اسحاق ڈار و حکومت کی strategy سے لگ رہا ہے کہ یہ IMF سے معاہدہ نہیں کرنے جا رہے، بیرون ملک سے آنے والے ڈالرز (ایکسپورٹس+ترسیلات زر) کی بچت ہو رہی ہے
وہ ایسے کہ فرض کریں اگر ماہانہ 4ارب ڈالر کی imports تھیں، اور بیرون ملک سے بھی 4ارب ڈالر آ رہے تھے تو بچت صفر تھی۔۔۔۔۔
حکومت نے imports پر مزید پابندیاں لگا کر 4ارب ڈالر imports کو 3ارب ڈالر تک کیا ہے، ایسے ماہانہ ڈالرز بچائے جا رہے ہیں، مارچ میں 65کروڑ ڈالر سے زائد کا surplus ایسے ہی مصنوعی طریقے سے لایا گیا تھا
حکومت یہ کر کیوں رہی ہے؟؟؟
پاکستان نے جون میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں، IMF سے پیسے نہ ملے تو یہ ادائیگیاں نہیں ہو سکیں گی، حکومت نے سوچا کہ imports پر پابندیاں لگا کر ڈالرز بچاؤ۔ جون تک جو ڈالر بچیں اس سے بیرونی ادائیگیاں کریں، تاکہ IMF کی ضرورت نہ پڑے
لگ رہا ہے کہ حکومت اس مصنوعی بچت اسکیم سے IMF کو avoid کرے گی اور جون میں ’’عوام دوست‘‘ بجٹ پیش کرے گی، جون کے بعد حکومت نے صرف جولائی گزارنا ہے، 12 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی
قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نگران حکومت جانے اور الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت جانے
ن لیگ نے 2018میں بھی یہی حرکت کی تھی، ری امیجنگ پاکستان کے روحِ رواں ’’مفتاح اسماعیل‘‘ نے اپریل 2018میں الیکشن بجٹ دیا، جولائی انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی اگست 2018 میں حکومت بنی، ستمبر 2018میں نیا بجٹ دینا پڑا
آئی ایم ایف کا 9واں ریویو نومبر 2022میں ہونا تھا، 10واں ریویو فروری 2023 میں ہونا تھا، 11ویں ریویو کا ٹائم 2مئی 2023 سے شروع ہو رہا تھا، جون 2023 میں پروگرام مکمل ہونا تھا
آج 7مئی ہے اور ہم 9واں ریویو ہی مکمل نہیں کر سکے
ریاست بچانے کا دعویٰ کرنے والے ریاست تباہ کرنے جا رہے ہیں، یہ اپنے آخری 2 ماہ گزارنے کے چکر میں ہیں، ان 2ماہ میں عوام کو سب اچھا دکھانے کی کوشش ہو گی، نواز شریف عوام دوست بجٹ دینے کا کہہ چکا ہے
کیا موجودہ مشکل معاشی حالات میں ہم عیاشیوں کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
لگتا ہے کہ حکومت چاہتی ہے پاکستان اگلے الیکشن سے پہلے نگران حکومت کے دور میں یا اگلے الیکشن کے فوراً بعد ڈیفالٹ ہو، اعظم تارڑ نے کچھ دن پہلے کہا تھا ’یہ نہ ہو کہ نگران حکومت کے دور میں معاشی دھماکہ ہو جائے‘
نگران حکومت میں ڈیفالٹ ہوا تو شاید اکتوبر الیکشن بھی کھٹائی میں پڑ جائیں
الیکشن کے فوری بعد پاکستان ڈیفالٹ ہوا تو معاشی حالات بدترین ہوں گے، تحریک انصاف کی حکومت ہوئی تو بیانیہ بنایا جائے گا ہم سال ڈیڑھ سال ڈیفالٹ نہیں ہونے دیا، تحریک انصاف نے ڈیفالٹ کر دیا، ان بدترین معاشی حالات میں حکومت کیخلاف مہم چلانا بھی آسان ہو گا
حکومت IMF سے ڈیل نہ کر کے، imports پر پابندیاں لگا کر اپنے آخری دو ماہ تو گزار لے گی، اس کے بعد ملک کے ساتھ جو ہو گا، وہ بہت خطرناک اور بھیانک ہے
حکومت کے وعدے پورے نہ کرنے پر آئندہ IMF بھی شاید ہی پاکستان پر اعتماد کرے، دوست ممالک کا بھی یہی حال ہونا ہے
یاد رکھیں،، اگلے الیکشن کے فوری بعد IMF سے ایک نیا معاہدہ کرنے کی ضرورت پڑے گی، معاشی ماہرین یہ بات کئی بار بتا چکے ہیں
موجودہ حکومت پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے پر چھوڑ کر جائے گی، بلکہ کاغذوں میں ایک قسم کا ڈیفالٹ ہی کر کے روانہ ہوں گے
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
طاقتوروں اور موجودہ حکومت نے اینٹی کرپشن پنجاب کا بے دریغ استعمال کیا ہے، سہیل ظفر چٹھہ کی قیادت میں اینٹی کرپشن نے ڈھائی تین ماہ میں پی ٹی آئی کے درجنوں سابق ارکانِ اسمبلی کو نوٹس جاری کیے
اس تھریڈ میں ہم میڈیا پر رپورٹ ہونے والے نوٹسز کا ذکر کریں گے
سب سے پہلے بات سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ کی، پرویز الہیٰ کیخلاف سورس رپورٹ پر مقدمہ درج ہوا، کیس میں ضمانت ملنے کے باوجود دروازہ توڑا گیا، چادر چار دیواری کا تقدس پامال ہوا
سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل اور سابق وفاقی وزیر عامر کیانی کو نوٹس جاری ہوئے
ہمیں بچپن سے رٹا لگوا دیا جاتا ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ ہم نے اپنے فوجی، پولیس والے، سیاست دان، حتی کہ سبز کوٹوں میں اے پی ایس پڑھنے گئے ہوئے بچے بھی شہید کروائے ہیں۔
قوم کی نبض پر پاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس قوم کو ان شہادتوں کی وجہ سے کتنی حیات ملی ہے؟
شہید کی موت اور قوم کی حیات کے بعد ہم تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
بینظیر بھٹو سے زیادہ سج دھج کے مقتل میں کون گیا تھا؟ ان کے بعد ان کی سیاست کتنی سلامت ہے ؟
میں نے کراچی میں دو شہادتیں قریب سے دیکھی ہیں۔ ایک پروین رحمان کی جو کراچی کے گوٹھوں کے نقشے بنا کر ان کا مستقبل محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ ان کی شہادت کے بعد کراچی میں جو انقلاب آیا اس کا نام بحریہ ٹاون اور DHA سٹی ہے
’قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹو نے ’پاکستان‘ کی تباہی کی بنیاد رکھی !!!
60کی دہائی تک پاکستان میں صنعت فروغ پا رہی تھی۔ اصفہانی، آدم جی، سہگل، جعفر برادرز، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا
دنیا پاکستان کو صنعت کی جنت کہا کرتی تھی، ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بن جائے گا۔
یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے، بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے
ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا، رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم کے خواب نے پوری کر دی۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’ چھینو مل لٹیروں سے ‘‘ چنانچہ ایک دن ’’قائد عوام‘‘ بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا
آرٹیکل 232میں لکھا ہے کہ 1) صدر خود مطمئن ہوں کہ پاکستان کو اندرونی یا بیرونی خطرہ اور قابو پانا حکومت کے بس سے باہر ہے تو ہنگامی حالت کا اعلان کر سکتا، اس صورت میں صوبائی اسمبلی کی قرار داد درکار ہو گی
2) صدر کے اعلان کے بعد مجلس شوری (سینیٹ+قومی اسمبلی) سے منظوری لینا ہو گی
قومی اسمبلی کی مدت کیسے بڑھ سکتی ہے؟
جواب آرٹیکل 232 کے سیکشن 6 میں
اگر ہنگامی حالت یا Emergency کا اعلان ہو چکا ہو گا تو ہی قومی اسمبلی میعاد میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کی توسیع ہو سکے گی
جسٹس یحییٰ آفریدی ، کیس عوامی مفاد سے متعلق نہیں
جسٹس جمال مندوخیل ، کیس عوامی مفاد سے متعلق نہیں، پہلے ہائیکورٹ فیصلہ کرے
جسٹس محمد علی مظہر، الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس اعجاز الاحسن، 90 روز میں الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس منیب اختر، الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، 90 روز میں الیکشن آئین کے مطابق
جسٹس اطہر من اللہ، اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل ہوئیں یا نہیں؟ یہ جائزہ لیں
جسٹس امین الدین خان، 184/3 والے کیسز کی سماعت روک دیں