2016 یا 17 کا واقعہ ہے کہ ماں بیٹی لاہور سے لندن جانے کے لیے PIA کے بوئنگ 777 میں داخل ہوئیں اور بزنس کلاس کا رخ کیا۔ بزنس کلاس میں پہلے سے تین یا چار آ چُکے تھے۔ بیٹی نے عملے سے کہا کہ ان کو پیچھے بھیج دیں۔ عملے نے کہا کہ ان سب کا بزنس کلاس کا ٹکٹ ہے۔ ⏬
اس پر ماں بیٹی نے کہا کہ یہ ہماری ائیر لائن ہے۔ ان کو اُتاریں یا پیچھے بھیجیں۔ بات پائیلٹ تک پہنچی تو اس نے آ کر عملے کی تائید کی۔ ماں بیٹی شدید غصے میں آ گئیں اور پائیلٹ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔۔ لیکن وہ مردِ مومن بھی ڈٹ گیا اور جہاز اُڑانے سے انکار کر دیا ۔۔ فلائیٹ ⏬
ساڑھے تین گھنٹے لیٹ ہوئی۔ ماں بیٹی اُتر گئیں کہ عام لوگوں کے ساتھ سفر مشکل تھا۔ بعد میں پائیلٹ کو سسپینڈ کر دیا گیا تھا۔ واللہ عالم وہ بعد میں بحال ہوا یا کسی اور اچھی ائیر لائن میں چلا گیا۔۔۔
مجھے یہ واقعہ ویسے ہی یاد آ گیا۔ اُس وقت PIA ان کی تھی۔ آج تمام ادارے ان کے ہیں۔ ⏬
آج تمام ادارے ان کے ہیں۔ آپ کی اور میری جان بھی ان کا ہے۔ پاکستان بھی ان کا ہے ۔ ہماری عزتیں بھی ان کی ہیں۔
اور جو بڑے "اُن" ہیں وہ کہتے ہیں کہ!
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ تقسیم ہند پر تحریر کریں حالانکہ اس پر ایک سے زیادہ بار بڑی ہی تفصیل سے لکھ چکی ہوں ۔
آج مختصر بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔
قائدِ اعظم کبھی بھی تقسیم ہند کے حامی نہیں تھے وہ تو جب مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کی صدارت سے ہٹے اور⏬
پنڈت جواہر لعل نہرو نئے صدر بنے تو انگریز نے ان سے تقسیم ہند کا بیان دلوا دیا جس کے بعد صورتحال ایسی بنی کہ قائدِ اعظم کو بھی فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی۔
ان حالات کو سمجھنے کے لیے کسی زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ صرف کابینہ مشن پلان ہی پڑھ لیں تو سمجھ آ جائے گی۔⏬
وائسرائے ہند کی درخواست پر برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے مارچ 1946 میں اپنی کابینہ کے تین وزرا پیتھک لارنس، اسٹیفرڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر کو ہندوستان بھیجا۔ وفد کے ارکان کا تعلق برطانوی کابینہ سے ہونے کی وجہ سے اسے کابینہ مشن کہا گیا۔
یہ منصوبہ تھا کیا؟
⏬
ذرا آنکھیں کھول لیجیئے!!
پردے پیچھے کھیل کے اندر کھیل جاری یہ پوسٹر بھی عوام کو الو بنانے کے لیے دونوں ملکوں کا ڈرامہ ہے. قوم کوُبتایا گیا تھا 15مئی کو راء کاروائی کرے گی لیکن پوری قوم کو خان کی گرفتاری گھر سے باہر آج ہی اسلام آباد لانے کی بتی پیچھے لگا کر ⏬
پردے پیچھے پاکستان کے ملٹری کے اہم لوگ امارات لائین سے بلاول سے پہلے انڈیا پہنچے تھے کل شام گوا کے ہوٹل میں پارٹی میں نشے میں ڈانس کرتے پائے گے (فوٹو جلد ا رہی ہیں )اسی راء کے ساتھ مل کر یوکرائن اسلحہ کی ڈیل میں انڈیا کو ڈبل کوٹہ دیا جارہا ہے کشمیر پر بات ہو رہی ہے بلاول کے⏬
وزیراعظم بنانے کے لیے انڈیا کی منظوری لی جائے گی۔ امریکہ پوری طرح پاکستان کی آرمی کو کنٹرول کر رہا ہے دوسری بات جب انڈیا والے نہیں چاہتے پاکستان کا منسٹر آئے تو پھر پاکستان کو کیا اتنی پڑی تھی وہ منسٹر بھیج دیا ہے اگر ایہی کانفرنس پاکستان میں ہوتی کیا انڈیا آتا ؟ کبھی نہ اتا⏬
اگر کبھی ویسٹرن سوسائٹی نے سوچنے کی حد سے آگے بڑھ کر پوچھنا شروع کر دیا کہ ان کے ہاں ہونے والی دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کا محرک اسلام یا کسی بھی مخصوص خطے کی انتہا پسندی نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ امریکہ اور جی سیون جیسے ممالک کی دوسرے مذاہب اور ممالک کے ⏬
نظریات کی توہین اور بزور طاقت مداخلت ہے اور اگر اس کا روک تھام ہو جائے تو نہ فرانس، امریکا، بلجیم، جرمنی اور برطانیہ جیسے معاشروں میں انتہا پسندی پروان چڑھے گی اور نہ ہی ان کے ہاں دہشت گردی کے واقعات جنم لیں گے۔ نہ عراق سے لیبیا،تیونس،یمن اور افغانستان تک‘ بھیانک خونریزی دیکھنے⏬
کو ملے گی۔
اور نہ ہی دنیا کا امن و امان دائو پر لگا رہے گا۔
اگر امریکا سمیت ترقی یافتہ مغربی ممالک کے طریقہ کارا ور ایک درجن سے زائد تھنک ٹینکس کی جاری کردہ رپورٹس کی جانب دیکھیں تو پھر ان شبہات کا سر اٹھانا لازمی ہے کہ مغرب اور امریکا سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں اور خود ⏬
دوستو!
ابھی ایک ٹویٹ نظر سے گزری لکھتے ہیں کہ!
پاکستان نہ نور ہے اور نہ خدا کے رازوں میں سے کوئی راز ہے۔ یہ لاقانونیت، بدانتظامی، کرپشن، منہ زور اداروں، بیروزگاری، بھیک اور قرض کے عذاب میں مبتلا دنیا کا ایک خطہ ہے۔ ہماری بربادی میں ان روحانی پیشن گوئیوں اور جملے بازیوں نے⏬
اہم کردار ادا کیا ھے۔
میں نے سوچا کہ کچھ ایڈ کر دوں۔
اگر ان پیش گویوں کو مان بھی لوں تو!
خدا کے ملک سے ہم ان ممالک کے ویزے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں جو خدا کے ملک نہیں اور کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ جس ملک کو خدا نے بنایا اور خدا چلا رہا ہے وہ ان ملکوں سے کہیں ابتر چل رہا ہے⏬
جسے خدا کے بندے چلا رہے ہیں۔
اپنے آس پاس نظر دوڑائیے آپ کو اگر کسی ایک جگہ بھی زوال نظر نہ آئے تو مجھے بتائیے کہ اگر یہ نور ہے جس کو زوال نہیں تو۔ اور زوال کیا ہوتا ہے جناب؟
ویسے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کو خدا چلا رہا ہے دو یا تین جملوں کے بعد یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ⏬
کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے کہ لوگ اب بھی اس تعداد میں آواز بلند نہیں کرتے جو تعداد جرنیلوں کی شکست کا باعث بنے۔
خاموشی بہتر ہے۔ بولنے سے کیا ہو گا، بولو گے، گولی کھاؤگے، مرو گے یا ہو سکتا ہے بچ جاؤ۔ مرگئے تو پِھر بھی آسانی ہے۔ ایک کالم کی خبر بنو گے، ٹی وی پر ڈیڑھ لائن⏬
کا ٹِکر چلے گا۔ فیس بک پر فاتحہ پڑھی جائے گی، ٹوئٹر والے ہیرو کہیں گے۔
کوئی جوانی کی تصویر ڈھونڈ کر لگائے گا، کوئی آپ سے آخری ملاقات کا حال سُنائے گا۔ کہے گا کیا بہادر آدمی تھا، اِس ملک کے پسے ہوئے طبقوں کی آخری امید تھا۔ پھر اِس آخری امید کو نہلا کر کفن پہنائیں گے، مٹی کے نیچے⏬
دبائیں گے پھر گھر آ کر کہیں گے کیا ضرورت پڑی تھی بات کرنے کی۔ باقی سب بھی تو خاموش ہیں تو کیا اُن کے سینوں میں دل نہیں ہے اور بات کرنی ہی تھی تو بات کرنے کے اور بھی تو سو طریقے ہو سکتے ہیں۔
تو اِسی لیے سب جانتے ہیں کہ خاموشی بہتر ہے۔ کیونکہ بولو گے تو گولی کھاؤ گے۔⏬
پیارے پاکستانیوں!
آج صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے پر کیا موجودہ نظام حکومت میں ہمیں کسی بھی چیز کا کوئی عالمی دن منانا چاہئے؟
خیر چھوڑیں!
صحافت، صحافت ہوتی ہے مثبت یا منفی نہیں، پیلی یا نیلی نہیں ہوتی۔ خبر وہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہو اور پابندی چاہے سنسر شپ کی شکل ⏬
میں، حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے ہوتی ہے۔
پاکستان میں نریندر مودی ماڈل فالو ہورہا ہے۔ جو چینلز اینکر پسند نہیں چینل بند یا اینکر کی چھٹی۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، جن صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں اور جمہوریت کے حامی ہیں، ان کے خلاف⏬
مہم چلائی جاتی ہے۔
انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ہی مسلسل خطرے میں قرار دی جاتی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کی وبا صحافت کی جان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔⏬