RH Riaz Profile picture
میرا پرانا اکاونٹ 42k والا ہیک ہو گیا ھے دوستوں سے فالو کرنے کی درخواست

Mar 17, 2022, 9 tweets

ستمبر1977میں ذولفقار علی بھٹو کو گرفتار کیاگیا تو پیپلزپارٹی کےوکلاء نےلاہور ھائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر اس درخواست کو سننےکیلئے کوئی بھی جج تیار نہیں تھا کوئی بھی جنرل ضیاء کی ناراضگی مول لینےکیلئے تیار نہیں تھا تب اس مرد مجاہد جسٹس کے ایم اے صمدانی نے
👇1/8

اس کیس کی سماعت کی اور بھٹو کی احمد رضا قصوری کےقتل کے الزام میں گرفتاری پر ضمانت منظور کرلی اور یہ بات جنرل ضیاءالحق کو بہت بری لگی کیونکہ کہ ضیاءالحق کےدباؤ کےباوجود انہوں نےضمانت دے دی اور بھٹو کو آزاد کر دیا مگر تین دن کے بعد فوج نے بھٹو کو پھر لاڑکانہ سےگرفتار کرلیا
👇2/8

جسٹس کے ایم اے صمدانی لاہور ہائے کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور وہ چیف جسٹس بننے والے تھے مگر ضیاءالحق نے ان کو عدالت سے نکال کر وفاقی لاء سیکریٹری بنا دیا اور مولوی مشتاق کو لاہور ہائے کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا
ایک دن جنرل ضیاءالحق نے وفاقی سیکرٹریوں کا اجلاس طلب کیا جس میں
👇3/8

جسٹس کے ایم اے صمدانی لاہور ہائے کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور وہ چیف جسٹس بننے والے تھے مگر ضیاءالحق نے ان کو عدالت سے نکال کر وفاقی لاء سیکریٹری بنا دیا اور مولوی مشتاق کو لاہور ہائے کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا
ایک دن جنرل ضیاءالحق نے وفاقی سیکرٹریوں کا اجلاس طلب کیا جس میں
👇3/8

جسٹس صمدانی بھی لاء سیکرٹری کے طور اس اجلاس میں موجود تھے

جنرل ضیاءالحق ڈکٹیٹر نےتمام سیکرٹریوں کو دباؤ میں لانےکیلئےکہا کہ آپ لوگ سدھر جائیں ورنہ میں آپکی پینٹ اتار دونگا سول بیوروکریٹ نے یہ سنتےہی ایک دوسرے کے چہرےدیکھنے شروع کردیئے اس دھمکی آمیز رویے پر چپ سادھ لی
👇4/8

تب اس مرد مجاہد جسٹس نے ضیاءالحق سے مخاطب کرتے کہا کہ آپ نے اپنے کتنے جنرلز کی پیٹیں اتاری ہیں ؟ پہلے اپنے جنرلز کی پتلونیں اتاریں ہم خوبخود اپنی پتلونیں اتار دیں گے جسٹس کے ایم اے صمدانی کے ایسے الفاظوں نے ضیاءالحق کو برہم کردیا اور وہ اجلاس ملتوی کرکے غصےسے اٹھ کر چلےگئے
👇5/8

جب سب وفاقی سیکرٹری جانےلگے تو جنرل ضیاءکےاسٹاف آفیسر میجر جنرل خالد محمود عارف(کے ایم عارف ) نےجسٹس صاحب سے کہا کہ ضیاءالحق آپ سے ملنا چاہتے ہیں جسٹس صمدانی جب ضیاءالحق کے کمرے میں گئے تو ضیاءالحق نے کہا کہ آپ نے اجلاس کے دوران غلط کیا اس پر معذرت کریں تو جسٹس صمدانی نے
👇6/8

برجستہ جواب دیا کہ میں معذرت کرنے کیلئے تیار ہوں مگر اپ دوبارہ اجلاس بلائیں تو میں اپنے الفاظوں پر معذرت کروں گا ایسا بولتے ہی جسٹس وہاں سے چلے گئے ۔ کچھ عرصے کے بعد 1981 میں اس شرط پر عدلیہ بھیج دیا کہ تم کو پی سی او کے تحت حلف لینا ہے مگر انہوں نے
👇7/8

پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کردیا اور اپنے گھر آگئے تاریخ جسٹس کے ایم اے صمدانی کو سنہرے الفاظ میں آج بھی یاد کرتی ہے.
بشکریہ 👈نثار نندوانی
End
فالو اور شیئر کر یں 🙏

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling