سید مزمل شاہ نے اپنی ویڈیو میں عافیہ صدیقی کے کیس کو ڈسکس کیا یے. شروعات میں وہ کہتے ہیں کہ ہم حقائق پر بات کرے گے اور دونوں موقف پیش کرے گے لیکن درمیان درمیان میں وہ ڈنڈی مارتا ہے اور یک طرفہ موقف پر زور دے کر حقائق کو مسخ کرتا ہے.
بنایا ہے جو 2009 میں چھپی تھی اور یہ مکمل وہی موقف ہے جو امریکہ دنیا کے سامنے بیان کرتا ہے. درمیان میں مزمل داؤد غزنوی کی کتاب کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان کے موقف کو بیان نہیں کرتے حالانکہ داؤد غزنوی کا موقف بہت جاندار ہے. ماہر قانون داؤد غزنوی کا کتاب Aafia unheared : Uncovering
the personal and legal mysteries surrounding FBI's Most wanted women رونمائی سے قبل ہی امیزون پر بیسٹ سیلرز میں شامل ہو چکی تھی اس میں مصنف نے اپنے طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ سارے لیگل و سرکاری پراسس و ڈاکومنٹس کو کوت کیا ہے. لیکن مزمل نے اس کے بجائے دوسرا کمزور موقف اپنایا ہے
مزمل نے دو تین نکات اٹھائے ہے کہ عافیہ نے دوسری شادی القایدہ کی رکن سے کی تھی اور وہ 2003 سے 2008 تک انڈر گراوند تھی اور پھر افغانستان جانے کے بعد غزنی میں پکڑی گئی اور بعد میں عدالت میں عافیہ نے اپنا کیس خود کمزور کیا تھا اور وہ عدالتی پراسیس میں تعاون نہیں کر رہی تھی...
آیے باری باری ایک ایک پر بات کرتے ہیں
جواب. ان الزامات اور قیاسات کیلئے کوئی شواہد موجود نہیں. سب سے پہلے عافیہ نے دوسری شادی نہیں کی. مزمل نے ذکر کیا کہ طلاق کے چھ ماہ بعد شادی کی جبکہ ان کی طلاق 21 اکتوبر 2002 میں ہوئی اور پانچ ماہ اور 28 دن بعد ان کو گرفتار کیا گیا. مزمل
سابق شوہر کی بات کو بنیاد بنا دی لیکن یاد ریے عافیہ کے کیس میں شرمناک کردار ان کے سابق شوہر کا ہے جبکہ دوسری جانب عافیہ کی بہن اور ماں دوسری شادی کی سختی سے تردید کرتی ہے. لھذا اس معاملے میں سابقہ شوہر جو کہ عافیہ کا مخالف تھا ان کی بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا
مزمل کہتے ہیں کہ عافیہ کو 2003 میں نہیں بلکہ 2008 میں غزنی سے گرفتار کیا گیا اور پانچ سالوں کے دوران وہ پاکستان میں چھپ رہی تھی. اتنے بڑی دعویٰ کیلئے وہ پھر سے سابقہ شوہر اور عافیہ کے انکل کے بیان کا ذکر کرتے ہیں
یہ سراسر جھوٹ ہے اصل حقیقت یہی ہے کہ عافیہ کو 2003 میں گرفتار
کیا گیا تھا. اس وقت کی ساری میڈیا یہی کہتی تھی. خود عافیہ کے گھر والے یہی کہتے ہیں اور اسی دوران عافیہ کے گھر والوں کو انٹیلیجنس نے مکمل محصور کیا تھا. 2003 میں خود عافیہ کے انکل نے عمران خان کو کہا تھا اور عمران خان نے پریس کانفرنس بھی کی تھی. دونوں ماں بیٹیوں نے اس وقت کے
وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات سے عافیہ صدیقی اور انکے بچوں کی بازیابی کی درخواست کی۔ ساتھ ہی عافیہ کی والدہ اور بہن نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو یہ بھی بتایا کہ انہیں چند موٹر سائیکل سواروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ بچوں اور عافیہ کی سلامتی چاہتی ہیں تو انکی پراسرار گمشدگی کا کسی
سے بھی ذکر نہ کریں۔ ماں اور بہن کو قرار کیسے آتا انہوں نے سیاسی لیڈروں سے مدد طلب کی جس پر خفیہ اداروں نے انہیں دھمکی دی کہ جتنا شور مچاوگے اتنی اسکی اور بچوں کی زندگی خطرے میں پڑے گی. وقت گزرتا گیا... 2008 تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ عافیہ کدھر ہے ا اسی دوران ایک پاکستانی نژاد
برطانوی شہری معظم بیگ نے جوبگرام جیل اور گوانتانامو میں رہ چکا تھا کی ایک کتاب Enemy Combatant منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون قیدی کا زکر تھا جو بگرام جیل میں قیدیوں اور جیل اہلکاروں کے لئے ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی تھی۔ اُدھر برطانوی نوء مسلم صحافی Yvonn Riddley نے بھی
اس قیدی کا ذکر کیا اور اسے Gray lady of Bagram کا نام دیا۔ ایوان ریڈلی گوانتاناموبے میں قیدیوں سے انٹرویو کر رہی تھی تو وہاں پر قیدیوں نے بتایا کہ ببگرام میں ایک خاتون قید ہے. جس پر ایوان ریڈلی افغانستان گئی. جیل میں موجودہ دوسری قیدیوں نے تصدیق کی کہ قیدی نمبر 650 عافیہ ہی ہے.
اسی طرح پانچ سال سے زائد عرصے کی گمنامی کے بعد برطانوی صحافی ریڈلی نے سات جولائی سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد میں انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید ہے اور اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوا ہے۔
خود امریکی کورٹ میں جب 2003 سے 2008 تک ان کی پراسرار گمشدگی کی بحث شروع ہوئی
تو کورٹ نے اس بحث کو appreciate نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ ساری معلومات امریکن ایجنسیوں کے پاس ہیں اور عدالت کو وہاں سے رجوع کرنا ہوگا پھر کیا ہوا کسی کو کچھ نہیں پتا - یہاں " سیکرٹ پرزن" کا ذکر کرنا ضروری ہے جوامریکی ایجنسیوں کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں قائم
کئیے گئے ان میں بغیر مقدمہ کے لوگوں کو رکھا جاسکتا تھا بعد کے حالات سے اندازہ ہوا کہ عافیہ کسی سیکرٹ پرزن میں قید تھیں جس کو قید کرنے والےچھپانا چاہ رہے تھے۔ اس کی توثیق یوں بھی ہوتی ہےکہ عافیہ نے عدالت میں جب جب سیکرٹ پرزن میں اپنی قید کا ذکر کیا جج نے ان کے الفاظ حذف کرادئیے
ایوان ریڈلی مسلسل اس کیس کا تعاقب کرتی رہیں وہ ڈیٹا اور معلومات اکھٹی کرتی رہیں آواز اٹھاتی رہیں خطوط لکھتی رہیں انکی کوششوں کے نتیجے میں ایک سیاسی دباؤ بننا شروع ہوا اب ذرا یہ واقعاتی ترتیب ملاحظہ کریں
📌5 جولائی کوانہوں نے عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور
اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ پر آواز بلند کریں اب تک امریکی اور پاکستانی حکام مکمل لاعلمی ظاہر کرتے رہے تھے 📌 11 جولائی 2008 کو ایک امریکی آفیشلز نے بگرام سے میسج دیا کہ یہاں ایسی کوئی خاتون موجود نہیں ہیں📌17 جولائی کو غزنی سے خبر آئی کہ عافیہ صدیقی نامی
خاتون گورنر کے محل کے باہر سے گرفتار ہوئی ہے جس کے پاس سے خطرناک کیمیکلز برآمد ہوئے ہیں افغان پولیس کے مطلع کرنے پر امریکی حکام نے انٹیروگیشن شروع کی📌اگلے دن18 جولائی کو خبر آئی کہ عافیہ نے تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں پر فائرنگ کی ہے اور جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئی ہیں۔
امریکی حکام زخمی عافیہ کو امریکن ہسپتال لے گئے اور وہاں سے اسکی گرفتاری ظاہر کی 📌پھر اچانک 23 جولائی کو پنٹاگون سے ایوان ریڈلی کو جواب آیا کہ 2006 میں ایک قیدی نمبر 650 بگرام جیل میں موجود ضرور تھالیکن وہ عافیہ صدیقی نہیں تھیں 📌یوں 5 جولائی سے 23 جولائی تک کے پے درپے
واقعات کے حوالے سے داؤد غزنوی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مسئلہ یہ تھا کہ عافیہ اوپر بیان کئیے گئے کسی سیکرٹ پرزن میں تھیں جو عافیہ کی وجہ سے زیر بحث آرہے تھے اورایکسپوز ہونے لگے تھے چنانچہ گھبراہٹ میں انہیں قید کرنے والوں کو اسکی موجودگی ظاہر کرنی پڑی اور جلدی میں اس سارے چکر میں
خامیاں رہ گئیں اور کئی کڑیاں ملنے سے رہ گئیں اور کہانی ٹھیک نہیں بن سکی ۔
اب آخری اعتراض پر آتے ہیں مزمل لکھتے ہیں کہ عدالتی پراسیس کو خود عافیہ نے سبوتاژ کیا اور عافیہ وایلنٹ تھی
جبکہ کورٹ میں عافیہ صدیقی کو رائٹ آف کونسلنگ یعنی مشورہ کا حق نہیں دیا گیا نہ مرضی کے وکیل
مہیا کئیے گئ چنانچہ اس نے اپنا کیس خود لڑ ا۔ اپنے بیان میں اس نے واشگاف انداز میں کہا کہ میرے نام پردنیا میں کوئی دہشت گردی مجھے قبول نہیں ہے۔ میں کسی کو اجازت نہیں دیتی کہ میرے نام پر پتھر بھی اٹھائے اور جو بھی مسلمان کسی غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں انکو میری نصیحت ہے کہ
وہاں پر آپ نے کوئی تشدد نہیں کرنا ۔
2008 میں کیس کا فیصلہ اناؤنس ہونے سےذرا پہلے آڈینس میں سےایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے جیوری کے دو ممبران پر اعتراض اٹھایا اور انہیں شدید ترین دھمکیاں دیں۔جج نے دونوں معزز ممبران کو ریپلیس کردیا اور اس شخص کو تفتیش کے لیئے اٹارنی جنرل کے
کمرے میں بھیج دیا۔ عافیہ نے اپنی کنکلوڈنگ سٹیٹمنٹ میں انکشاف کیا کہ ان دو ممبران نے اس کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ یہ بات واضح رہے کہ امریکی قانون کے مطابق اس مقدمہ کے لئیے متفقہ فیصلہ ضروری تھا جو دونوں معزز ممبران کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔۔۔اور ہاں آج تک وہ دھمکی دینے والابھی
کبھی سامنےنہیں لایا گیا ۔
ان پر دہشت گردی کے دو مقدمات چلائے گئے ایک عزیر پراچہ کیس جو امریکہ میں دہشت گردی کے ایک مبینہ منصوبہ کے لئیے سہولت کاری کا تھا دوسرا کیس دہشت گرد تنظیم کے فنڈ کے لئیے لائبییریا سمگلنگ کا تھا ان کیسز کے حوالے سے عدالت کو کوئی شواہد نہیں ملے اور
امریکی عدالت نے انہیں ان دونوں کیسز میں باعزت بری کردیا ۔امریکن پراسیکیوٹر نے عدالت میں واضح طور پر کہاہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے عافیہ پر کیسز سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہے یہ ہمارا کیس ہی نہیں ہے ۔
اب رہ جاتا ہے عافیہ صدیقی پر لگایا گیا یہ الزام کہ وہ امریکی فوجیوں
پر حملے کی مرتکب ہوئیں اسکو آپ اقدام قتل کا مقدمہ کہ سکتے ہیں جس میں کوئی زخمی نہیں ہوا اسکی زیادہ سے زیادہ سزا 10/12 سال تک بن سکتی ہے لیکن انہیں 86 سال قید کی سزا دی گئی جو صریحا ناقابل فہم ہے ۔
ایک اور معاملہ امریکی قانون میں درج 2255 موشن کا ہے جس کے مطابق اگر ایک ٹرائل
ختم ہوجائے اور ملزم کے خیال میں اس ٹرائل میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو وہ اس ٹرائل کے خلاف اپیل کرسکتا ہے اگر اس کی اپیل منظور ہوجائے تو یہ مقدمہ "مس ٹرائل" قرار دے دیا جاتا ہے اور پورا مقدمہ دوبارہ چلتا ہے اس کیس میں کئی ضابطگیاں ہوئی
تھیں چنانچہ عافیہ کی جانب سے 2255 موشن لائی گئی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس موشن کو سننے کیلیئے جو کیس بنا وہ بھی جج برمن کی عدالت میں لگا یہ وہی جج تھے جنہوں نے اصل مقدمہ سنا تھا یعنی جج برمن نے خود اپنے خلاف شکایت سننی تھی۔عافیہ کا موقف تھا کہ یہ جج بائسڈ ہے میں اس پر جج کی
حیثیت سے اعتماد نہیں کرتی عافیہ نے عدم اعتماد کی وجہ سے 2255 موشن
واپس لے لی اور یہ کیس ختم ہو گیا لیکن اس موقع پر جج نے عدالت میں ریمارکس دئیے کہ اگر عافیہ یہ کیس واپس نہ بھی لیتی اور یہ کیس چلتا تو بھی میں اس کیس کو ڈسمس کردیتا ۔صاف ظاہر ہےکہ جج کےساتھ کوئی مسئلہ تھا وہ عافیہ
سے کوئی رنجش لئیے بیٹھا تھا یا کسی پلان کا حصہ تھا یہ ریمارکس عدالتی کاروائی میں موجود ہیں اور کتاب میں ان ریمارکس کا ریفرنس موجود ہے
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔
ماضی کے مشہور , ہر دل عزیز اداکار افضال احمد انتقال فرما گئے ۔۔۔
اور ہمارے سوشل میڈیا کو انکی عبرت ناک بے کسی کی موت پہ ڈھنڈورا پیٹنے کا موقعہ مل گیا ۔ جبکہ حقیقی امر یہ ہے کہ
افضال احمد جو تماثیل تھیٹر کے بانی اور انتہائی امیر اور کھاتے پیتے
شخص تھے اکیس سال سے فالج کے مرض میں مبتلا رہے اور مرتے دم تک وہ شاہانہ زندگی ہی بسر کرتے رہے جی ہاں میں اسے شاہانہ زندگی ہی کہوں گی کہ فالج کے باوجود انہیں سنبھالنے والے انکے سگے اور ملازمین موجود تھے انکے ملازم انکو صاف ستھرا کر کے وہیل چئیر پہ باقاعدہ روازنہ ٹہلاتے تھے ۔۔
گھر میں انکی بہن باقاعدگی سے انکی دیکھ بھال کرتی تھیں مین رائے ونڈ روڈ پہ 0PF سوسائٹی کے عین سامنے دس بارہ کنال کا ان کا فارم ہاؤس جو سونے کے مول پہ ہے برابر میں تین چار کنال زمین انہوں نے ایک نرسری کو کرایہ پہ دے رکھی ہے ۔ تماثیل تھیٹر ہے جو انکا منیجر سنبھالتا ہے ۔
ٹرانس جینڈرز کے متعلق قانون: کس سیاسی پارٹی کا کتنا کردار رہا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(27 دسمبر 2021ء کی پوسٹ بطور نشرِ مکرر پیش کی جارہی ہے کیونکہ سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس قانون میں ترمیم کےلیے بل سینیٹ میں پیش کیا جس پر کل سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک بے ہودہ قانون ہے جس نے حقیقی طور پر مظلوم افراد کا استحصال کرکے، اور ان کا نام اور مظلومیت استعمال کرکے، ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کو قانونی جواز دینے کےلیے راستہ کھول دیا ہے۔ چند ہفتے قبل رفاہ یونیورسٹی کے ایک پروگرام کےلیے اس قانون پر کام کرتے ہوئے اس کی
قانون سازی کے مراحل پر بھی کچھ تحقیق کی، تو درج ذیل حقائق سامنے آئے:
1۔ اس موضوع پر قانون کے مختلف مسودے مختلف اوقات میں پیش ہوئے۔ موجودہ قانون جس مسودے پر مبنی ہے وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی براے انسانی حقوق نے منظور کیا تھا اور اس کمیٹی کے ریکارڈ کے مطابق اسے سینیٹ نے یہ معاملہ
یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ آپ اگر کسی کو کچھ ایسا کرتے دیکھیں جو آپ کو مزاجا نہیں پسند تو اس کو جاکر بتائیں ضرور کہ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ سوچیں یہ دنیا کیا ہوجایے اگر ہم میں سے ہر ایک ہر ایک کو جاکر اس کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بتاتا پھرے کہ یہ جو آپ کررہی/ریے ہیں، یہ
ہمیں تو نہیں پسند ۔۔
کوئی ویسے ہی کہے۔ مجھے سیاہ رنگ پسند ہے۔ آپ جاکر اپنا اختلاف نوٹ کروائیں۔
کوئی کہے ۔مجھے میک اپ کا شوق ہے۔ آپ کہیں ہمیں تو نہیں پسند
کوئی کہے ۔۔ میں ہیلز پہنتی ہوں۔ آپ ضرور جاکر بتائیں ۔۔ مجھے تو ہیلز سخت ناپسند ہیں۔
کوئی کہے میں سادہ رہنا پسند کرتی ہوں۔
آپ اسی وقت دلائل دیں ۔۔۔ کہ بناؤ سنگھار اخلاقی خوبی ہے۔
آپ جو کرتے ہیں ۔۔ آپ اپنے گھر میں کریں۔ اور جو نہیں کرتے اس کو بھی خود ہی نہ کریں۔ آپ کا مزاج اور آپ کا انتخاب ہے۔
ہاں اگر کسی اخلاقی خوبی یا خرابی کی بات ہو تو اچھے طریقے سے کہنا چاہیے۔ لیکن لوگوں کو پکڑ پکڑ کر
اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾
اصل میں لفظ صَمَد استعمال کیا گیا ہے جس کا مادہ ص ، م ، د ہے ۔ عربی زبان میں اس مادے سے جو الفاظ نکلے ہیں ان پر ایک نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے معانی کی وسعت کس قدر ہے: ۔
اَلصَّمدُ ۔ قصد کرنا ، بلند مقام جو بڑی ضخامت رکھتا ہو ،
سطح مرتفع ، وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ، وہ سردار جس کی طرف حاجات میں رجوع کیا جاتا ہو ۔
اَلصَّمَدُ ۔ ہر چیز کا بلند حصہ ، وہ شخس جس سے بالا تر کوئی دوسرا شخص نہ ہو ، وہ سردار جس کی اطاعت کی جاتی ہو اور اس کے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کیا جاتا ہو ،
وہ سردار جس کی طرف حاجتمند لوگ رجوع کرتے ہوں ، دائم ، بلند مرتبہ ، ٹھوس جس میں کوئی خول یا جھول نہ ہو ، اور جس سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو نہ اس میں داخل ہوسکتی ہو ،وہ آدمی جسے جنگ میں بھوک پیاس نہ لگتی ہو ۔
اَلمُصمَدُ ۔ ٹھوس چیز جس کا کوئی جوف نہ ہو ۔
سلف کی تفسیروں میں اختلاف کی نوعیت
۱۔ "مسمی کا بیان ایسی عبارت سے کر جاتے ہیں جو بعینہ ذات مسمی پر دلالت کرتی ہے، اگرچہ اس سے ایسی صفت کا اظہار بھی ہوتا ہے جو دوسرے اسم میں نہیں ہوتی"
مثلا صراط مستقیم کا معنی بعض نے قرآن پاک لیا ہے بعض نے اسلام، کسی نے طاعت اللہ و الرسول
یعنی اپنی اصل میں اس طرح تفسیر میں کوئی اختلاف نہیں ہے
۲۔ "ہر مفسر اسم عام کی کسی ایک نوع کا مثال کے طور پر تذکرہ کر دیتا ہے تا کہ سامع کا ذہن پوری نوع کی طرف منتقل ہو جائے"
مثلا کسی خاص روٹی کی طرف اشارہ کر کے تمام نوع کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے