ایک زمانے میں،پہاڑیوں اور کھلتے ہوئے مرغزاروں کے درمیان واقع ایک خوبصورت شہر میں ایک لڑکی رہتی تھی۔اس کے بہتے ہوئے شاہ بلوط بالوں، چمکتی ہوئی سبز آنکھوں اور ایک ایسی مسکراہٹ جو تاریک ترین کمرے کو روشن کر سکتی تھی،ایسی دلکشی تھی جو لوگوں کے دلوں کو موہ لیتی تھی۔
کہانی لکھ رہی ہوں
ایک چمکتی دوپہر کتابوں کی دکان کے شیلفوں میں جھانکتے ہوئے، اس لڑکی کی آنکھیں ایک لمبے، خوبصورت اجنبی حسن سے ملیں۔
پرسکون،پراعتماد اور گرمجوش شخصیت کا مالک حسن۔
اس کی بادامی آنکھوں میں اسرار کی چمک تھی، جیسے اس کی روح میں کوئی کہانی دبی ہو جس کے پردہ اٹھانے کا انتظار ہو۔
جیسا کہ تقدیر نے کیا ہوگا، حسن بھی ایک شوقین قاری تھا، اور وہ ادبی جواہرات کی تلاش میں اکثر اسی کتاب کی دکان پر جاتا تھا۔
ان کے راستے آپس میں جڑے ہوئے تھے، اور انہوں نے جلد ہی خود کو کتابوں اور شاعری سے جڑی محبت میں محو کرلیا۔
الفاظ کا جادو دونوں پہ چل چکا تھا۔
دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور دونوں کا رشتہ مضبوط تر ہوتا گیا۔
انہوں نے ایک ساتھ متعدد مہم جوئی کا آغاز کیا، کھلتے ہوئے باغات میں ہاتھ ملا کر ٹہلتے ہوئے، ستاروں سے روشن آسمان کے نیچے سرگوشیوں کا تبادلہ کیا، اور چھپے ہوئے کناروں میں چوری شدہ لمحے بانٹے ۔۔۔
ان کی محبت خوشبودار گلاب کی طرح کھلتی ہےجو ان کی زندگیوں کو گرمی اور خوشی سے بھر دیتی ہے۔ایک دوسرے کےساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ ان کی اپنی محبت کی کہانی کا ایک پیارا باب تھا۔
انہوں نے اپنے اختلافات کا جشن منایا،
اپنی مماثلتوں کو قبول کیا،
اور اس خوبصورت ہم آہنگی میں سکون پایا۔
ایک چاندنی شام،جب وہ چمکتے ہوئے سمندر کو دیکھ کر ایک پہاڑ پر کھڑے تھے،
حسن اپنی آنکھوں میں چمک کے ساتھ لڑکی کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے وہ الفاظ کہے جو وہ سننا چاہتی تھی: "میرا دل ہمیشہ کے لیے تمھارے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کیا تم زندگی نامی اس خوبصورت سفر میں میری ساتھی ہو گی؟"
لڑکی کے چہرے پر خوشی کے آنسو بہہ رہے تھے جب اس نے سر ہلایا، اس کا دل محبت سے بھر گیا۔ اس لمحے میں، جیسے ہی سمندر کی نرم ہوا نے اپنے وعدوں کی سرگوشیاں کیں، انہوں نے ایک دوسرے سے اپنی وابستگی کی تصدیق کرتے ہوئے، ایک پرجوش ہاں کے ساتھ اپنی محبت پر مہر ثبت کی۔
اس دن سے دونوں نے اپنی محبت کی کہانی لکھنا جاری رکھا، اس کے صفحات کو ہنسی، مشترکہ خوابوں اور اٹل حمایت سے بھرتے رہے۔ ان کی محبت امید کی کرن بن گئی، جو اپنے آس پاس کے لوگوں کو سچی محبت کی طاقت پر یقین کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اور اس طرح، ان کی لازوال محبت کو گلے لگا کر دونوں نے ایک ایسے سفر کا آغاز کیا جو ان کی روحوں کو ابدیت کے لیے ایک ساتھ باندھے گا، ایک ایسی محبت کی کہانی تخلیق کرے گا جو آنے والی نسلوں کے لیے سنائی اور پسند کی جائے گی
والد صاحب آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
وفات کے سال بھی انھوں نے اعتکاف کا ارادہ کیا. مسجد کا ایک کونہ چن کے گھر آۓ۔ اٹھارویں روضے کی رات کچھ بے چین رہے کہ گھبراہٹ ہے. ڈاکٹرصاحب نے فرمایا کہ سب نارمل ہے۔اگلا دن بھی ایسے ہی گزرا۔ بیسیوں روضے کی صبح زیادہ گھبراہٹ ہوئ
تو بھائ زبردستی ہسپتال لے گئے کہ تفصیلی ٹسٹ کروا لیتے ہیں۔ وہ ہچکچاتےرہے کہ ہسپتال والے داخل کر لیں گے اور میرااعتکاف کا ارادہ ہے۔ ہسپتال والوں نے کہا کہ
ECG ہم افطار کے بعد کریں گے لیکن بظاہر سب
نارمل ہے۔
افطار سے دس منٹ پہلے بھائ کو کہا کہ امی مجھ سے ملنے آئ ہیں.
گہری سانس لی اور اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔
اکیسویں روضے کو ان کا جنازہ ہوا۔ جولائ کا مہینہ تھا اور شدید گرمی تھی۔ جیسے ہی جنازہ گھر سے اٹھانے لگے تو بوندا باندی شروع ہو گئی۔ بزرگوں نے گواہی دی کہ میرے والد نے کسی سے کبھی بے ایمانی نہیں کی
شاید 2017 کا سن تھا۔ اٹک آئل ریفائنری کے پیچھے کوٹھا کلاں کی ایک تنگ گلی سے گزرتے ہوئے ہم چھوٹے سے ایک فلیٹ میں داخل ہوئے۔ سحرش نے کہا،
یہ فریضہ اسکول ہے۔ یہ سترہ بچے ہیں۔ ان کی مائیں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ہم انہیں تعلیم دے رہے ہیں۔
ان کی فیس کیا ہے؟
یہ ہمیں اپنا وقت دیتے ہیں، یہی ان کی فیس ہے۔
میں گھبرا سا گیا۔ یہ امریکا پلٹ لڑکی ہے، اس کو ابھی حالات کا اندازہ نہیں ہے۔ وسائل چاہئیں اور بہت سارا وقت۔ دو چار ٹکریں لگیں گی تو مہاراشٹر کی ساوتری بائی پھلے بننے کا بخار اتر جائے گا۔
مگر ہمیں کیا۔ ہمیں فیتہ کاٹنے کو کہا گیا،
نے فیتہ کاٹ دیا۔
اب 2024 کا سن ہے۔ گاڑی اسی آئل ریفائنری کے پیچھے سے گزر کرکوٹھا کلاں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہی تنگ و تاریک گلی ہے۔ مگر ہم اس چھوٹے سے فلیٹ سے آگے نکل گئے ہیں۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ فلیٹ گلی کے بالکل بیچوں بیچ کہیں تھا۔ مگر گلی تو ختم ہو رہی ہے۔ اور گلی ختم ہوگئی
وہ تمہیں بتائیں گے کہ عورت کو چار دیواری تک محدود کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ حضرت عثمان نے حضرت ام کلثوم بنت علی کو ملکہء روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ جی ہاں،حضرت ام کلثوم روم کی ملکہ کے پاس خوشبواورمشروبات لے کر گئیں۔
آپ کے استقبال کے لئے ہرقل کی زوجہ آئی اور اس نے خواتین کے سامنے کہا"یہ تحفے عرب کے بادشاہ کی بیوی اور ان کے نبی کی بیٹی لے کر آئی ہےٗ"۔
وہ یورپ و امریکہ میں عورتوں کو ووٹ کے حقوق دینے کی بات تو کریں گے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے یہ حق اسلام نے دیا۔
جی ہاں، حضرت عمر نے چھ رکنی کمیٹی قائم کی اور حضرت عبد الرحمان بن عوف کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا جو گھروں میں جا کر خواتین سے ان کے حق رائے دہی لیتے اور نتیجہ کے طور پر اس وقت کی خواتین نے حضرت عثمان کو اگلا خلیفہ منتخب کیا۔
میں سیدہ آسیہ زوجہ فرعون کے پاس جاوں گا، اور پوچھوں گا کہ اپنے پیٹ پر پورا پتھر اٹھانے کی برداشت کہاں سے لی تھی۔
میں سید غنی عثمان رض کے پاس جاوں گا اور پوچھوں گا کہ ایک ہی رکعت میں پورا قرآن کیسے پڑھ لیا کرتے تھے۔
مکہ کے شہزادے مصعب بن عمیر سے ملوں گا اور پوچھوں گا کہ ایسی شاہانہ زندگی کو ترک کر کے اپنوں سے ملی اذیت کے باوجود صبر اور ہجرت کیسے کر لی۔
عشرہ مبشرہ سے ملوں گا ان سے پوچھوں گا کہ جب تمہیں جنت کی بشارت ملی تو پھر تمہاری نیند کا کیا ہوا؟۔
میں سیدہ ہاجرہ سے ملوں گا اور پوچھوں گا کہ کسی محافظ کے بغیر ایک صحراء میں رکنے کی ہمت کہاں سے لی تھی۔
ملوں گا سید بلال حبشی سے اور عرض کروں گا کہ ایک دفعہ ہی دور نبوت کی اذان سنا دو ۔
سیدنا یونس علیہ السلام کے پاس جاکر سوال کروں گا کہ مچھلی کے پیٹ کا عرصہ کسطرح سے گزارا ۔
ہم دونوں میں بلا کی مماثلت ہے۔ ایک ہی بات پہ ایک سا ردعمل اور ایک سے ہی جذبات ہوتے ہیں۔ ہمارے شوق بھی مشترکہ تھے۔کرکٹ کا میچ ہر کام چھوڑ کے دیکھتے۔ ہر سیاسی پروگرام دلچسپی سے دیکھتے ۔مانوجیسے ایک ہی سانچے سے دو مورتیں بنائ گئی ہوں۔ بس ایک کو لڑکا اور دوسری کو لڑکی بنا دیا گیا ہو۔
جہاں بھی جاتے، سب کو یہی لگتا کہ ان دونوں سے اب کون جیتے۔ حاضر جواب، حس مزاح سے بھرپور اور حساس۔ ہر محفل کی ہم رونق ہوتے
لیکن ایک مسئلے پہ ہم دونوں متضاد تھے۔ وہ عمران خان کے حامی اور میں میاں دے نعرے لگانے والی۔
احباب ہمیں ایک ہی محفل میں خوش اخلاقی کے جوہر بکھیرتے دیکھتے تو کوئ نہ کوئ سیاسی تیلی ضرور لگا دیتا۔ اب کیا تھا دونوں اپنا اپنا مورچہ سنبھال کے گولہ باری شروع کر دیتے۔ ان حالات میں وہ ہمیشہ بحث کا آغاز " یہ تو پٹواری ہے، اس نے کہاں ماننا ہے" سے کرتے۔
ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول میرے پڑوسی نے میرا جینا دو بھر کر دیا ہے ۔۔
آپ نے فرمایا کہ گھر کا سامان اور اہل و عیال گھر سے باہر لے آؤ اور ہر گزرنے والے کو بتاؤ
کہ تمہارے ہمسائے نے تمہارا جینا دوبھر کر دیا ہے ۔۔
ان صاحب نے بالکل ایسا ہی کیا ، جو گزرتا وہ تعجب سے پوچھتا کہ بھائی کیا ماجرا ہے ۔ وہ بتاتے کہ میرے پڑوسی نے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہی مشورہ دیا ہے کہ معاملہ معاشرے کے سامنے رکھ دو ۔۔
لوگوں میں کھلبلی مچ گئی اور وہ باجماعت اس برے پڑوسی کے گھر جا کر اس کو لعن طعن کرنے لگ گئے کہ تجھے اللہ کا خوف نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کو ستانے والے کے ایمان کی نفی فرمائی ہے ۔۔ اور تیرا پڑوسی گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ہے
اب پڑوسی کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے