⚡️Faisal🤺 Profile picture
Kritik güvenlik Pakistan Dan beri 2010 🇵🇰🇹🇷 غزوہ ہند مبارک ہو۔
Nov 26 6 tweets 16 min read
روح بلالی
خطبات جمہ سید زید زمان حامد
خطبه ۱۸

پاکستان: دارالاسلام، دار الا من یا دار الکفر

آج آپ کو ایک حیرت انگیز واقعہ سناتے ہیں مسلمانوں کے ادب کا مسلمانوں کے لحاظ کا ، ہمارے دین کی روح کا ، ہمارے دین کے مزاج کا۔

مکہ ایک کا فر ریاست تھی۔
وہاں مشرکین کی حکومت تھی ۔
جب سیدی رسول اللہ ﷺ نے دین اسلام کی اذان دینا شروع کی تو بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے ۔
اس اذان کو پھیلنے سے روکنے کیلئے مشرکین مکہ نے سیدی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگی تنگ کردی ، تو سیدی رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ اس دار الکفر سے ہجرت کر کے حبشہ چلے جائیں ، وہاں آپ کو امن ملے گا۔
حبشہ کو آج ایتھوپیا کہتے ہیں۔
یعنی آپ ﷺ نے صحابہ کو دارالکفر سے ہجرت کر کے دارالامن چلے جانے کا حکم فرمایا۔
حبشہ کا ملک اور وہاں کا بادشاہ عیسائی تھے۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت گئی اور جا کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پناہ لے لی۔ بادشاہ نجاشی گو کہ خود عیسائی تھے، مگر انہوں نے جب مسلمانوں سے قرآن پاک کی سورہ مریم کی تلاوت سنی اور مسلمانوں کا اخلاق اور کردار دیکھا تو انہوں نے مسلمانوں کو پناہ دے دی۔

اب مسلمان مشرکین مکہ کے ظلم سے بیچ کر حبشہ کے اس دار الامن میں عافیت سے رہنے لگے ۔
آہستہ آہستہ سیدی ﷺ نے بہت سارے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب روانہ کیا اور حبشہ مسلمانوں کے لیے ایک امن کی جگہ بن گیا۔
نجاشی بادشاہ کا جب انتقال ہوا تو سیدی رسول اللہ ﷺ نے ان کے احسان کا بدلہ اس طرح عطا فرمایا کہ آپ ﷺ نے خود نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور جس کی نماز جنازہ سیدی ﷺ اور صحابہ کرام نے پڑھی ہو اس کا مطلب ہے کہ اس کی مغفرت ہو گئی۔
اس کے لیے سیدی ﷺ نے دعائے خیر فرمائی۔Image
Image
سیدی رسول اللہ ﷺ نے اس بادشاہ کے احسان کا بدلہ یہ عطا فرمایا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تھا۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔
فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین بھی ہوئی۔
جزیرہ نما عرب کے کونے کونے تک مسلمان فوجیں گئیں اور یمن تک اسلام پھیل گیا۔ مسلمانوں کے مختلف اقوام سے تصادم ہوئے ، مگر حبشہ کی طرف کبھی مسلمان افواج نہیں گئیں ۔
پھر سیدی رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد جب خلافت راشدہ کا دور آیا تو مسلمانوں نے پوری رومی اور ایرانی سلطنتوں کو فتح کر لیا، مگر اس وقت بھی طاقت ہونے کے باوجود کبھی حبشہ کی جانب کوئی فوج نہیں بھیجی۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں مسلمان تقریبا پورا شمالی افریقہ فتح کر چکے تھے۔
اس کے بعد بنوامیہ کی حکومت آئی۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کی حکومت چین سے لے کر تقریبا اندلس تک پھیلی ہوئی تھی۔ مسلمان پوری دنیا فتح کرتے پھر رہے تھے۔
ہر جگہ مسلمان افواج داخل ہو رہی تھیں۔
مگر بنوامیہ نے بھی حبشہ کے خلاف کوئی فوج نہیں بھیجی۔

اس کے بعد بنو عباس آگئے ۔
خلیفہ ہارون الرشید کے واقعات تو آپ نے سنے اور پڑھے ہیں۔
اتنی بڑی سلطنت اس وقت دنیا میں کسی کی نہیں تھی جتنی خلافت عباسیہ کی تھی۔
چین سے لے کر یورپ کی سرحدوں تک اور اوپر ترکی کے جنوب سے لے کر نیچے جزیرہ نما عرب اور افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس کے باوجود خلافت عباسیہ نے بھی حبشہ کے خلاف ایک بھی فوجی مہم روانہ نہیں کی ، اس لحاظ میں کہ نجاشی بادشاہ نے سیدی رسول اللہ ﷺ کے مہمانوں کو پناہ دی تھی۔

تقریباً 900 سال کے بعد 1529 میں افریقہ کی مسلمان سلطنت آرال نے ایتھوپیا پر حملہ کیا تھا مگر وہ جنگ بھی بغیر کسی جگہ پر قبضہ کیے ختم کر دی گئی۔

ایتھوپیا کی بادشاہت انسانی تاریخ کی سب سے طویل اور تسلسل سے جاری رہنے والی بادشاہتوں میں سے ایک ہے۔
ایتھوپیا کی بادشاہت 1975 تک قائم رہی۔
اس کا آخری بادشاہ ہائگی سلامی تھا۔
ایتھوپیا میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں 1974 میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کہنے کو اس کے بعد ایک سال تک اس کے بیٹے امہا سلامی نے ایتھوپیا پر حکومت کی۔
اس کے بعد ایتھوپیا میں بادشاہت مکمل طور پر ختم ہوگئی۔
مگر یہ سب ان کے داخلی معاملات و واقعات کے نتیجے میں ہوا، مسلمانوں کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔
ملکہ الزبتھ اور اس کا شوہر شہزادہ فلپس تک جا کر ہائکی سلامی اور اس کی بیوی کے سامنے جھکا کرتے تھے۔
یہ دنیا میں کسی کے آگے نہیں جھکتے تھے لیکن یہ ہائکی سلامی اور اس کی بیوی کے آگے جا کر جھکتے تھے کہ یہ دنیا کے سب سے پرانے شاہی خاندانوں میں سے تھے اور سینکڑوں سالوں سے حکومت کر رہے تھے۔Image
Image
Nov 11 6 tweets 15 min read
روح بلالی
خطبات جمہ سید زید زمان حامد
خطبہ ۱۶
الکاسب حبيب الله

موجودہ دور میں معاشی آزادی و غلامی

جس طرح ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی و مذہبی طور پر آزاد ہو ، اسی طرح ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ معاشی طور پر بھی آزاد ہو۔
چاہے مسلمان ریاست ہو یا فرد، اگر وہ معاشی طور پر آزاد نہیں ہے تو وہ اللہ کے دین پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔
جو ہمیشہ محتاج اور مجبور رہے گا، وہ ہمیشہ دوسروں کی شرائط کا غلام رہے گا ۔ اسی طرح آج کل تو میں تباہ ہوتی ہیں اور اسی طرح ہماری قوم کو بھی غلام بنایا گیا ہے۔
آج پاکستان میں دشمن کی فوجیں تو نہیں ہیں لیکن معاشی طور پر پاکستان کو انہوں نے غلام بنا رکھا ہے ۔
ہمارے سٹیٹ بینک کو آئی ۔ ایم ۔ ایف اور غیر ملکی طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں۔
وہ طے کرتی ہیں کہ پاکستان کا ایک مسلمان کتنے پیسے گھر لے کر جائے گا، کتنا ٹیکس ادا کرے گا، کیا کھائے گا، کیا پہنے گا، کیا خریدے گا۔۔۔
ایک ایک مزدور کی حد تک یہ فیصلے اب غیر ملکی طاقتیں کرتی ہیں، کیونکہ ہم اپنی معاشی آزادی کی حفاظت نہیں کر سکے۔ جہاں تک حکومتوں اور ریاستوں کا تعلق ہے، اس پر ہم دوبارہ کبھی بات کریں گے، آج ہم اس ہم مسلمان فرد کی معاشی آزادی پر بات کرتے ہیں۔

سیدی رسول اللہ ﷺ نے امت کو جہاں زندگی گزارنے کے دیگر آداب سکھائے ہیں اور ان کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے، وہیں پر آپ نے مسلمانوں کو سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ معاشی طور پر اپنے آپ کو آزاد رکھیں ۔ درجنوں احادیث مبارکہ ہیں جو مسلمانوں کو معاشی طور پر آزاد ہونے کے طریقے بتاتی ہیں، جبکہ کفر کا نظام اس کے بالکل الٹ سکھاتا ہے۔
ہم صرف چند ایک احادیث مبارکہ کا حوالہ دیں گے اور مفہوم سمجھائیں گے۔
سیدی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی ، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے۔
اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کھایا کرتے تھے "۔ ایک تابعی کا مشہور قول ہے : " رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ مویشیوں کے بیوپار میں ہے"۔Image
Image
آپ احادیث مبارکہ اٹھا کر دیکھئے شاید ہی کہیں نوکری تلاش کرنے کا ذکر ملتا ہو۔
تمام احادیث مبارکہ مسلمانوں کو حکم دے رہی ہیں اور ان کی توجہ اس بات کی طرف دلا رہی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو معاشی طور پر آزاد کریں، کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
ایک اور حدیث شریف میں نبی ﷺ نے فرمایا ، " بخدا! یہ بات بہت بہتر ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی رہی پکڑے لکڑیاں باندھے اور اپنی پیٹھ پر لاد کر اسے بیچے اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی خود کھائے یا صدقہ کر دے، بہ نسبت اس کے کہ کسی ایسے آدمی کے پاس جائے جسے اللہ نے اپنے فضل سے مال اور دولت عطاء فرما رکھی ہو اور اس سے جا کر سوال کرے، اس کی مرضی ہے کہ اسے کچھ دے یا نہ دے، کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔"

نوکری میں بھی آپ یہی کرتے ہیں کہ ہر جگہ نوکری کی درخواست بھیج رہے ہوتے ہیں کہ مجھے کام دے دو۔
کہیں ملتا ہے، کہیں نہیں ملتا۔
کہیں پر نوکری کی درخواست منظور ہوجاتی ہے کہیں نہیں ہوتی۔
سیدی ﷺ ہمیں کیا کم فرما رہے ہیں کہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد کر لاؤ اور بازار میں بیچو، بہ نسبت اس بات کے کہ تم لوگوں کے پاس جا جا کر کام مانگتے پھرو۔
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں ۔
ان میں سے اکثریت کے ہم نام تک نہیں جانتے۔
صرف اٹھائیں نبی ہیں جن کے نام ہم جانتے ہیں اور ان کے واقعات بھی محدود ہیں، مگر یہ بات معلوم ہے کہ ان تمام انبیاء نے اپنے ہاتھ سے کام کیا۔
وہ ہنر سیکھتے بھی تھے اور سکھاتے بھی تھے۔
حضرت آدم علیہ السلام کسان تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام عظیم الشان بادشاہت رکھنے کے باوجود مس گر یعنی تانبے کا کام کرتے تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں تو سیدی رسول اللہ ﷺ نے خود فرما دیا کہ آپ لوہار تھے۔
آپ تلواریں ، زریں اور دیگر جنگی ہتھیار بناتے تھے۔
آج کے زمانے کے حساب سے بات کی جائے تو بلٹ پروف آرمر بناتے تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی ساز تھے۔ اس لیے آپ کو کشتی بنانے کی ڈیوٹی بھی دی گئی۔
حضرت عیسی علیہ السلام بڑھئی تھے آپ لکڑی کا کام کرتے تھے۔
حضرت اور لیس علیہ السلام درزی تھے، سوئی آپ نے ایجاد کی تھی۔
وہ بھی اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے

سیدی رسول اللہ ﷺ نے بچپن سے ہی ، بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ تجارت کے سفر کا آغاز کیا۔
پھر آپ ﷺ جوان ہو کر بی بی خدیجہ کے لیے تجارت کیا کرتے تھے۔
بی بی خدیجہ مالدار تاجر خاتون تھیں اور ان کی جانب سے تجارت سیدی رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ اللہ ﷺ بی بی خدیجہ کا مال تجارت لے کر گئے ، جب واپس آئے تو لوگوں نے آپ ﷺ کی ایمانداری کی بہت تعریفImage
Image
Nov 5 4 tweets 11 min read
روح بلالی
خطبات جمعہ سید زید زمان حامد

ٹک ٹاک نسل اور آنے والی آزمائشیں

سید نا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ایک قول ہے
جس میں آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کی تربیت اس زمانے کے لیے کرو جس میں انہوں نے بڑا ہونا ہے اور زندگی گزارنی ہے۔
سیدنا علی کے اس قول کو ذہن میں رکھتے ہوئے آج اگر ہم اپنے معاشرے اور ماحول کو دیکھتے ہیں تو یقین کریں ہم پر خوف طاری ہو جاتا ہے۔
آج پوری دنیا میں جو تباہیاں بچ رہی ہیں، جو جنگوں پر جنگیں مسلمان ممالک پر مسلط ہورہی ہیں، غزہ کا جو حال ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو مجھے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ یہ ہماری قوم اور ہماری آنے والی نسل ان مشکل حالات کے لیے تیار ہے؟

صاحب نظر یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ وہ نسل جو آج پچیس سال سے کم عمر ہے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ زندگی کے پچاس برس مکمل کرے گی ۔
ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں اتنی کمزور نسل پہلے کبھی نہیں آئی جواب آئی ہے۔

یہ کون سی محبت ہے اپنے بچوں سے ، یہ کون سی انویسٹمنٹ ہے جو ہم اپنی آنے والی نسلوں پر کر رہے ہیں کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آنے والے وقتوں کی مشکلات اور آزمائشوں کا یہ مقابلہ ہی نہیں کر سکیں گے۔

سیدی رسول اللہ ﷺ نے تو اپنی احادیث شریف میں پوری امت کے لیے ایک عمومی حکم فرمایا ہے کہ اپنے بچوں کو تیراندازی، گھڑ سواری اور تیرا کی سکھاؤ۔
ان احادیث کا مفہوم ہے کہ اپنے بچوں کو تم ٹیکٹیکل تربیت دو، ایک سپاہی بناؤ، مشکل وقت کے مشکل حالات کے لیے جفاکش اور مضبوط مجاہد بناؤ کہ ہر دور میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی عزت اور آبرو کے دفاع کے لیے جنگیں کرنا پڑتی ہیں ۔
ہر دور میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی خوراک اگانے کے لیے کھیتی باڑی اور جفاکشی کرنا پڑتی ہے، ہر دور میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کو زمانے کے حوادث سے مقابلہ کرنے کے لیے ہجرت کرنا پڑتی ہے۔Image
Image
ہم سے پچھلی نسل نے پاکستان بنایا تھا، ہجرت کی تھی۔
وہ ہندوں کے نرغے میں سے نکل کر آئے تھے۔ لاکھوں مسلمان ان کی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوئے تھے۔
انہوں نے ہجرت بھی دیکھی ہے، شہادتیں بھی دیکھی ہیں، جان و مال اور عزت کی قربانیاں بھی دی ہیں۔
لہذا انہیں پاکستان کی قدر تھی ۔
جو میری نسل ہے وہ پاکستان بننے کے بعد پیدا ہوئی لیکن اس نسل کی تربیت ان لوگوں نے کی جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا۔ ہمارے والدین نے ہمیں بتایا تھا کہ کیسے ہندوستان سے مسلمانوں سے بھری ایک ٹرین چلتی تھی اور پاکستان صرف لاشیں ہی پہنچتی تھیں۔
کس طرح مسلمان بچیاں اپنی عزتیں بچانے کے لیے کنوؤں میں کو دجایا کرتی تھیں، یہاں تک کہ کنویں ان کی لاشوں سے اتنے بھر جاتے تھے کہ مزید کسی کے ڈوبنے کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔
چالیس، پچاس لاکھ اس راہ میں کٹ گئے اور چالیس پچاس لاکھ نے ہجرت کی ۔
ان آزمائشوں سے گزر کر ہمارے بڑوں نے پاکستان بنایا۔
اس نسل نے سختیاں دیکھی تھیں۔
وہ تھوڑے میں گزارا کرنے والے تھے۔
لٹے پٹے پہنچے تھے، ان کے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔
پاکستان آکر انہوں نے انتہائی غربت میں گزارا کیا
میں نے اپنے والدین کو دیکھا ہے کہ گھروں میں آٹے کے ڈبے الٹ دیے جاتے تھے، کہ تھوڑا سا آٹا مل جائے تو بچوں کے لیے روٹی بنا لیں ۔
یہ سختیاں ہم نے دیکھی ہیں۔
ہمارے والدین نے آکر یہاں پر مشکل وقت میں زندگی شروع کی ۔
جب نہ موبائل فون تھے، نہ انٹرنیٹ تھا، نہ ٹیلی ویژن تھا اور نہ ہی ٹیلی فون سخت زندگی تھی مگر اس سخت زندگی نے ہمیں جفاکش بنا دیا۔
جب ہم جوان ہوئے اور ہمارے بچے جب بڑے ہونا شروع ہوئے تو اس وقت اللہ نے اس معاشرے کو آسودگی دے دی تھی۔
پاکستان تھوڑا خوشحال ہو گیا تھا۔
ہم نے اپنے بچوں کو آسائش اور آرام میں پالنا شروع کیا۔
ہمارے بچوں کے پاس گاڑیاں بھی تھیں، ہمارے بچوں کے پاس موبائل فون بھی تھے، گھر میں ٹیلی ویژن بھی تھا، انٹرنیٹ بھی آنا شروع ہو گیا تھا، ایئر کنڈیشنرز بھی لگ گئے تھے۔
ہمارے بچوں کی نسل کی نشونما کمزور بنیادوں پر ہوئی ۔
وہ ذہنی و جسمانی طور پر اس قابل نہیں تھے کہ مشکل حالات کا سامنا کر سکتے ۔
ان لوگوں کی عمریں 90-80 سال ہوا کرتی تھیں ۔
اور آج حال یہ ہے کہ آج کی بیس سال کے نوجوان کی جسمانی طاقت اس دور کے اس سال کے بزرگ سے بھی کم ہے۔
پھر سن دو ہزار کے بعد جو نسل پیدا ہوئی، جو آج چوبیس پچیس سال کے ہیں اور پاکستان کی چالیس پچاس فیصد آبادی ہے، یہ نسل تو صرف عیاشیوں اور آسائشوں میں بڑی ہوئی ہے۔
اس کو جو سہولتیں ، آسانیاں ، آرام اور نرمی میسر ہے ہمارے بڑوں اور ہم نے تو یہ خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔
ان کے اپنے پرائیویٹ بیڈ رومز ہیں، ان کے لیے الگ ایئر کنڈیشنر ز ہیں ، ان کے اپنے لیپ ٹاپ ہیں ، ان کے اپنے موبائل فونز ہیں، ان کی اپنی گاڑیاں ہیں ۔۔۔
انہوں نے کبھی زندگی میں مشقت کی ہی نہیں
آج پاکستان کی نوجوان آبادی اپنا ستر فیصد وقت موبائل فون پر گزارتی ہے۔
اس نسل نے نہ بزرگوں کی صحبت دیکھی ہے، نہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں اور نہ اس نے مشکل وقت کا سامنا کیا ہے ۔
آج تیسں سال کا ایک نوجوان مجھے ملا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ زندگی میں تم نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں؟
کہتا ہے کہ میں نے زندگی میں ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔
اعداد وشمار یہاں پہنچ چکے ہیں کہ پوری دنیاImage
Image