پُرانی فلموں میں امیر ہیروئن کے گھر گرینڈ پیانو ضرور ہوتا تھا جسے غریب ہیرو نہ صرف بجانا جانتا تھا بلکہ بجانے کے ساتھ ہی بیوفائی کے شکوؤں بھرے گیت گاتا تھا، جسے صرف ہیروئن سمجھ کر ساڑھی کا پَلُّو مروڑتی تھی جبکہ باقی کراؤڈ احمق گھامڑ بنا سُنتا تھا
👇
ہاتھ سے لکھے خط ای میل سے بھی جدید ہوتے تھے کیونکہ خط کھولنے کے بعد لکھنے والے کی خط میں تصویر آتی اور وہ خُود سُناتا تھا کہ کیا لکھا ہے
جُونہی ہیروئین کو ہیرو سے پیار ہوتا قریب ہی موجود بکرے کے لیلے کی موجیں ہو جاتیں اور ہیروئین اُسے زور سے جپھی ڈال کر چُومنا شروع کردیتی
👇
پُرانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے پیار مُحبّت کا اظہار گانوں کے دوران دو پُھول یا درختوں پر بیٹھے طوطا مینا کیا کرتے تھے۔
درخت کو گلے لگانا محبوب کو گلے لگانے کے مُترادف ہوتا تھا۔
ہیرو کو دیکھتے ہی اچھّی بھلی ہیروئن کو سانس چڑھ جاتی تھی اور وہ 'ہَوکے' بھرنے لگتی
👇
ڈاکٹر اِتنے لاٸق ہوا کرتے تھے کہ دیکھتے ہی ہارٹ اٹیک یا کینسر کا پتہ لگا لیتے تھے وہ بھی بغیر کسی ٹیسٹ کے اور سونے پہ سہاگہ مرنے کی ڈیٹ بھی دے دیتے تھے اور پھر بُری خبر سُننے کے بعد ہاتھ میں پکڑی چیز لازمی گر جاتی تھی
پُرانی فلموں میں جب ہیروئن گھر چھوڑ کے جاتی
👇
اُس کے جُملہ مَلبُوسات، جُوتے، ہینڈ بیگ، جیولری، میک اپ کا سامان کرشماتی طور پر ایک سوٹ کیس میں فِٹ ہو جاتے تھے
گانے اور رقص کو اِتنی اہمیّت حاصل تھی کہ اگر وِلن کو کوئی چھیڑ خانی کرنی بھی ہوتی یا لڑکی کے باپ کو بےعزّت کرنا ہوتا تو وہ گانا اور رقص ختم ہونے کا انتظار کرتا تھا
👇
ہیروئن روڈ پہ ناچ گانا کرتی اور لوگ ایک دائرہ بناکے اسکو اِنتہائی تہذیب سے دیکھتے تھے۔ ہیروئن کی سہیلیوں کو پتا ہوتا تھا کہ ہیروئن نے کونسا گانا گانا ہے وہ ہمیشہ کورس ڈانس پریکٹس گھر سے کر کے آتی تھیں
ہیرو کے دوست کو دُنیا کا کوئی کاروبار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اُس
👇
اُس کا کام سارا دن 'ویہلا' ہیرو کے ساتھ پھرنا ہوتا تھا
پُرانی فلموں کے کلائمیکس میں ہیرو کی ماں اور محبوبہ ہمیشہ وِلن کے قبضے میں بندھی حالت میں ملتی تھیں اور ہیرو کی ساری جدّوجُہد پر پانی پھیر دیتی تھیں۔
عدالت کا فیصلہ ہیرو کے خلاف آنے کے باوجود ہم سب کو پتہ ہوتا تھا
👇
کہ آخری وقت میں ہیرو زخمی حالت میں گِھسٹتا ہوا عدالت کا دروازہ کھول کر کہے گا کہ اصل ثبوت وہ اب لے کر آیا ہے
پُرانی ڈراؤنی فلموں میں شہر سے بہت دُور ایک بنگلے میں بتّی جل رہی ہوتی تھی مگر بُوڑھے چوکیدار نے ہمیشہ لالٹین ہی پکڑی ہوتی تھی۔ نہ جانے ایسے بنگلے میں وہ اکیلا
👇
کیا کرتا تھا اور اُسے تنخواہ کون دیتا تھا۔
بہرحال کچھ بھی ہو اُس دور کی فلمیں تب بھی لاجواب تھیں اور آج بھی لاجواب ہیں۔ #منقول
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
A bridge was built to connect two parts of the city. A toll tax was proposed but officials wanted it to be a "progressive" tax. They decided rich people will pay more to cross.
So how to identify rich and poor quickly?
⏬
They had an idea, rich people wear shoes ( it's 1888 remember), so they decided to charge a tax based on that. If you cross the bridge wearing shoes, you pay a tax, but if you are barefoot, you cross for free.
Simple
Easy
Difficult to avoid
Brilliant idea
But it failed.
Why?
⏬
The rich simply took off their shoes and crossed the bridge. (Tax Avoidance)
The poor?
They did not want to be seen as poor, so they would wear shoes or borrow shoes to cross the bridge.
انگریزی اور ریاضی
ایک سند یافتہ صاحب فرمانے لگے آپ ریاضی کیسے اردو میں پڑھا سکتے ہیں، اس کے تو سارے فارمولے انگریزی میں ہیں اور میں نے سوچنا شروع کر دیا فیثا غورث، اقلیدس، بطلیموس اور الخوارزمی نے یقینی طور پر پہلے انگریزی سیکھی ہوگی پھر اس کے بعد ریاضی میں شد بدھ حاصل کی ہوگی
⏬
یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کچھ نابغے چیخ چیخ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ اردو زبان کو بنانے کا سہرا انگریز کے سر بندھتا ہے کہ اس نے جب فورٹ ولیم کالج قائم کیا تو وہاں پر اردو گھڑی گئی اور ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ میر تقی میر، میر درد، سودا، نظیر اکبر ابادی، مصحفی، ولی دکنی
⏬
اور قلی قطب شاہ نہ جانے کیسے فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے ہی اس سے تعلیم یافتہ ہو گئے اردو میں شاعری کرتے رہے۔
عاد اعظم۔ ذواضعاف اقل، اجزائے ضربی، جمع تقسیم، ضرب، تقسیم، مساوی، متماثل، اکائی، دہائی، سینکڑہ، ہزار، لاکھ، زاویہ، مثلث، مستطیل، عمود، وتر، قاعدہ، زاویہ،
⏬
سفر پر نکلو
ورنہ تم نسل پرست بن کے رہ جاؤ گے،
اور تم اسی ایمان و گمان کے دائرے میں مقید رہو گے
کہ گویا صرف اور صرف تمہاری چمڑی کا رنگ ہی حق ہے
اور یہ کہ بس تمہاری ہی زبان رومانوی ہے۔
اور یہ کہ بس تم ہی اولین تھے اور تم ہی اول رہو گے
سفر پر نکلو
کیونکہ اگر تم سفر نہیں کرتے
👇
تو تمہارے خیالات کو مضبوطی نصیب نہیں ہو سکے گی
اور تمہارے خیالات کی جھولی عظیم ترین نظریات سے لبریز نہ ہو سکے گی،
تمہارے خواب کمزور، ناتواں
اور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ جنم لیں گے۔
اور پھر تمہارے یقین کا مرکز و محور ٹیلی ویژن شو ہی رہ جائیں گے۔
یا پھر وہ لوگ کہ جو درندہ صفت
👇
دشمنوں کی ایجاد و کاشت کرتے ہیں،
جو تمہارے ڈراؤنے خوابوں سے ہم آہنگ ہوں گے
تاکہ تم اگر جیو بھی تو ایک گہرے خوف کے ساتھ۔
سفر پر نکلو
کیونکہ سفر تم کو بغیر اس تفریق کے،
کہ ہم کس خطے کے باسی ہیں۔
تمہیں ہر ایک کو "صبح بخیر" کہنے کی طاقت سے سرشار کر دے گا
سفر پر نکلو
👇
#یادِ_ماضی
جب ہمارے گھر میں آنگن اور باورچی خانہ ہوا کرتا تھا- گھر مہمانوں کی آمد و رفت سے شاداب و آباد ہوا کرتا تھا، خالہ امی، ممانی جان، پھوپھا ابا اور منجھلے مما جیسے الفاظ کی محبّت بھری گونج چاروں طرف سنائی دیتی تھی- اپنے نصیبوں پر اللّه کا یقین ہوا کرتا تھا
👇
صحن میں چوکی پر سفید چاندنی اور غالیچہ بچھا کر میلاد شریف پڑھا جاتا تھا- جب آمدنی محدود لیکن برکتیں لامحدود ہوا کرتی تھیں، خوشیاں چھپا چھپا کر رکھنے کی بجائے سب میں یکساں تقسیم کی جاتی تھیں۔۔۔۔
غم بانٹے کا رواج تھا- اب ہم خاندان سے فیملی بن چکے ہیں
👇
گھر اپنے رشتہ داروں کا مسکن بننے کی بجاۓ اسٹیٹس سمبل بن گیا، خالہ، ممانی اب آنٹی اور سارے رشتے ناتے اپنے پرائے، انکل اور کزن میں بدل گئے ہم ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے بھی عجب لوگ ہیں کیونکہ ہمارے پاس مختلف تہذیب و ادوار کی آنکھوں دیکھی قصّے و کہانیاں ہیں
👇
پرانے دور کے جیب کترے بھی کتنے ایماندار ہوتے تھے!
بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا، میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: "میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا"۔ تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا
⏬
پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی نو روپے جا چکے تھے۔ یوں نو روپے کوئی بڑی رقم نہیں تھی لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اس کے لئے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔ کچھ دن گزرے ماں کا خط ملا۔ پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا، ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔ لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا
⏬
!ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا، تو کتنا اچھا ہے رے، پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا"۔ میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ بڑی مشکل سے پڑھ سکا:
⏬
حکیم صاحب کے مطب پر ایک شخص آیا اور کہا پیٹ میں بہت درد ھو رہا ھے۔ حکیم صاحب سمجھ گئے کہ قبض ھے۔
پھر اس سے پوچھا: گھر کتنی دور ھے تمھارا؟
مریض ۔ دو کلومیٹر
حکیم صاحب نے کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور ایک بوتل میں سے چار چمچے دوائی نکال کر ایک کٹوری میں ڈالی۔
👇
حکیم صاحب۔ گاڑی سے آئے ہو یا چل کر؟
مریض ۔ چل کر
حکیم صاحب نے پھر سے کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور تھوڑی سی دوائی کٹوری سے واپس نکال لی
حکیم صاحب- گھر کون سی منزل پر ھے؟
مریض- تیسری منزل پر
حکیم صاحب نے دوبارہ کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور کٹوری سے تھوڑی سی دوا نکال لی
👇
حکیم صاحب اب آخری سوال کا جواب دو- گھر کے مین گیٹ سے ٹائلٹ کتنی دور ھے؟
مریض - 20 فٹ
حکیم صاحب نے آخری بار کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور کٹوری سے تھوڑی دوا اور نکال لی
حکیم - اب میری دوا کے پیسے دے دو پہلے، پھر یہ دوا پیو، اور فٹا فٹ گھر کی طرف نکل لو۔ کہیں رکنا مت۔
👇