تم باری باری سارے سرد خانے کھول کر چیک کر دو کہ آیا سب میں یکساں کولنگ ہو رہی یا نہیں، اب وہ یہ کہہ کر چلا گیا اور رات کے اس پہر لاشوں سے بھرے سرد خانے چیک کرتے ہوئے مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا،
خیر میں نے ایک ایک سرد خانہ کھول کر کولنگ کا نظام چیک کرنا شروع کیا، وہاں کچھ لاشیں
کافی پرانی بھی سٹور تھیں۔ جب میں نے پندرویں خانے کو کھولا تو اس میں ایک باریش بزرگ کی لاش تھی، انکا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ابھی سو رہے ہوں اور اٹھ کر بیٹھ جائیں گے، پتہ نہیں کیوں کسی نادیدہ طاقت نے مجھے انکے چہرے پر غور کرنے کو مجبور کر دیا، میں قریب ہوتے ہوتے بلکل لاش کے
چہرے کے اوپر پہنچ گیا، پھر اچانک وہ ہو گیا جس کا میں نے گمان بھی نہیں کیا تھا،
بزرگ نے آنکھیں کھولیں اور مجھے گریبان سے پکڑ لیا اور میری حالت تو ایسی تھی کہ چھوو تو جان نہیں کاٹو تو لہو نہیں پھر انہوں
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
فجا میراثی بیمار ہو گیا۔ گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے بہت زیادہ فیس مانگی بڑی منتیں کرنے پر بھی ڈاکٹر نے اسے رعایت نہ دی اور پورے پیسے لئے
جب وہ صحت یاب ہوگیا تو ڈاکٹر کی زیادتی پر فجے کو بہت زیادہ غصہ آیا اس نے ڈاکٹر کا ایک جھوٹا قصہ بنایا اور گاؤں کی چوپال میں سنانے لگ گیا
فجا میراثی کہنے لگا کہ جب میں بیمار ہوا تھا اور ڈاکٹر بشیر سے علاج کروا رہا تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور مر کر اوپر پہنچ گیا ہوں ، وہاں بہت سے لوگ جو اس دن فوت ہوئے تھے پہنچے ہوئے تھے ۔ وہاں پر جنتیوں اور دوزخیوں کے ناموں کی لسٹ لگی ہوئی تھی لوگ
اپنا نام پڑھ پڑھ کر جنت اور دوزخ میں جا رہے تھے ، میں بھی لسٹ کی طرف گیا ، مجھے پتہ تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی نیک کام نہیں کیااس لیے میں نے دوزخ والی لسٹ میں اپنا نام تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے اپنا نام فجا میراثی کہیں بھی نظر نہ آیا ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں دوزخی نہیں ہوں
پاکستان کو اپنی ہر مالیت کی کرنسی تبدیل کر دینی چاہیے مطلب نوٹ کی شکل وصورت سب تبدیل کردینا چاہیے
جس طرح انڈیا نے اپنی کرنسی تبدیل کی تھی
جو کرنسی تبدیل کرنےآئے اس شحص کو نقد دینے کی بجائے اسکا اسی وقت بنک میں اکاونٹ کھولا جائے اور رقم بنک میں رکھی جائے
ساتھ ہیFBR میں اسی وقت
رجسٹرڈ کیا جائے فائلر بنایا جائے جو شحص اپنے زرائع آمدن نہ بتائے اس پر جرمانہ کیا جائے
یقین کریں پاکستان کے بنکوں میں روپوں کے انبار لگ جائیں گے اور تمام لوگ فائلر بھی ہوجائیں گے
پاکستان کی توقع سے بھی زیادہ ریونیو اکٹھا ہوگا لوگوں نے کروڑوں اربوں روپیہ گھروں میں رکھا ہوا ہے
اگر ملک کو درست حالت میں لانا ہے تو پھر یہ کام بھی کرنا ہوگا
یاد رہے انڈیا نے جب کرنسی تبدیل کی تھی تو انڈیا کا سارا بلیک منی کا پیسہ بوریوں سے نکل کر حکومت کے پاس خود چل کر آ گیا تھا،اور اگر ایسا ھوا تو
کراچی سے اسلام آباد پہنچا تو ائرپورٹ کے اندر ہی ایک ٹیکسی والے باریش نوجوان نےمجھ سے کہا آئیے سر میں چھوڑ دیتا ہوں۔ اسکا اندازاتنا مہذب تھا کہ میں نے کرایہ بھی طے نہیں کیا اور اسکےساتھ چل پڑا۔اسکی ٹیکسی گیٹ سے بہت دورکھڑی ہوئی تھی جب میں کم و بیش چارسو میٹر پیدل چل کر اسکی ٹیکسی
تک پہنچا تو دیکھا ٹیکسی انیس سو اٹھتر ماڈل کی ہے مجھے اینٹیکس پسند ہیں لیکن جیسے ہی میں گاڑی میں بیٹھا گاڑی سے اُٹھتی انتہائی ناگوار بُوکے بھبکوں کےباعث میرا سانس لینا مُشکل ہوگیا
شاید ٹیکسی میں بکریاں لادکرکوئی لمبا سفرکیا گیا تھا میں نے جیب سے دو سو روپےنکال کر ڈرائیور کو دیے
اور کہا میں آپ سے معذرت چاہتا ہُوں مجھے گاڑی بدلنی ہو گی آپ دوسری سواری ڈھونڈ لیں
وہ صاحب غصے میں آگئے اور وجہ پُوچھی تو میں نے کہا آپ کو گاڑی اندر سے دھلوانی ہوگی میں حیران ہُوں آپ اتنی بدبُو میں سارا دن اس گاڑی میں کیسےگزار لیتے ہیں
وہ غصے سے بولے قبر میں اس سے زیادہ بدبو ہوگی
کسی گاؤں میں ایک پہلوان رہتاتھا۔اپنے علاقے کا بہت مشہور اور جانا مانا۔اسکی ایک ہی بیٹی تھی۔۔بہت لاڈ اور پیار سے پالی۔۔خوبصورت اور نازک سی۔۔۔بیٹی جوان ہوئی تو اسکی شادی کی فکر ہوئی
چونکہ پہلوان تھا۔۔۔اسلیئے بیٹی کے لیئے ایک پہلوان ہی پسند آیا۔۔اونچا لمبا تنے ہوئے بدن کا
مالک۔۔گھنی موچھوں والا۔گھبرو۔۔۔زمیندار۔
نازو پلی بیٹی وداع کردی
چھے ماہ بھی ناگزرے تھے کہ پہلوان داماد نے بیٹی کومار پیٹ کر نکال دیا۔۔۔کہ گھر کا کوئی کام نہیں آتا اسے۔۔۔
باپ کادل بہت رنجیدہ ہوا۔۔۔مگر کسی کوکچھ نا کہا۔۔۔کہ فضول میں تماشا بنے گا۔۔۔۔۔بیوی سے کہا کہ اسے ہر چیز سکھاو
جو گھرداری کے لیئے ضروری ہوتی۔۔۔ماں نے بیٹی کو جھاڑو پوچا۔۔۔کھاناپکانا۔۔۔سب سیکھیا۔۔چند ماہ بعد صلح صفائی ہوئی۔۔۔داماد کو بلایا۔۔۔معافی مانگی کہ شرمندہ ہیں لاڈ پیار میں گھرداری ناسیکھائی۔۔۔
چھے ماہ ناگزرے۔۔۔بیٹی پھر مار کھاکر میکے واپس اگئی۔۔۔کہ کوئی سیناپرونا نہیں آتا۔۔۔۔پھر
اجے منوت اورنگ آباد، بھارت کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا بچپن اور جوانی شدید مشکلات اور محنت سے گزارا. مہاراشٹر آیا،کپڑے اور گندم کا کاروبار شروع کیا اور اپنی محنت سے کروڑ پتی بن گیا.اجے نے اپنی بیٹی شریا منوت
کی شادی کے لیے کروڑ روپے جمع کیے لیکن اس نے اپنی بیٹی کا جہیز نہیں بنایا، کپڑے جوتے اور زیورات نہیں بنائے، داماد کو نئی گاڑی لے کر نہیں دی
اس نے اپنی بیوی، بیٹی اور داماد سے مشورہ کیا دو ایکڑ زمین خریدی اور اس پر چھوٹے چھوٹے 90 گھر بنوا دئیے. پھر یہ گھر جھونپڑیوں میں رہنے والوں
میں تقسیم کر دئیے. ہر گھر 12x20 فٹ کا ہے، اس میں کچن بھی ہے، بجلی بھی ہے اور پینے کا صاف پانی بھی. گھر بانٹتے ہوئے اجے منوت کی فیملی نے خود کچی آبادیوں کا رخ کیا اور مستحق خاندانوں میں ہی گھر بانٹے گئے، یہ بھی خیال رکھا گیا کہ کوئی چرسی شرابی یا جرائم پیشہ یہ گھر نہ لے سکے