یہ دشت ، یہ دریا ، یہ مہکتے ہوئے گلزار
اِس عالمِ امکاں میں ابھی کچھ بھی نہیں تھا
اِک ”جلوہ“ تھا ، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا ، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
”دن“ تیری صباحت ہے تو شب تیری علامت
گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے ترے آنسو !
آغازِ بہاراں تری انگڑائی کی تصویر
دِلدارئ باراں ترے بھیگے ہوئے گیسو
کہسار کے جھرنے ، ترے ماتھے کی شعاعیں
یہ قوسِ قزح ، عارضِ رنگیں کی شکن ہے
یہ ” کاہکشاں“ دھول ہے نقشِ کفِ پا کی
ثقلین ترا صدقۂ انوارِ بدن ہے… twitter.com/i/web/status/1…
تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے
میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے
تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا
میں نے اُسی کنکر کو گہر مان لیا ہے
تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند
انساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا
لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا
وہ کیسا خدا ؟ جس کو… twitter.com/i/web/status/1…
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh