لونڈی کی پکار پر معتصم باللہ کی یلغار
مشھور عباسی خلیفہ معتصم باللہ (833ءتا 843ء) کے دربار خلافت میں ایک شخص کھڑا ہوا- عرض کی: امیر المومنین میں عموریۃ سے آرہا ہوں- میں نے ایک عجیب منظر دیکھا- ایک موٹے عیسائی نے ایک مسلمان لونڈی کے چہرے پر زناٹے دار #LetFowziaBringAafiaHome
تھپڑ رسید کیا- لونڈی نے بے بسی کے عالم مین آہ بھری اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا:
{ وا معتصماہ}
" ہائے خلیفہ معتصم تم کہاں ہو!"
اس موٹے عیسائی نے لونڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
وما یقدر علیہ المعتصم! یجیء علی ابلق وینصرک
معتصم باللہ اس پکار کا کیوں کر جواب دے سکتا ہے! ایا وہ چتکبرے گھورے پر سوار ہوکر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟"
پھر اس لونڈی کے رخسار پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی
یہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ نے اس آدمی سے دریافت کیا:
" عموریہ کس سمت میں ہے؟"
اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے،
خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ کی سمت موڑا اور کہا:
لبیک، ایتھا الجاریۃ! البیک، ھاذا المعتطم باللہ اجابک
"میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے
پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ھزار چتکبرے گھوڑے تیار کرائے اور ایک لشکر جرار لےکر عموریہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا جب اس محاصرہے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا انہوں نے کہا: "ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو
انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں-" چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزراخلیفہ اسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ جپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ
اس بارے میں ان کی چہ مگوئیان کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کررہا تھابٹھی گرم تھی وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا
لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا-
اچانک غلام نے برے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:
{ فی راس المعتصم}
" یہ معتصم کے سر پر"
لوہار نے غلام سے کہا: تم نے بڑا برا کلمہ
کہا ہے- اپنی اوقات میں رہو- تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ کہوغلام کہنے لگا" تمہاری بات بلکل درست ہے مگر ہمارے خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہےاس کے پاس اتنی فوج ہے- تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ
میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہین- اللہ کی قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذم داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا"
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ معتصم باللہ کو بڑا تعحب ہوا
پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا-
صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی حدمت میں حاضر کیا-
خلیفہ نے پوچھا:رات جو باتیں مین نے سنی ہین، ان باتوں کی کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:
آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے- اگر آپ جنگ میں مجھے کماندر بنادیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروادے گا-"
خلیفہ نے کہا:
جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی
چنانچہ اللہ تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرادیا- پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا- اس اس نے فورا اس آدمی کو تلاش کیا جو لونڈی کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تونے اس لونڈی کو دیکھا تھا
وہاں مجھے لے چلو- وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور لونڈی کےاس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی حدمت میں حاضر کیا- اس وقت خلیفہ نے لونڈی سے کہا:
{ یا جاریۃ! ھل اجابک المعتطم؟}
" لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟"
اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلادیا- اور اب تلاش اس موٹے عیسائی کی ہوئی جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا- اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو
اللہ اکبر
محاضرات الابرا: 2/63، قصص العرب :3/449
یہ واقعہ پڑھ کر اور بہن عافیہ کی ذات پر تصور کرکے ظلم اور بے بسی اور بے غیرتی کا عالم دیکھ ہر دل رکھنے والوں کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آجاتے ہیں،
ابھی کچھ دیر پہلے ایک جگہ پرجانا ہوا وہاں چند لوگ بیٹھےموجودہ پاکستانی سیاست پر گفتگو کر رہےتھے وہاں ایک مولوی صاحب جنکاتعلق غالباجمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن گروپ سےتھا بڑےخوش اورجذبے سےیہ فرمارہےتھے کہ جو کچھ ہورہا ہے اور عمران خان اور اسکی پارٹی کو جو توڑا جا رہا ہے یہ
مولانا فضل الرحمان صاحب کی کرامت انکی طاقت سےہو رہاہےمولاناسےخیرات الدین کشکولی نےبدتمیزی کی اسکاانجام دیکھوکیا ہورہاہے مولانا نےاسکے بارےمیں جتنے دعوے کیےتھے وہ پورےہوگئے وغیرہ
میں پہلےتوخاموشی سےان تمام حضرات کی باتیں سنتارہاجب مولوی صاحب نےیہ ساراکریڈٹ علمائےسوء
مولوی فضل الرحمن کےکھاتے میں ڈالنےکی بھرپورکوشش کی تومیں نےکہامیرے ایک سوال کاجواب آپ عنایت فرمائیں تونوازش ہوگی انہوں نےبڑےپرُاعتماداندازمیں کہاکہ جی پوچھیں ضرورمیں نےکہاکہ جواب آپنےسوچ سمجھ کردیناہےانہوں نےکہاجی میں جوکہتاہوں سوچ سمجھ کےناپ تول کےپورےدلائل حقائق سےبات کرتاہوں
شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اسلام صرف دعوے کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام کا مطلب ہے اﷲ کی توحید کو اپنانا اور اس کی اطاعت کرنا اس کے سامنے جھکنا اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنا اور اﷲ کی صفات کو تمام مخلوق سے نفی کرنا جیسا کہ اﷲ کا ارشاد ہے
جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اﷲ پر ایمان لے آیا تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا ۔ [بقرہ:۲۵۶]
دوسری جگہ ارشاد ہے
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ [یوسف : ۴۰]
حکم صرف اﷲ کا ہےاس نے یہ حکم دیا ہے کہ صرف اس کی عبادت کرو یہی سیدھا اور قائم رہنے والا دین ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے
طوفان نوح دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم اور ناقابل فراموش واقعہ جسے تاریخ انسانی صدیاں گزر جانے کے باوجود فراموش نہیں کرسکی وہ ایک پانی کا سیلاب تھا جو حکم الٰہی کے تحت ایک مخصوص تنور کے ذریعے ابلا اور روئے زمین پر اس تیزی سے پھیلا کہ کسی بھی جاندار کے لئے مفر ممکن نہیں رہا
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کوہ جودی کی چوٹی کو چھونے لگا یہاں تک کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس سے جالگی۔ آپ علیہ السلام اپنے 70 تا 80 پیروؤں کے ہمراہ سلامتی کے ساتھ وہاں اتر گئے
اس میں آپ علیہ السلام کے تین بیٹے سام، حام، یغوث اور ان کی بیویاں بھی شامل تھیں۔ اس طوفان میں حضرت
حضرت نوح علیہ السلام کی کافرہ بیوی واعلہ اور نافرمان بیٹا کنعان جو کہ ایک بہترین تیراک تھا پیغمبر کی نظروں کے سامنے غرق ہوگئے یہ سیلاب نہیں بلکہ عذاب کی ایک شکل تھی جو نافرمانی اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کے لیے ایک سزا بنی،
(راکھ کے ڈھیر میں شعلہ بھی ہے چنگاری بھی)
قسط:11
امام غزالی نے یزید پر شب و ستم کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ مسلمان تھے اور یہ ثابت نہیں کہ وہ قتل حسین پر راضی تھے – رہا ان پر رحمتہ الله علیہ کہنا سو یہ جائز ہے بلکہ مستحب ہےاور ہم ان پررحمت کی دعا اپنی نمازوں میں تمام
مومنین و مسلمین کے بشمول مانگا کرتے ہیں.(البدایه و النہایه صفحہ 173 جلد 12 )
رَبَّنَا اغفِر لى وَلِوٰلِدَىَّ وَلِلمُؤمِنينَ يَومَ يَقومُ الحِسابُ ﴿إبراهيم: 41﴾
کتاب فضل یزید .پانچویں اورچھٹی ہجری صدی کا وہ زمانہ ہے جب بنی امیہ اور خاص کر یزید کےمخالفانہ پروپیگنڈہ نےشدت اختیار
کی اور طرح طرح کے بہتان تراشے گیے تو کچھ صالحین امت نے حقیقت انکشاف کرنے کا ارادہ کیا تو شیخ عبد المغیث نے امیر یزید کی حسن سیرت پر ایک کتاب تصنیف کی (البدایه و النہایه جلد 12 صفحہ 338 )
اس سلسلہ میں علامہ ابن کثیر نے یہ لطیفہ بیان کیا ہے
اکثر اہل سنت دوستوں نے میسیج کیا ہے کہ واقعہ کربلا، واقعہ حرہ اور یزید کی شخصیت وغیرہ جیسے موضوعات کے بارے میں کس کتاب یا کن کتب کا مطالعہ کیا جائے جو مختصر بھی ہوں اور آسان و عام فہم بھی ہوں؟
تو عرض ہے کہ میری اس پوسٹ کے ساتھ چند کتابوں کے سر ورق لگائے گئے ہیں، ہر سر ورق پر میں نے ایک نمبر لگایا ہے، آپ اسی ترتیب کے ساتھ ان کتابوں کا مطالعہ کرلیں، یعنی نمبر 1 والی کتاب سب سے پہلے، اس کے بعد نمبر 2 اور پھر نمبر 3 ، پھر نمبر 4 اور آخر میں نمبر 5 کتاب کو پڑھیں
لیکن مکمل پانچوں کتب پڑھنی ہیں کیونکہ اگر ایک یا دو یا تین یا چار پڑھ کر چھوڑ دیا تو ذہن میں آئے شکوک وشبہات دور نہ ہوں گےنوٹ: مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے لئے كتاب نمبر 5 کے بارے میں جاری شدہ ایک فتویٰ بھی ساتھ منسلک ہے.
اگر آپ نام نہاد مسلمان شیعی طین کے مزید ہم اثر رہنا چاہتے ہیں تو سن لیجئے جس طرح وہ ذلیل خوار ہوتے ہیں اسی طرح تمہاری بھی ذلیل خواری طے ہے جس طرح وہ ہر بات پر مار کھاتے ہیں اسی طرح تمہارے لیے بھی جوتے طے ہیں،
تو پھر دونوں جوتا کھانے کیلئے تیار ہوجائیں
السید کمال الحیدري يبراً يزيد من قتل الحسین رضي الله عنہ مشہور شیعہ عالم سید کمال الحیدری نے شیعہ کتب کی بنیاد پر یہ اعتراف کیا ہے کہ یزید قتلِ حسین رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار نہیں بلکہ یزید نے اس قتل کو پسند بھی نہیں کیا بلکہ قاتل حسین پر لعنت کی
اور کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حسین رض کو نقصان پہنچایا جائے گا تو میں اپنے بچوں کو ان کی حفاظت پر مامور کر دیتا۔
افسوس اس حقیقت کا اعتراف روا_فض نے بھی کر لیا ہے لیکن ہمارے یہاں نام نہاد حسینی نما نیم رافضی عوام سے چھپا رہے ہیں اور شیعی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کے لیے