#منقول
بچپن میں سنتے تھے کہ زیادہ علم حاصل کرنے سے انسان پاگل ہو جاتا ہے، بہت دفعہ سوچا کہ علم انسان کو پاگل کیسے کر سکتا ہے؟ لیکن اب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ واقعی ایسا ہوتا ہے میں نے اس کا عملی مظاہرہ دیکھا ہے
اکثر گھر میں بذریعہ ڈاک کتابیں موصول ہوتی ہیں
اور جس وقت پوسٹ مین آتا ہے عین اُسی وقت میرا مالی جیرا بھی پودوں کی تراش خراش میں مصروف ہوتا ہے، لہذا کتابیں وہی وصول کرتا ہے، میرے صحن میں لیموں کا ایک پودا ہے جس پر ہر موسم میں لیموں لگتے ہیں، اس روز میں کچھ لیموں توڑ رہا تھا کہ مین گیٹ کی بیل ہوئی
جیرا مالی پودوں کو پانی دے
رہا تھا اُس نے پانی کا نل بند کیا اور گیٹ سے باہر چلا گیا تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک بنڈل تھا جس کی پیکنگ بتا رہی تھی کہ اندر کتابیں ہیں میں نے وہیں پیکٹ کھولا اور کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا جیرا مالی میرے قریب ہوا اور آہستہ سے بولا
صاحب زیادہ کتابیں پڑھنے سے علم کی تاپ چڑھ جاتی ہے۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرایا یہ سب خیالی باتیں ہیں چاچا علم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا، یہ سنتے ہی جیرے مالی نے کندھے پر پڑا اپنا کپڑا اتار کر پسینہ پونچھا اور غور سے میری طرف دیکھا
صاحب جی! ہمارے گاؤں میں ایک ایسا
بندہ موجود ہے، میرے کان کھڑے ہو گئے
’’کون ہے وہ؟‘‘
جیرے مالی نے دانت نکالے’’ماسٹر غاؤں غاؤں‘‘
پتا چلا کہ جیرے کے گاؤں میں گذشتہ پچاس سالوں میں ایک ہی شخص پڑھا لکھا ہے اور وہ بھی پاگل ہو چکا ہے شہر کے کسی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا، پھر واپس گاؤں چلا آیا اور اب ہاتھ میں اینٹ اٹھائے
غاؤں، غاؤں کرتا پھرتا ہے، جیرے مالی کا گاؤں دور دراز کے کسی علاقے میں تھا لیکن مجھ پر تجسس کا بھوت سوا ر ہو چکا تھا، میں نے پوچھا کہ ’’چاچا کیا میں تمہارے گاؤں جاکر اُس ماسٹر کو دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
جیرے نے کندھے اچکائے’’جب مرضی دیکھ لیں، لیکن ہمارے گاؤں کا راستہ بڑا خراب ہے
گاڑی نہیں جائے گی
میں جلدی سے بولا! ٹرین یا بس تو جاتی ہو گی؟
اُس نے اثبات میں سر ہلایا’’صرف بس جاتی ہے لیکن دو بسیں بدلنا پڑتی ہیں‘‘
میں نے جیرے سے اُس کے گاؤ ں کا ایڈریس لیا حوالے کے لئے ایک نام معلوم کیا اورہفتہ کی رات روانہ ہو گیا، تین گھنٹے کے طویل سفر کے بعد گاؤں پہنچا
تو شام ہو چکی تھی راستہ واقعی خراب تھا پورا انجر پنجر ہل گیا سخت تھکن ہو رہی تھی لہذا گاؤں میں داخل ہوتے ہی چاچے جیرے کے بتائے ہوئے بندے کا پوچھا اور وہاں پہنچ گیا
یہ بندہ چاچے جیرے کا بہنوئی ’’نہلا‘‘ تھا اور گاؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا، بڑی محبت سے ملا اور بیٹھک میں
خاص طور پر میرے لئے بستر لگوایا رات کے کھانے میں اُس سے گفتگو ہوئی تو میں نے جان بوجھ کر ماسٹر غاؤں، غاؤں کا ذکر چھیڑ دیا، نہلے نے قہقہہ لگایا’’وہ تو جی پاگل ہے اینٹ دے مارے گا‘‘ میں نے لسی کا ایک گھونٹ بھرا! کیا وہ کسی کو بھی دیکھتے ہی اینٹ مار دیتاہے؟ نہلے نے نفی میں سرہلایا
،
نہیں! ویسے تو باتیں کرتے رہیں تو لگتا ہی نہیں کہ پاگل ہے لیکن بحث تھوڑی لمبی ہو جائے تو اچانک اینٹ اٹھا لیتا ہے
میں نے سرکھجایا اگر واقعی ایسا تھا تو ماسٹر غاؤں غاؤں سے ملنا بہت ضروری تھا میں جاننا چاہتا تھا کہ علم نے اُسے کیسے پاگل کیا نہلے سے طے پایا کہ صبح گاؤں والوں کے
ساتھ مجھے ماسٹر سے ملوانے لے جائے گا اگلے دن ناشتے کے بعد سارے گاؤں والے اکٹھے ہو گئے اُن کے چہروں پر ایسی خوشی تھی گویا کسی میلے میں جا رہے ہوں میں نے نہلے سے پوچھا کہ یہ لوگ ساتھ کیوں جا رہے ہیں؟
نہلے نے قہقہہ لگایا! بس جی! شغل میلے کے شوقین ہیں ویسے بھی یہ لوگ ماسٹر کے دماغ
کو زیادہ سمجھتے ہیں یہی ماسٹر سے بات چیت کریں گے آپ نے بس پیچھے رہ کر دیکھنا ہے کہ ماسٹر کیسے پہلے پاگلوں والی باتیں کرتا ہے اور پھر اینٹ اٹھاتا ہے
میں نے ایک اہم سوال کیا! کیا ماسٹر صاحب کے گھر والے بھی ساتھ رہتے ہیں؟
نہلا ہنس پڑا! نہیں وہ شہر میں ہیں،صرف ماسٹر ہی تماشا لگانے
کے لیے یہاں رہ گیا ہے
دس منٹ بعد ہم سب ماسٹر غاؤں غاؤں کی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گئے اُن کے گھر کے باہر شیشم کا ایک درخت لگا ہوا تھا، میں نے دور سے دیکھا کہ گھنی چھاؤں میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ عمر رسیدہ شخص کرسی پر بیٹھا عینک لگائے کوئی کتاب پڑھ رہا ہے، گاؤں کے سب لوگوں نے
ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر محتاط انداز میں آگے بڑھنے لگے
نہلے نے میرا ہاتھ پکڑ کر وہیں روک لیا گاؤں والے ماسٹر کے تھوڑا اور پاس آگئے شائد ماسٹر کو بھی لوگوں کی آمد محسوس ہو گئی تھی اُس نے یکدم کتاب سے نظریں اٹھائیں اور لوگوں کی طرف دیکھا، کچھ دیر تک وہ اُنہیں گھورتا رہا
پھر اچانک اُس کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی آؤ آؤ کیا پوچھنے آئے ہو؟
مجمع میں سے ایک ہٹا کٹا نوجوان دو قدم آگے بڑھا! ماسٹر صاحب! وہ پوچھنا تھا کہ چڑیل کو کیسے پکڑا جائے؟
ماسٹر نے کچھ لمحے بات سنی، پھر تیوری چڑھائی’’کون سی چڑیل، کیسی چڑیل، کوئی چڑیل وڑیل نہیں ہوتی‘‘
گاؤں والوں کی دبی دبی ہنسی نکل گئی وہی نوجوان پھر بولا! لیکن ماسٹر صاحب! جو بھی رات کو قبرستان والے راستے میں بوہڑ کے درخت کے نیچے سوتا ہے مر جاتا ہے گاؤں کے تین لوگ مارے جا چکے ہیں
ماسٹر نے کتاب بند کی اور بڑے پیار سے بولا’’دیکھو! یہ تو پرائمری کا بچہ بھی بتا سکتا ہے
کہ درخت دن کو آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں اسی وجہ سے رات کو کسی بھی درخت کے نیچے سونے سے آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور سونے والے کی موت ہو جاتی ہے، اس میں کسی چڑیل کا کوئی ہاتھ نہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی ساری فضا قہقہوں سے گونج اٹھی۔
نہلے نے فخریہ انداز میں
میری طرف دیکھا’’دیکھا! کر دی نا پاگلوں والی بات‘‘
میں نے ماسٹر کی طرف دیکھا جو لوگوں کے قہقہے سن کر دانت پیس رہا تھا۔ گاؤں کا رنگ ریز آگے بڑھا! ماسٹر صاحب! کالا رنگ کیسے بنتا ہے؟
ماسٹر نے گردن اُس کی طرف گھمائی’’بھئی کالا رنگ کوئی رنگ نہیں ہوتا،یوں سمجھ لو جس چیز میں
کسی رنگ کی ملاوٹ نہ ہو یعنی بے رنگ ہو وہ کالی ہوتی ہے
سب لوگ ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو گئے سوال کرنے والے نے بلند آواز کہا’’اوئے پاگل ماسٹر میرے بال سفید ہیں، میں ہر چوتھے دن خضاب لگاتا ہوں پھر یہ سفید سے کالے کیسے ہو جاتے ہیں؟‘‘
قہقہے بلند ہو گئے ماسٹر ایک دم کھڑا ہو گیا
سب لوگ چوکنے ہو گئے، ایک اور سوال آیا, ماسٹر صاحب! چاند پر کھڑے ہو کر زمین پر پتھر پھینکا جائے تو کتنی دیر بعد نیچے گرتا ہے؟
ماسٹر کے لہجے میں بے بسی امڈ آئی دیکھو! چاند اوپر نہیں زمین کے سامنے ہے اس لیے چاند پر کھڑے ہو کر زمین نیچے نہیں اوپر نظر آئے گی
سب کی بتیسیاں نکل آئیں
یوں لگا جیسے پورے مجمع کو کسی نے مشترکہ گدگدی کی ہو
ماسٹر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے جھکا اور تیزی سے اینٹ اٹھا لی ایک ہڑبونگ سی مچی اور سب لوگ پیچھے ہٹ گئے، میں نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ماسٹر صاحب کے قریب پہنچ گیا۔ ماسٹر غضبناک نگاہوں
سے مجھے گھورنے لگا، نہلا اور دیگر گاؤں والے چیخ چیخ کر مجھے پیچھے ہٹنے کا کہہ رہے تھے۔
میں نے ایک نظر گاؤں والوں پر ڈالی پھر ماسٹر صاحب کے پاس آکر پوری عقیدت سے ان کے اینٹ والے ہاتھ پر بوسہ دیا اور بولا

’’ماسٹر صاحب! جہالت کا سمندر دلیل کے پتھر سے پار نہیں ہوتا‘‘

ماسٹر صاحب کے ہونٹ کپکپائے، اینٹ ہاتھوں سے چھوٹی، آنکھوں میں نمی سی تیر گئی___!!
💔💔💔💔💔💔

• • •

Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh
 

Keep Current with 𝕾𝖍𝖆𝖍𝖎𝖉 𝕭𝖆𝖘𝖍𝖎𝖗

𝕾𝖍𝖆𝖍𝖎𝖉 𝕭𝖆𝖘𝖍𝖎𝖗 Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

PDF

Twitter may remove this content at anytime! Save it as PDF for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video
  1. Follow @ThreadReaderApp to mention us!

  2. From a Twitter thread mention us with a keyword "unroll"
@threadreaderapp unroll

Practice here first or read more on our help page!

More from @Shahidd_Bashir

May 11
پُرانی فلموں کی یاد میں۔

پُرانی فلموں میں امیر ہیروئن کے گھر گرینڈ پیانو ضرور ہوتا تھا جسے غریب ہیرو نہ صرف بجانا جانتا تھا بلکہ بجانے کے ساتھ ہی بیوفائی کے شکوؤں بھرے گیت گاتا تھا، جسے صرف ہیروئن سمجھ کر ساڑھی کا پَلُّو مروڑتی تھی جبکہ باقی کراؤڈ احمق گھامڑ بنا سُنتا تھا
👇
ہاتھ سے لکھے خط ای میل سے بھی جدید ہوتے تھے کیونکہ خط کھولنے کے بعد لکھنے والے کی خط میں تصویر آتی اور وہ خُود سُناتا تھا کہ کیا لکھا ہے
جُونہی ہیروئین کو ہیرو سے پیار ہوتا قریب ہی موجود بکرے کے لیلے کی موجیں ہو جاتیں اور ہیروئین اُسے زور سے جپھی ڈال کر چُومنا شروع کردیتی
👇
پُرانی فلموں میں ہیرو ہیروئن کے پیار مُحبّت کا اظہار گانوں کے دوران دو پُھول یا درختوں پر بیٹھے طوطا مینا کیا کرتے تھے۔
درخت کو گلے لگانا محبوب کو گلے لگانے کے مُترادف ہوتا تھا۔
ہیرو کو دیکھتے ہی اچھّی بھلی ہیروئن کو سانس چڑھ جاتی تھی اور وہ 'ہَوکے' بھرنے لگتی
👇
Read 9 tweets
Mar 16
In 1888, in Curacao......

A bridge was built to connect two parts of the city. A toll tax was proposed but officials wanted it to be a "progressive" tax. They decided rich people will pay more to cross.

So how to identify rich and poor quickly?
They had an idea, rich people wear shoes ( it's 1888 remember), so they decided to charge a tax based on that. If you cross the bridge wearing shoes, you pay a tax, but if you are barefoot, you cross for free.

Simple
Easy
Difficult to avoid
Brilliant idea
But it failed.

Why?
The rich simply took off their shoes and crossed the bridge. (Tax Avoidance)

The poor?

They did not want to be seen as poor, so they would wear shoes or borrow shoes to cross the bridge.

This is a true story.

So what are the lessons?

1. Poverty is hidden yet visible.
Read 5 tweets
Jan 10
انگریزی اور ریاضی
ایک سند یافتہ صاحب فرمانے لگے آپ ریاضی کیسے اردو میں پڑھا سکتے ہیں، اس کے تو سارے فارمولے انگریزی میں ہیں اور میں نے سوچنا شروع کر دیا فیثا غورث، اقلیدس، بطلیموس اور الخوارزمی نے یقینی طور پر پہلے انگریزی سیکھی ہوگی پھر اس کے بعد ریاضی میں شد بدھ حاصل کی ہوگی
یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کچھ نابغے چیخ چیخ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ اردو زبان کو بنانے کا سہرا انگریز کے سر بندھتا ہے کہ اس نے جب فورٹ ولیم کالج قائم کیا تو وہاں پر اردو گھڑی گئی اور ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ میر تقی میر، میر درد، سودا، نظیر اکبر ابادی، مصحفی، ولی دکنی
اور قلی قطب شاہ نہ جانے کیسے فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے ہی اس سے تعلیم یافتہ ہو گئے اردو میں شاعری کرتے رہے۔
عاد اعظم۔ ذواضعاف اقل، اجزائے ضربی، جمع تقسیم، ضرب، تقسیم، مساوی، متماثل، اکائی، دہائی، سینکڑہ، ہزار، لاکھ، زاویہ، مثلث، مستطیل، عمود، وتر، قاعدہ، زاویہ،
Read 9 tweets
Jan 9
سفر پر نکلو
ورنہ تم نسل پرست بن کے رہ جاؤ گے،
اور تم اسی ایمان و گمان کے دائرے میں مقید رہو گے
کہ گویا صرف اور صرف تمہاری چمڑی کا رنگ ہی حق ہے
اور یہ کہ بس تمہاری ہی زبان رومانوی ہے۔
اور یہ کہ بس تم ہی اولین تھے اور تم ہی اول رہو گے
سفر پر نکلو
کیونکہ اگر تم سفر نہیں کرتے
👇
تو تمہارے خیالات کو مضبوطی نصیب نہیں ہو سکے گی
اور تمہارے خیالات کی جھولی عظیم ترین نظریات سے لبریز نہ ہو سکے گی،
تمہارے خواب کمزور، ناتواں
اور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ جنم لیں گے۔
اور پھر تمہارے یقین کا مرکز و محور ٹیلی ویژن شو ہی رہ جائیں گے۔
یا پھر وہ لوگ کہ جو درندہ صفت
👇
دشمنوں کی ایجاد و کاشت کرتے ہیں،
جو تمہارے ڈراؤنے خوابوں سے ہم آہنگ ہوں گے
تاکہ تم اگر جیو بھی تو ایک گہرے خوف کے ساتھ۔

سفر پر نکلو
کیونکہ سفر تم کو بغیر اس تفریق کے،
کہ ہم کس خطے کے باسی ہیں۔
تمہیں ہر ایک کو "صبح بخیر" کہنے کی طاقت سے سرشار کر دے گا
سفر پر نکلو
👇
Read 5 tweets
Jan 8
#یادِ_ماضی
جب ہمارے گھر میں آنگن اور باورچی خانہ ہوا کرتا تھا- گھر مہمانوں کی آمد و رفت سے شاداب و آباد ہوا کرتا تھا، خالہ امی، ممانی جان، پھوپھا ابا اور منجھلے مما جیسے الفاظ کی محبّت بھری گونج چاروں طرف سنائی دیتی تھی- اپنے نصیبوں پر اللّه کا یقین ہوا کرتا تھا
👇 Image
صحن میں چوکی پر سفید چاندنی اور غالیچہ بچھا کر میلاد شریف پڑھا جاتا تھا- جب آمدنی محدود لیکن برکتیں لامحدود ہوا کرتی تھیں، خوشیاں چھپا چھپا کر رکھنے کی بجائے سب میں یکساں تقسیم کی جاتی تھیں۔۔۔۔
غم بانٹے کا رواج تھا- اب ہم خاندان سے فیملی بن چکے ہیں
👇
گھر اپنے رشتہ داروں کا مسکن بننے کی بجاۓ اسٹیٹس سمبل بن گیا، خالہ، ممانی اب آنٹی اور سارے رشتے ناتے اپنے پرائے، انکل اور کزن میں بدل گئے ہم ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے بھی عجب لوگ ہیں کیونکہ ہمارے پاس مختلف تہذیب و ادوار کی آنکھوں دیکھی قصّے و کہانیاں ہیں
👇
Read 4 tweets
Dec 1, 2022
پرانے دور کے جیب کترے بھی کتنے ایماندار ہوتے تھے!
بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا، میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: "میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا"۔ تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا
پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی نو روپے جا چکے تھے۔ یوں نو روپے کوئی بڑی رقم نہیں تھی لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہو اس کے لئے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔ کچھ دن گزرے ماں کا خط ملا۔ پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا، ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔ لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا
!ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا، تو کتنا اچھا ہے رے، پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا"۔ میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ بڑی مشکل سے پڑھ سکا:
Read 4 tweets

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3/month or $30/year) and get exclusive features!

Become Premium

Don't want to be a Premium member but still want to support us?

Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal

Or Donate anonymously using crypto!

Ethereum

0xfe58350B80634f60Fa6Dc149a72b4DFbc17D341E copy

Bitcoin

3ATGMxNzCUFzxpMCHL5sWSt4DVtS8UqXpi copy

Thank you for your support!

Follow Us on Twitter!

:(