ہمارے معاشرے میں خود انحصاری اتنی زیادہ ہے کہ اکثر جہاں نہیں بھی اس عمل کا مظاھرہ کرنا ہوتا وہاں بھی خود پر انحصار کرکے آخری دم کا انتظار کیا جاتا ہے - میں نے ہاؤس جاب کے دوران ہارٹ اٹیک والے مریض کو خود سائکل چلاتے ایمرجنسی
میں آتے دیکھا ہے (ہارٹ اٹیک میں مریض کو مکمل آرام کرنا لازم ہوتا ہے ). میں نے آپینڈیکس کے درد کو گیس سمجھ کر مریض کو بہت دن تک چورن کھاتے اور پھر آنت پھٹنے کے بعد ہسپتال آتے دیکھا ہے - *میں نے ایمرجنسی میں بہت سے مریض "رسیوڈ ڈیڈ" دیکھے ہیں جن کے عزیز ڈاکٹروں سے یہ امید رکھتے
تھے کہ ابھی وہ ان کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گے* - اگر ڈاکٹروں کے ہاتھ میں آب حیات ہوتا تو ان کے اپنے کبھی نہ مرتے - ان کے والدین عمر خضر جیتے اور ان کی اپنی اولادیں عمرنوح پاتیں - ان کے اپنے بہن بھائی کبھی بیمار نہ ہوتے اور وہ خود کبھی لاچار نہ ہوتے - *ابھی حال میں ہی ہمارے
ایک ڈاکٹر صاحب کے دو بچے حادثے کا شکار ہو کر الله کو پیارے ہوے ' ایسا کوئی نسخہ کیمیا ہوتا تو وہ اپنے کم سن لاڈلے نہ یوں جانے دیتے* - لیکن اس بات کو عوام کو سمجھانے کیلئے ابھی اور نہ جانے کتنی دہایاں چاہیے ہونگی اور نہ جانے کتنے اور دنگے فساد ہونگے -
*ہسپتال میں اس غنڈہ گردی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں میڈیکل کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں - لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ کچھ امراض ٹائم سینسیٹو ہوتے ہیں جن میں بچوں کا نمونیہ کے باعث سانس کا اکھڑنا ' پسلیوں کا تیز تیز حرکت کرنا اور آکسیجن کا گرنا بھی شامل ہے*
اکثر اوقات مریض اپنے پیٹ کے درد، سانس کی تکلیف کا علاج گیس اور نزلہ سمجھ کر پھکیوں اور کھانسی کے سیرپ سے کرتے رہتے ہیں حتی کہ پیٹ کا درد السر یا بڑی آنت کا انفیکشن ہونے کی وجہ سے پیری ٹونایٹس بن جاتا ہے اور سانس کا اکھڑنا نمونیہ کی وجہ سے پھیپھڑوں کے فائل ہونے تک پہنچ جاتا
ہے جس کے بعد ڈاکٹرز سے کوئی معجزہ کرنے کی امید رکھ لی جاتی ہے - ظاہر ہے جب وہ معجزہ نہیں سر انجام ہوتا تو پھر ڈندہ چلتا ہے - گالی ہوتی ہے اور بات ہاتھ پای تک پہنچ جاتی ہے -
*اس مریض گردی کی دوسری وجہ ہمارے نظام میں ہسپتالوں میں سکیورٹی کا نہ ہونا بھی ہے - جتنی سکیورٹی ایک سرکاری
ہسپتال میں ہوتی ہے اس سے زیادہ کسی ڈی سی او کسی ایم این اے کے آفس کے باہر ہوتی ہے* جبکہ اکثر ایسی مار دھاڑ میں ملوث افراد انہی ڈی سی او اور ایم این اے کے کوئی منشی کوئی ڈیرے والے ہوتے ہیں جو ان کی شے پر سب کچھ کر گزرتے ہیں -
*اس بدمعاشی کی ایک تیسری اور اہم وجہ میڈیا کا کردار
بھی ہے - ہمارا میڈیا محض ٹی آر پی کیلئے ہر بات کے ساتھ لفظ " مبینہ " لگا کر ہر بہت سی قدرتی اموات کو بھی دوایوں کا اثر اور ڈاکٹروں کی غفلت قرار دے کر عوام میں یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ ڈاکٹر مریض کا قاتل بھی ہوسکتا ہے*
*کہنا بس اتنا تھا کہ ملک پہلے ہی افراتفری کا شکار ہے -
پرہے لکھے لوگ ویسے ہی کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈ رہے ہیں کہ کسی طرح اس جنگل کے قانون والے معاشرے سے باہر نکل جائیں - ایسے میں ایسے واقعات اس برین ڈرین کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جہاں پہلے ہی قحط الرجال کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے* - ان ڈاکٹروں کو مار کر اگر
بچہ واپس آگیا ہے تو ضرور اس عمل کو جاری رکھیں - ہاں البتہ آپ کے اس عمل سے جو ہڑتالیں اور کام میں تعطل آئیگا اس سے ایسے اور بہت سے بچے متاثر ہوسکتے ہیں - *چلڈرن ہسپتال کی اس ویل چیئر سے عوام سے بس یہی سوال ہے !*
ٹرشری کئیر ہسپتالوں میں اگر ناقص سہولیات ہوں تو اُسکا زمہ دار ڈاکٹر نہیں ہوتا بلکہ ہسپتال کی انتظامیہ ہوتی ہے جو زیادہ تر نان ڈاکٹر / ٹیکنیکل لوگ ہوتے ہیں ۔ عوام کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر اس سب کا زمہ دار ہے ۔
میں زاتی تجربے سے واضح کرتا ہوں 🛑
نشتر میں اکثر ھاوس افسر نے ہی ڈیتھ
ڈکلئیر کرنی ہوتی تھی ۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ اکثر وارڈز میں ڈیتھ پرنٹ سرٹیفیکیٹ نکالنے کے لئے سفید کاغذ نہیں ہوتے تھے ۔ ایسے میں اگر وہ ڈاکٹر اُس فوت ہوئے مریض کے لواحقین سے کہے کہ باہر سے مجھے تین چار سفید کاغذ لادیں میں نے آپکے مریض کا ڈیتھ سرٹیکفیکیٹ بنانا ہے تو وہ لواحقین
اُس ڈاکٹر کو اُلٹا ماریں گے کہ ایک تو ہمارا مریض مر گیا اور تم لوگوں کے پاس سفید کاغذ تک نہیں ہے وارڈ میں ۔ حالنکہ ڈاکٹر کا سفید کاغذ کی دستیابی سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ یہ کام وارڈ کے ایڈمن کا ہے یا ہسپتال انتظامیہ کا ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم اپنی جیب سے پیسے دے کر ساتھ والے
پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ڈاکٹروں کاوہی امیج ہے۔جو ہمارا فلمی اداکاروں کے بارے میں ہوتا ہے۔یعنی اداکار ہر وقت فلموں والی “زبردست ‘ قسم کی زندگی گزارتے ہیں۔جس میں ہمیشہ خوشی ہے۔کوئ غم نہی ہے۔
عوام کو لگتا ہے ڈاکٹر صرف مسیحا اور فرشتے ہیں۔یہ انسان نہی ہیں۔ان کو نہ تو بھوک لگتی ہے۔
نہ ان کے کوئ جزبات ہوتے ہیں۔اسلئے بارہ گھنٹے لگاتار ڈیوٹی کرتے ہوئے نہ تو ان کو کھانا کھانا چاہئے۔۔۔نہ چائے سیگریٹ پینی چاہئے۔نہ ان کو فیس لینی چاہئے۔کیونکہ ان کو گھر خاندان بیوی بچوں کی ضرورت نہی ہوتی۔نہ ان کے exam فیل ہوتے ہیں۔فیل ہو بھی جائیں تو انکو کوئ ذہنی اذیت نہی ہوتی۔
نہ یہ بیمار ہوتے ہیں۔یہ اگر ENT میں کام کرتے ہیں تو انکو نزلہ زکام نہی ہونا چاہئے۔اگر EYE وارڈ میں کام کرتے ہیں تو انکو آنکھوں کی بیماری نہی ہونی چاہئے۔بیمار ہو بھی جائیں تو لوگ ہنس کر کہتے ہیں”ڈاکٹر صاحب تُسی تے خود بیمار ہوگئے جے۔۔تُسی ساڈا علاج کی کرنا”
ڈاکٹر کام نہی کرتے بس
کتنی راتیں ہوتی ہیں جو MBBS کے طالبعلم کی بغیر نیند کیے گذر جاتی ہیں ،
جب ایک طالبعلم ڈپریشن سے گذر رہا ہو اور اسی دوران اس کا کوئی ساتھی اس سے یہ کہے کہ اس سے اب پڑھائی کا دباؤ برداشت نہیں ہو رہا اور اب وہ خودکشی کرنے کے در پہ ہے تو کتنا مشکل ہوتا ہوگا ہمت جوڑ کر اپنے ساتھی
کو دلاسہ دینا ،
کبھی کبھی تو پروفیشنل لائف سے پہلے ہی یونیورسٹی میں دل کرتا ہے کہ بندہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور بھاگ جائے ،
ہم کسی کی امید زندہ رکھنے کے لیے اپنے نہ جانے کتنے ہی خوابوں اور خواہشوں کا قتل کرتے ہیں تب جا کر کوئی ایک ڈاکٹر خواجہ سعد بنتا ہے جسے کسی روز کوئی
اٹینڈنٹ آ کر اس لیے مار مار کر ICU تک پہنچا دیتا ہے کہ خدا نے ان کے مریض کے نصیب میں اتنی سانسیں کیوں لکھی تھی ؟
یہ قوم خدمت تو دور کی بات احسان کے بھی لائق نہیں اس ملک کی نوکری سے کئی بہتر دیارِ غیر میں گوروں کی غلامی ہے کیونکہ ریاست یہاں خود ایک لمبے عرصے سے وینٹیلٹر پر ہے۔
کب میں نے کہا تھا مجھے حساس بنا دے
اے میرے خدا مجھے کچھ اور بنا دے😢😢
میں نے بچپن سے لے کر لڑکپن اور جوانی کے ایام درد مسیحائی اور "اپنی قوم کی خدمت" کے جذبے سے سرشار پڑھائی میں گزار دئیے کیونکہ
"میں مسیحا ہوں"
میں برس ہا برس سے اپنوں کی خوشی ، غمی میں
شریک نہ ہو سکا کیونکہ
" میں مسیحا ہوں"
میں نے راتوں کی نیند اور دن کا سکون قربان کر کے 18,18 گھنٹے روزانہ پڑھائی کی کیونکہ
"میں مسیحا ہوں "
میں مسلسل 36 سے اڑتالیس گھنٹے جاگ کر ڈیوٹی کرتا رہا کیونکہ
" میں مسیحا ہوں "
میں ڈیوٹی کے دوران چائے تک نہیں پی سکتا، کیا پتا کوئی
''مجبور'' 'نیلا تھوتھا' یا 'گندم کی گولی' کھا کر آ جائے اور پھر وہ "ڈاکٹر کی مبینہ غفلت " کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
میں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد بھی چند گھنٹے کے لیے آرام نہیں کر سکتا،، کیا پتا کوئی من چلہ " ون ویلنگ " کرتا ہوا ہیڈ انجری کے ساتھ ایمر مجنسی میں لینڈ
کل سے کچھ عقل کل لوگ کہہ رہے ہیں ڈاکٹر سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی بند کر کے اپنی پرائیویٹ پریکٹس سے پیسہ بناتے ہیں سچے ہیں تو پرائیویٹ کلینک بھی بند کر دیں پہلی بات ان نام نہاد عقل کل والوں کو بتا دوں 98% ینگ ڈاکٹر جو کہ سپیشلسٹ کی ٹریننگ کر رہے ہیں وہ کوئی پارٹ ٹائم جاب نہیں
کرتے ہیں انکی اپنی ڈیوٹیاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ تھکن بھی مشکل سے اترتی ہے اور جو کنسلٹنٹ اور پروفیسر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں وہ کبھی ہمارے احتجاج کا حصہ نہیں بنے انہوں نے ہمیشہ طاقتور مافیا کی غلامی کی ہے یہ لوگ منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پیروکار ہیں اور نہ یہ لوگ
مریض دیکھتے ہیں اور نہ انکا مریضوں کے لواحقین سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ لوگ اپنے جونئر ڈاکٹرز کے ساتھ کبھی کھڑے نہیں ہوتے ہیں اسطرح کے واقعات تو ان منافقین کے لیے نعمت ہوتے ہیں یہ مافیاز کو اپنی غلامی اور وفاداری کو ثبوت دیتے ہیں تاکہ انکی پروموشن جلدی ہو سکے
دوسرا اس جاہل اور
ہم تمام ڈاکٹر حضرات جب بھی بیٹھتے ہیں اکثر اس بات پر بحث ہوتی کہ اس ملک میں رہنا چاہئے یا نہیں؟
اور لوگ مجھے قائل کرتے ہے کہ UK میں جا کر سیونگز نہیں ۔۔۔ پیسے نہیں بچتے بہت ٹیکس ہے۔
میرا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا ہے اور آج کا واقعہ میرے موقف کی تائید ہیں۔
میرے مطابق جو معاشرہ
آپ کو بنیادی انسانی حقوق نہیں دے سکتا وہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ آپ یقین جانے مجھے UK والے پیسے نہیں مجھے معاشرے میں عزت چاہیے۔ وہ عزت جو UK میں ایک حاکروب کو بھی ملتی ہے اور ڈاکٹر کوبھی۔
مجھے وہ تحفظ چاہئے جو وہاں سڑک پر چلتے ہر انسان کو ہے کہ اسی کوئی بھی کہیں سے بھی آکر
جانی و مالی نقصان نہیں پہنچائے گا۔مجھے وہ معاشرہ چاہئے جہاں مجھے ڈر نا ہو کہ میرا بچہ بڑا ہو کر کھائے گا کہاں سے۔
میں آج یہ جو لکھ رہا ہوں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے نہیں لکھ رہا۔ ایک انسان کی حیثیت سے لکھ رہا۔ یہ جو بھی ہوا کسی ریڑھی بان کے ساتھ ہوتا تو بھی غلط تھا۔ لیکن یہ معاشرہ