نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
👇
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
👇
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
طوفان کی خبروں کے نیچے حضرت عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمہ سے منسوب مزاحیہ، توہین آمیز کومنٹس اور میمز لکھے دیکھے تو سوچا توہین رسالت پر جانیں لینے والی قوم کو بتایا جائے کہ یہ بابے کہہ کہہ کر جن کا مذاق اڑایا جاتا ہے یہ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَآلہ وَسَلّم کے نواسے
👇
کچھ لوگ ایسے ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر ایک مائنڈ سیٹ بنا رہے ہیں کہ جی لوگوں کا حق نہ ماریں، انسانوں کو دھوکہ نہ دیں، پھر چاہے نماز پڑھیں نہ پڑھیں، حج کریں نہ کریں ،زکوٰۃ دیں نہ دیں، روزہ رکھیں نہ رکھیں
یہ اللہ کا اور آپ کا معاملہ ہے
یہ کمپین بڑے منظم انداز میں چلائی جاتی ہے
👇
پوری پوری کہانیاں لکھ دی جاتی ہیں کہ جی چوہدری صاحب چار لاکھ کا بیل لے آئے
اس سے بہتر تھا کسی غریب کی شادی کروا دیتے
فلاں عمرے پر چلا گیا، اس سے بہتر تھا کسی کی چھت پکی کروا دیتا
یہ لوگ آہستہ آہستہ آپ کو فرائض سے بیزار کر رہے ہیں
ہر نیک عمل کریں مگر اس کے لیے فرض نہ چھوڑیں
👇
"دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ"
یہ ہمارا دین کہتا ہے
اس میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی
تمام انسانوں میں نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ انسانوں پر مہربان کون تھا
مگر وہ رات رات بھر نماز پڑھا کرتے تھے کہ ان کے پیر سوج جاتے تھے
روزے بھی رکھتے تھے،
👇
جب آپ کے کسی دانت میں ناقابل برداشت درد شروع ہوجاتا ہے، علاج کے باوجود، راحت نہیں ملتی، تو صبر اور برداشت کی حد کو توڑتی درد کی ٹیسیں، آپ کی سوچ کو صرف ایک نقطے پر لا پھینکتی ہیں ، اور وہ سوچ، اذیت دینے والے اس دانت کو نکالنے کی ہوتی ہے، اور جب آخری علاج کے طور پر وہ دانت
👇
نکال دیا جاتا ہے، تو آپ کی زبان لاشعوری طور پر، ہر وقت، اس دانت کی جگہ بننے والے خلا کی طرف لپکتی ہے اور اس دانت کو تلاش کرتی ہے.
حقیقت میں زبان اس طاقتور مگر خوبصورت جذبے کی تابع ہوجاتی ہے جو بچھڑے ہوئے کی کمی کو محسوس کرتا ہے، اور اس سے منسوب چیزوں کو چھو کر اس کی موجودگی
👇
کا لمس تلاشتا ہے.
اس خالی پن کے عادی ہونے میں طویل وقت درکار ہوتا ہے، مگر وقت سب سے بڑا مرہم ہے، ایک دن آتا ہے کہ آپ اس خلا کے عادی ہو جاتے ہیں ، اور اس دانت کی کمی کو بھول جاتے ہیں .
لیکن پھر بھی کبھی کبھار یاد آئے تو آپ ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں: کیا میں نے اس
👇
صوفی تبسّم صاحب نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور استاد ان کا ایک اپنا مقام تھا.
ایک اور بہت کمال خوبی تھی جو ان کی تمام خوبیوں اور پہچانوں پر بھاری تھی کہ وه اپنے عزیزوں اور حلقہ احباب میں ایک بہت اچھے "برتاوے"
👇
یعنی بانٹنے والے کے طور پر مشہور تھے.
وه عزیز و اقارب کی بیٹیوں کی شادی میں جاتے تو مہمانوں کو کھانا کھلانے کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور اس خوبی سے برتاتے کہ کبھی کھانے کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نہ رہتی. جتنے مرضی لوگ آ جائیں, اب گھر والوں کو کوئی فکر نہ ہوتی.
👇
صوفی صاحب بخوشی اس بار کو اٹھاتے اور پیش آمده مشکلات سے خود ہی نبردآزما ہوتے اور خود ہی حل نکالتے....
مشہور دانشور اور افسانہ نگار جناب اشفاق احمد نے ایک بار اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے پھیکی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ جن دنوں وه گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم تھے,
👇
لیلیٰ نے اپنا لنگر کھول رکھا تھا،
منگتے قطار در قطار آرہے تھے ، سوالی اپنی جھولی پھیلاتے لیلیٰ نوازتی جاتی ، عطا کرتی جاتی ،دیتی جاتی ،
اور رخصت کرتی جاتی،
اک قطار میں مجنوں بھی اپنا پیالہ لیے کسی سوالی کے پیچھے چھپ کے کھڑا ہوگیا، جب اس کی باری آئی ، لیلیٰ نے پہچان لیا،
👇
اور ہاتھ سے پیالہ جھٹک کر دیوار پہ دے مارا،سرخرو گدا اور منگتے لیلہ کا مجنوں سے یہ رویہ دیکھ کر تلملا اٹھے ، مجنوں پہ جملے کسنے لگے ،
تیری محبوبہ نے تجھے آج سرِ عام رسوا کردیا
مجنوں نے ذرا سب کو قریب کر کے پوچھا ذرا اپنا کشکول دِکھاؤ؟ سب اپنا اپنا بادہء گدائی میرے سامنے کرو،
👇
بتاؤ کس کس کا پیالہ خالی ہے ؟ سب نےاپنا اپنا کاسہ سامنے رکھا،بولے ہمارے تو بھرے ہوئے ہیں ،
مجنوں نے فوراًً کہا۔
ارے عقل کے اندھو!
اگر میرا بھی بھرا ہوتا ، تو بتاؤ تم میں اور مجھ میں فرق کیا رہ جاتا؟یہ بھی ادائے محبوب ہے ، کہ اس نے فرق روا رکھنے کے لئے تمہیں عطا کیا
👇