Assault of doctor in children hospital lahore by the ASI attendant should be condemned on a national level by the doctor community. How dare they assault a doctor on duty like that. Look at the videos. They are so heartwrenching. And the FIR was not being
registered because the assaulter is an ASI. Upon blocking of ferozepur road, the FIR was registered against UNKNOWN person. Then the SSP came and names were mentioned in FIR with reduced extent of injury. Every doctor should speak up against this. Take a stand before this
jahilana behavior becomes a norm. Or none of us will be safe anywhere.
There should be a strike on a national level, including private sectors.
When their own families will suffer then they will realize we are also humans.
ٹرشری کئیر ہسپتالوں میں اگر ناقص سہولیات ہوں تو اُسکا زمہ دار ڈاکٹر نہیں ہوتا بلکہ ہسپتال کی انتظامیہ ہوتی ہے جو زیادہ تر نان ڈاکٹر / ٹیکنیکل لوگ ہوتے ہیں ۔ عوام کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر اس سب کا زمہ دار ہے ۔
میں زاتی تجربے سے واضح کرتا ہوں 🛑
نشتر میں اکثر ھاوس افسر نے ہی ڈیتھ
ڈکلئیر کرنی ہوتی تھی ۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ اکثر وارڈز میں ڈیتھ پرنٹ سرٹیفیکیٹ نکالنے کے لئے سفید کاغذ نہیں ہوتے تھے ۔ ایسے میں اگر وہ ڈاکٹر اُس فوت ہوئے مریض کے لواحقین سے کہے کہ باہر سے مجھے تین چار سفید کاغذ لادیں میں نے آپکے مریض کا ڈیتھ سرٹیکفیکیٹ بنانا ہے تو وہ لواحقین
اُس ڈاکٹر کو اُلٹا ماریں گے کہ ایک تو ہمارا مریض مر گیا اور تم لوگوں کے پاس سفید کاغذ تک نہیں ہے وارڈ میں ۔ حالنکہ ڈاکٹر کا سفید کاغذ کی دستیابی سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ یہ کام وارڈ کے ایڈمن کا ہے یا ہسپتال انتظامیہ کا ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم اپنی جیب سے پیسے دے کر ساتھ والے
پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ڈاکٹروں کاوہی امیج ہے۔جو ہمارا فلمی اداکاروں کے بارے میں ہوتا ہے۔یعنی اداکار ہر وقت فلموں والی “زبردست ‘ قسم کی زندگی گزارتے ہیں۔جس میں ہمیشہ خوشی ہے۔کوئ غم نہی ہے۔
عوام کو لگتا ہے ڈاکٹر صرف مسیحا اور فرشتے ہیں۔یہ انسان نہی ہیں۔ان کو نہ تو بھوک لگتی ہے۔
نہ ان کے کوئ جزبات ہوتے ہیں۔اسلئے بارہ گھنٹے لگاتار ڈیوٹی کرتے ہوئے نہ تو ان کو کھانا کھانا چاہئے۔۔۔نہ چائے سیگریٹ پینی چاہئے۔نہ ان کو فیس لینی چاہئے۔کیونکہ ان کو گھر خاندان بیوی بچوں کی ضرورت نہی ہوتی۔نہ ان کے exam فیل ہوتے ہیں۔فیل ہو بھی جائیں تو انکو کوئ ذہنی اذیت نہی ہوتی۔
نہ یہ بیمار ہوتے ہیں۔یہ اگر ENT میں کام کرتے ہیں تو انکو نزلہ زکام نہی ہونا چاہئے۔اگر EYE وارڈ میں کام کرتے ہیں تو انکو آنکھوں کی بیماری نہی ہونی چاہئے۔بیمار ہو بھی جائیں تو لوگ ہنس کر کہتے ہیں”ڈاکٹر صاحب تُسی تے خود بیمار ہوگئے جے۔۔تُسی ساڈا علاج کی کرنا”
ڈاکٹر کام نہی کرتے بس
کتنی راتیں ہوتی ہیں جو MBBS کے طالبعلم کی بغیر نیند کیے گذر جاتی ہیں ،
جب ایک طالبعلم ڈپریشن سے گذر رہا ہو اور اسی دوران اس کا کوئی ساتھی اس سے یہ کہے کہ اس سے اب پڑھائی کا دباؤ برداشت نہیں ہو رہا اور اب وہ خودکشی کرنے کے در پہ ہے تو کتنا مشکل ہوتا ہوگا ہمت جوڑ کر اپنے ساتھی
کو دلاسہ دینا ،
کبھی کبھی تو پروفیشنل لائف سے پہلے ہی یونیورسٹی میں دل کرتا ہے کہ بندہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور بھاگ جائے ،
ہم کسی کی امید زندہ رکھنے کے لیے اپنے نہ جانے کتنے ہی خوابوں اور خواہشوں کا قتل کرتے ہیں تب جا کر کوئی ایک ڈاکٹر خواجہ سعد بنتا ہے جسے کسی روز کوئی
اٹینڈنٹ آ کر اس لیے مار مار کر ICU تک پہنچا دیتا ہے کہ خدا نے ان کے مریض کے نصیب میں اتنی سانسیں کیوں لکھی تھی ؟
یہ قوم خدمت تو دور کی بات احسان کے بھی لائق نہیں اس ملک کی نوکری سے کئی بہتر دیارِ غیر میں گوروں کی غلامی ہے کیونکہ ریاست یہاں خود ایک لمبے عرصے سے وینٹیلٹر پر ہے۔
کب میں نے کہا تھا مجھے حساس بنا دے
اے میرے خدا مجھے کچھ اور بنا دے😢😢
میں نے بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی کے ایام درد مسیحائی اور "اپنی قوم کی خدمت" کے جذبے سے سرشار پڑھائی میں گزار دئیے کیونکہ
"میں مسیحا ہوں"
میں برس ہا برس سے اپنوں کی خوشی ، غمی میں
شریک نہ ہو سکا کیونکہ
" میں مسیحا ہوں"
میں نے راتوں کی نیند اور دن کا سکون قربان کر کے 18,18 گھنٹے روزانہ پڑھائی کی کیونکہ
"میں مسیحا ہوں "
میں مسلسل 36 سے اڑتالیس گھنٹے جاگ کر ڈیوٹی کرتا رہا کیونکہ
" میں مسیحا ہوں "
میں ڈیوٹی کے دوران چائے تک نہیں پی سکتا، کیا پتا کوئی
''مجبور'' 'نیلا تھوتھا' یا 'گندم کی گولی' کھا کر آ جائے اور پھر وہ "ڈاکٹر کی مبینہ غفلت " کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
میں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد بھی چند گھنٹے کے لیے آرام نہیں کر سکتا،، کیا پتا کوئی من چلہ " ون ویلنگ " کرتا ہوا ہیڈ انجری کے ساتھ ایمر مجنسی میں لینڈ
کل سے کچھ عقل کل لوگ کہہ رہے ہیں ڈاکٹر سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی بند کر کے اپنی پرائیویٹ پریکٹس سے پیسہ بناتے ہیں سچے ہیں تو پرائیویٹ کلینک بھی بند کر دیں پہلی بات ان نام نہاد عقل کل والوں کو بتا دوں 98% ینگ ڈاکٹر جو کہ سپیشلسٹ کی ٹریننگ کر رہے ہیں وہ کوئی پارٹ ٹائم جاب نہیں
کرتے ہیں انکی اپنی ڈیوٹیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ تھکن بھی مشکل سے اترتی ہے اور جو کنسلٹنٹ اور پروفیسر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں وہ کبھی ہمارے احتجاج کا حصہ نہیں بنے انہوں نے ہمیشہ طاقتور مافیا کی غلامی کی ہے یہ لوگ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پیروکار ہیں اور نہ یہ لوگ
مریض دیکھتے ہیں اور نہ انکا مریضوں کے لواحقین سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ لوگ اپنے جونئر ڈاکٹرز کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوتے ہیں اسطرح کے واقعات تو ان منافقین کے لیے نعمت ہوتے ہیں یہ مافیاز کو اپنی غلامی اور وفاداری کو ثبوت دیتے ہیں تاکہ انکی پروموشن جلدی ہو سکے
دوسرا اس جاہل اور
ہم تمام ڈاکٹر حضرات جب بھی بیٹھتے ہیں اکثر اس بات پر بحث ہوتی کہ اس ملک میں رہنا چاہئے یا نہیں؟
اور لوگ مجھے قائل کرتے ہے کہ UK میں جا کر سیونگز نہیں ۔۔۔ پیسے نہیں بچتے بہت ٹیکس ہے۔
میرا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا ہے اور آج کا واقعہ میرے موقف کی تائید ہیں۔
میرے مطابق جو معاشرہ
آپ کو بنیادی انسانی حقوق نہیں دے سکتا وہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ آپ یقین جانے مجھے UK والے پیسے نہیں مجھے معاشرے میں عزت چاہیے۔ وہ عزت جو UK میں ایک حاکروب کو بھی ملتی ہے اور ڈاکٹر کوبھی۔
مجھے وہ تحفظ چاہئے جو وہاں سڑک پر چلتے ہر انسان کو ہے کہ اسی کوئی بھی کہیں سے بھی آکر
جانی و مالی نقصان نہیں پہنچائے گا۔مجھے وہ معاشرہ چاہئے جہاں مجھے ڈر نا ہو کہ میرا بچہ بڑا ہو کر کھائے گا کہاں سے۔
میں آج یہ جو لکھ رہا ہوں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے نہیں لکھ رہا۔ ایک انسان کی حیثیت سے لکھ رہا۔ یہ جو بھی ہوا کسی ریڑھی بان کے ساتھ ہوتا تو بھی غلط تھا۔ لیکن یہ معاشرہ