١٩٩٠ میں نائجیریا کے ایک معلم بھا محمد ابا نے اللہ کی مخلوق کو آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش میں ہزاروں سال پرانا ایک ایسا حیرت انگیز کم خرچ ریفریجریٹر دوبارہ سے تیار کر لیا جس سے پھل اور سبزیاں پندرہ سے بیس دن بغیر بجلی کے محفوظ رکھ سکتے ہیں
👇
بھا محمد ابا نے اپنے ذاتی وسائل سے پانچ ہزار ایسے ریفریجریٹر
بنا کر مفت تقسیم کئے جنہیں زیر پوٹ کہا جاتا ہے
٢٠٠١ میں ان کی اس شاندار دریافت کو ایک لاکھ ڈالر کا رولیکس ایوارڈ سے نوازا گیا اب تک افریقہ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں لاکھوں زیر پوٹ ریفریجریٹر تیار کئے جاچکے ہیں
👇
اس آسان ترین ریفریجریٹر میں پھل اور سبزیاں پندرہ سے بیس دن محفوظ رہ سکتے ہیں آپ بھی بآسانی اپنے لئیے اورگینک ریفریجریٹر گھر میں بنا سکتے ہیں
اس کے لئیے یہ سامان درکار ہے
"دو مٹی کے گملے اور کچھ ریت کاٹن یا جوٹ کا کپڑا"
گملوں میں ایک کا سائز بڑا ہو گا دوسرا اس سے دو انچ چھوٹا
👇
مثلاً بڑا گملا اٹھارہ انچ گول اور اٹھارہ انچ اونچا ہے تو دوسرا سولہ انچ گول، سولہ انچ اونچا ہوگا سائز کوئی بھی لیا جاسکتا ہے
بڑے سائز کے گملے میں نیچے دو انچ ریت بچھا دیں اس کے اوپر چھوٹا گملا رکھ دیں اطراف کی خالی جگہ میں بھی ریت بھر دیں
اور اس ریت میں پانی ڈال کر اتنا گیلا
👇
کر لیں کہ پانی باہر نہ بہہ جائے اوپر کوئی کاٹن کا، جوٹ کا کپڑا جس کی بوری بنتی ہے گیلا کر کے ڈال دیں
لیجیئے دنیا کا سب سے سستا ریفریجریٹر تیار ہے جس کی لاگت بمشکل تین سو روپے آئے گی
اب اس میں سبزیاں، پھل، پانی کی بوتل، رکھ کر گیلا کپڑے سے ڈھک کر کسی کھلی ہوادار جگہ رکھ دیں
👇
ہر روز گملے کے اطراف والی ریت اور اوپر ڈالے کپڑے کو گیلا کرنا ہوگا
ایک عام سویلین کا ذہین ترین بچہ ایف ایس سی تک ہر گریڈ میں ٹاپو ٹاپ آتا ہوا ڈاکٹر یا انجینئر بنتا ہے؛ تھوڑا مارجن رہ جائے تو بعد میں سی ایس ایس کرتا ہے یا ایم بی اے اور آئی ٹی میں جاتا ہے جو سب سے نالائق ہوتا ہے وہ وکیل بنتا ہے اور سب سے کند ذہن کو
👇
مدرسے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ دنیا میں تو اس نے کیا ہی کرنا ہے، حفظ کرکے ماں باپ کو جنت میں لے جائے گا۔
ایک فوجی آفیسر کا ذہین ترین بچہ ہارورڈ، این وائے یو یا وارٹن میں جاتا ہے؛ درمیانے گریڈز کا یونیورسٹی آف مشی گن یا اوہائیو اسٹیٹ جاتا ہے اور سب سے نکمے کو کوئی کرنل انکل
👇
آئی ایس ایس بی سے پاس کروا کر فوجی افسر بنا دیتا ہے۔
پھر یہ سویلین نالائق جج بنتے ہیں؛ نکمے فوجی افسر ملک کے ٹھیکیدار بنتے ہیں اور کند ذہن مولوی کو استعمال کرکے مذہب اور حب الوطنی کا سودا بیچتے ہوئے پورے ملک کی واٹ لگا دیتے ہیں؛ کبھی اسلام آباد بند کرتے ہیں اور انعام میں
👇
ایک گاؤں والوں کے پاس ایک ہی گائے تھی جس کے دودھ پر پورے گاؤں کا گزارہ چل رہا تھا ایک دن گائے نے ٹنکی میں سر پھنسا دیا اب ٹنکی بھی ایک تھی
لوگ پریشان ہوئے کہ گائیں کو بچاتے ہیں تو ٹنکی توڑنی پڑے گی اور ٹنکی کو بچاتے ہیں تو گائے کا سر کاٹنا پڑے گا
ساتھ والے گاؤں میں ایک شخص
👇
کی عقل مندی کےچرچے تھے فیصلہ ہوا کہ اسے بلایا جائے
اسے لانےکیلئے خصوصی گھوڑا بھیجا گیا وہ شخص گھوڑے پر سوار ہو کر آیا
اس نے گاؤں والوں کو مشورہ دیا کہ گائے کا سر کاٹ دیا جائے سر کاٹ دیا گیا لیکن سر ٹنکی کے اندرگرگیا
اب ٹنکی سےسر کیسےنکالا جائے؟
اس نے مشورہ دیا
ٹنکی توڑ دی جائے
👇
گائے بھی ذبح ہوچکی تھی اور ٹنکی بھی ٹوٹ چکی ہے
وہ عقل مند صاحب تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے روئے جا رہے تھے
لوگوں نے اسے حوصلہ دیا کہ
آپ پشیمان نہ ہوں، کوئی بات نہیں، خیر ہے
گاؤں کے ایک بندے نے ہمت کرکے پوچھ لیا کہ
ویسے آپ رو کیوں رہے ہیں؟
عقل مند صاحب نے جواب دیا
میں رو اس لیے رہا
👇
میرا اعتراض بلوچی بزرگ پر نہیں ہے اور نہ ہی ہم ان کی مقبولیت سے خائف ہیں ۔ میرا اعتراض اس قوم پر ہے ۔ سادہ سا باریش اور معمر شخص قادر بخش مری صرف اپنے حلیے اور ہیئت سے مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنا مرید بنا گیا ۔ کچھ تو جذبات میں اس قدر بہہ گئے کہ مشابہت صحابہ سے کردی ۔
👇
بعض جوشیلوں نے سیدھا سیدھا حضرت ابو بکر صدیق سے ملا دیا
ایک نو سیکنڈ کی ویڈیو اس قوم میں ایک اجنبی شخص سے اس قدر عقیدت بھر دیتی ہے کہ وہ جوق در جوق اس کی جھونپڑی میں جا پہنچتے ہیں ، ہاوسنگ سوسائیٹی میں پلاٹ نام کردیتے ہیں ، جاوید آفریدی حج کے مفت پیکج کا اعلان کرتا ہے ،
👇
حب کی ایک جھونپڑی بوسہ گاہ خلائق بن جاتی ہے ٹی وی اور یو ٹیوب چینلز انٹرویو کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔۔۔۔تو سوچیے
سوچیے !
جب دجال کا ظہور ہوگا ۔۔۔ تو ہم اس کے حلیے اور ہیئت سے متاثر نہ ہوں گے ؟ جو دنیا بھر کے شعبدے لے کر مشرق سے نکلے گا بارش برسائے گا ، صحرا گلستان میں بدلے گا
👇
1974 کی لاہور اسلامی سربراہی کانفرنس جس کے تمام کلیدی رہنما قتل کر دیے گئے
اگلے چند سالوں میں دنیا بھر میں ٹی وی سکرینز اور اخباری سرخیاں ان کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے بھری جانے والی تھیں کیونکہ عالمی استعمار جسے 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اپنے ترانے 'ہم مصطفوی ہیں'
👇
میں 'استعمار ہے باطلِ ارذل' کہہ کر للکارا تھا، ان سربراہوں کو نشانِ عبرت بنانے پر تلا تھا
22 فروری 1974 کو لاہور شہر میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) یا تنظیم تعاون اسلامی کا سربراہی اجلاس ہوا جو کہ کرۂ ارض پر مسلم ممالک کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے
👇
عروج کا دور تھا۔ لاہور ان کا قلعہ تھا جہاں سے تمام نشستیں یہ گذشتہ انتخابات میں جیت کر کلین سوئیپ کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب خود کو ناصرف پاکستان اور عالمِ اسلام بلکہ تیسری دنیا کے ایک رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔ سٹینلے وولپرٹ اپنی کتاب "زلفی بھٹو آف پاکستان"میں لکھتے ہیں کہ ان کا
👇
یہ 1982 میں مئی کی 29 ویں سہہ پہر اور شام کے تین بجکر پینتالیس کا واقعہ ہے جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں چاروں طرف دھماکے ہو رہے تھے اور ملٹری ہسپتال میں ایک خاتون زچگی کیلئے یہاں لائی گئی ، فوجی ہسپتال میں سخت سیکیورٹی
👇
نافذ تھی چھت پر نصب توپیں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار تھی ، ہسپتال کے اندر افغانستان کا صدر ببرک کارمل اور ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں ، شاید کوئی بہت اہم معاملہ رہا ہو ، زچگی تھیڑ کے باہر افغان صدر اور ان کی اہلیہ کے ساتھ ایک شخص اور بھی موجود تھا جس کا قد کاٹھ بالکل
👇
عراق کے صدر صدام حسین جیسا تھا اور وہ فلسطین کے روائتی لباس میں ملبوس تھا بے چینی سے راہداری میں ٹہل رہا تھا ، آدھے گھنٹے کے بعد زچگی روم کا دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر صاحب باہر آئے اور ایک بچی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی ، افغانی صدر نجیب احمد اور ان کی اہلیہ نے اس فلسطینی شخص
👇