جب آپ کے کسی دانت میں ناقابل برداشت درد شروع ہوجاتا ہے، علاج کے باوجود، راحت نہیں ملتی، تو صبر اور برداشت کی حد کو توڑتی درد کی ٹیسیں، آپ کی سوچ کو صرف ایک نقطے پر لا پھینکتی ہیں ، اور وہ سوچ، اذیت دینے والے اس دانت کو نکالنے کی ہوتی ہے، اور جب آخری علاج کے طور پر وہ دانت
👇
نکال دیا جاتا ہے، تو آپ کی زبان لاشعوری طور پر، ہر وقت، اس دانت کی جگہ بننے والے خلا کی طرف لپکتی ہے اور اس دانت کو تلاش کرتی ہے.
حقیقت میں زبان اس طاقتور مگر خوبصورت جذبے کی تابع ہوجاتی ہے جو بچھڑے ہوئے کی کمی کو محسوس کرتا ہے، اور اس سے منسوب چیزوں کو چھو کر اس کی موجودگی
👇
کا لمس تلاشتا ہے.
اس خالی پن کے عادی ہونے میں طویل وقت درکار ہوتا ہے، مگر وقت سب سے بڑا مرہم ہے، ایک دن آتا ہے کہ آپ اس خلا کے عادی ہو جاتے ہیں ، اور اس دانت کی کمی کو بھول جاتے ہیں .
لیکن پھر بھی کبھی کبھار یاد آئے تو آپ ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں: کیا میں نے اس
👇
دانت کو نکال کر ٹھیک کیا یا غلط ؟
تو آپ اپنے اندر سے جواب پائیں گے کہ: ہاں یہ درست فیصلہ تھا، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔
کیونکہ وہ دانت، ناقابل برداشت درد اور تکلیف کا باعث بن رہا تھا.
اور بالکل ٹھیک، اسی طرح ہماری زندگی میں کچھ لوگ ہوتے ہیں۔
کچھ حالات و واقعات آپ کو
👇
مجبور کردیتے ہیں، کہ ان کو اپنی زندگی کے منظر نامے سے ہٹا کر، خود سے دور کرکے، ان کے بغیر زندگی جینے کا ڈھنگ سیکھا جائے ، حالانکہ وہ لوگ اس سے پہلے آپ کی خوشی کا باعث بھی رہے ہوں گے.
یہ سچ ہے کہ ان کی جدائی، آپ کی زندگی میں نہ پُر ہونے والا خلا ضرور چھوڑ جائے گی ،
👇
لیکن اس خالی پن کے مقابلے میں، آپ مستقبل کے درد و الم اور رنج و غم سے نجات پا لیتے ہیں ، اور دھیرے دھیرے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی پرسکون ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
طوفان کی خبروں کے نیچے حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمہ سے منسوب مزاحیہ، توہین آمیز کومنٹس اور میمز لکھے دیکھے تو سوچا توہین رسالت پر جانیں لینے والی قوم کو بتایا جائے کہ یہ بابے کہہ کہہ کر جن کا مذاق اڑایا جاتا ہے یہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلہ وَسَلّم کے نواسے
👇
کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر ایک مائنڈ سیٹ بنا رہے ہیں کہ جی لوگوں کا حق نہ ماریں، انسانوں کو دھوکہ نہ دیں، پھر چاہے نماز پڑھیں نہ پڑھیں، حج کریں نہ کریں ،زکوٰۃ دیں نہ دیں، روزہ رکھیں نہ رکھیں
یہ اللہ کا اور آپ کا معاملہ ہے
یہ کمپین بڑے منظم انداز میں چلائی جاتی ہے
👇
پوری پوری کہانیاں لکھ دی جاتی ہیں کہ جی چوہدری صاحب چار لاکھ کا بیل لے آئے
اس سے بہتر تھا کسی غریب کی شادی کروا دیتے
فلاں عمرے پر چلا گیا، اس سے بہتر تھا کسی کی چھت پکی کروا دیتا
یہ لوگ آہستہ آہستہ آپ کو فرائض سے بیزار کر رہے ہیں
ہر نیک عمل کریں مگر اس کے لیے فرض نہ چھوڑیں
👇
"دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ"
یہ ہمارا دین کہتا ہے
اس میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی
تمام انسانوں میں نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ انسانوں پر مہربان کون تھا
مگر وہ رات رات بھر نماز پڑھا کرتے تھے کہ ان کے پیر سوج جاتے تھے
روزے بھی رکھتے تھے،
👇
صوفی تبسّم صاحب نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور استاد ان کا ایک اپنا مقام تھا.
ایک اور بہت کمال خوبی تھی جو ان کی تمام خوبیوں اور پہچانوں پر بھاری تھی کہ وه اپنے عزیزوں اور حلقہ احباب میں ایک بہت اچھے "برتاوے"
👇
یعنی بانٹنے والے کے طور پر مشہور تھے.
وه عزیز و اقارب کی بیٹیوں کی شادی میں جاتے تو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اس خوبی سے برتاتے کہ کبھی کھانے کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نہ رہتی. جتنے مرضی لوگ آ جائیں, اب گھر والوں کو کوئی فکر نہ ہوتی.
👇
صوفی صاحب بخوشی اس بار کو اٹھاتے اور پیش آمده مشکلات سے خود ہی نبردآزما ہوتے اور خود ہی حل نکالتے....
مشہور دانشور اور افسانہ نگار جناب اشفاق احمد نے ایک بار اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے پھیکی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جن دنوں وه گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے,
👇
لیلیٰ نے اپنا لنگر کھول رکھا تھا،
منگتے قطار در قطار آرہے تھے ، سوالی اپنی جھولی پھیلاتے لیلیٰ نوازتی جاتی ، عطا کرتی جاتی ،دیتی جاتی ،
اور رخصت کرتی جاتی،
اک قطار میں مجنوں بھی اپنا پیالہ لیے کسی سوالی کے پیچھے چھپ کے کھڑا ہوگیا، جب اس کی باری آئی ، لیلیٰ نے پہچان لیا،
👇
اور ہاتھ سے پیالہ جھٹک کر دیوار پہ دے مارا،سرخرو گدا اور منگتے لیلہ کا مجنوں سے یہ رویہ دیکھ کر تلملا اٹھے ، مجنوں پہ جملے کسنے لگے ،
تیری محبوبہ نے تجھے آج سرِ عام رسوا کردیا
مجنوں نے ذرا سب کو قریب کر کے پوچھا ذرا اپنا کشکول دِکھاؤ؟ سب اپنا اپنا بادہء گدائی میرے سامنے کرو،
👇
بتاؤ کس کس کا پیالہ خالی ہے ؟ سب نےاپنا اپنا کاسہ سامنے رکھا،بولے ہمارے تو بھرے ہوئے ہیں ،
مجنوں نے فوراًً کہا۔
ارے عقل کے اندھو!
اگر میرا بھی بھرا ہوتا ، تو بتاؤ تم میں اور مجھ میں فرق کیا رہ جاتا؟یہ بھی ادائے محبوب ہے ، کہ اس نے فرق روا رکھنے کے لئے تمہیں عطا کیا
👇
١٩٩٠ میں نائجیریا کے ایک معلم بھا محمد ابا نے اللہ کی مخلوق کو آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش میں ہزاروں سال پرانا ایک ایسا حیرت انگیز کم خرچ ریفریجریٹر دوبارہ سے تیار کر لیا جس سے پھل اور سبزیاں پندرہ سے بیس دن بغیر بجلی کے محفوظ رکھ سکتے ہیں
👇
بھا محمد ابا نے اپنے ذاتی وسائل سے پانچ ہزار ایسے ریفریجریٹر
بنا کر مفت تقسیم کئے جنہیں زیر پوٹ کہا جاتا ہے
٢٠٠١ میں ان کی اس شاندار دریافت کو ایک لاکھ ڈالر کا رولیکس ایوارڈ سے نوازا گیا اب تک افریقہ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں لاکھوں زیر پوٹ ریفریجریٹر تیار کئے جاچکے ہیں
👇
اس آسان ترین ریفریجریٹر میں پھل اور سبزیاں پندرہ سے بیس دن محفوظ رہ سکتے ہیں آپ بھی بآسانی اپنے لئیے اورگینک ریفریجریٹر گھر میں بنا سکتے ہیں
اس کے لئیے یہ سامان درکار ہے
"دو مٹی کے گملے اور کچھ ریت کاٹن یا جوٹ کا کپڑا"
گملوں میں ایک کا سائز بڑا ہو گا دوسرا اس سے دو انچ چھوٹا
👇
ایک عام سویلین کا ذہین ترین بچہ ایف ایس سی تک ہر گریڈ میں ٹاپو ٹاپ آتا ہوا ڈاکٹر یا انجینئر بنتا ہے؛ تھوڑا مارجن رہ جائے تو بعد میں سی ایس ایس کرتا ہے یا ایم بی اے اور آئی ٹی میں جاتا ہے جو سب سے نالائق ہوتا ہے وہ وکیل بنتا ہے اور سب سے کند ذہن کو
👇
مدرسے میں ڈال دیا جاتا ہے کہ دنیا میں تو اس نے کیا ہی کرنا ہے، حفظ کرکے ماں باپ کو جنت میں لے جائے گا۔
ایک فوجی آفیسر کا ذہین ترین بچہ ہارورڈ، این وائے یو یا وارٹن میں جاتا ہے؛ درمیانے گریڈز کا یونیورسٹی آف مشی گن یا اوہائیو اسٹیٹ جاتا ہے اور سب سے نکمے کو کوئی کرنل انکل
👇
آئی ایس ایس بی سے پاس کروا کر فوجی افسر بنا دیتا ہے۔
پھر یہ سویلین نالائق جج بنتے ہیں؛ نکمے فوجی افسر ملک کے ٹھیکیدار بنتے ہیں اور کند ذہن مولوی کو استعمال کرکے مذہب اور حب الوطنی کا سودا بیچتے ہوئے پورے ملک کی واٹ لگا دیتے ہیں؛ کبھی اسلام آباد بند کرتے ہیں اور انعام میں
👇