RH Riaz Profile picture
میرا پرانا اکاونٹ 42k والا ہیک ہو گیا ھے دوستوں سے فالو کرنے کی درخواست

Nov 7, 2022, 13 tweets

#مادر_محترم
ویڈیو دیکھیں
انگریزوں نےجب قلات پرقبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی 1947میں قیام پاکستان کےوقت گوادر سلطنت عمان کاحصہ تھا
پاکستان نےاپنےقیام
کیبعد گوادر کی بازیابی کیلئےآواز اٹھائی1949میں اس مسئلےکےحل کیلئے مذاکرات بھی ہوئےجو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوئے
👇1/12

ادھر شہنشاہ ایران گوادر کو ایران میں شامل کرنے اور اسے چاہ بہار کی بندرگاہ کے ساتھ ملا کر توسیع دینے کے خواہش مند تھے۔ ان کی اس خواہش کی پشت پناہی امریکی سی آئی اے کر رہی تھی۔

سنہ 1956 میں جب فیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا اور
👇2/12

اسے ہر صورت میں حل کرنےکا فیصلہ کیا
انھوں نےیہ مشن #وقارالنسا_نون کو سونپ دیا،جنھوں نےانتہائی محنت کےساتھ یہ مسئلہ حکومت برطانیہ کےسامنے پیش کیا۔ انھوں نے گوادر پر پاکستانی استحقاق کے حوالے سے برطانوی حکومت اور پارلیمانی حلقوں میں زبردست مہم چلائی۔

اس سلسلے میں انھوں نے
👇3/12

چرچل سےبھی ملاقات کی اور برطانیہ کےہاؤس آف لارڈز یعنی ایوان بالا میں بھی پاکستان کی بھرپور لابیئنگ کی اور یہ مؤقف پیش کیا کہ گوادر قلات خاندان کی جاگیر تھا جو اب پاکستان میں شامل ہے لہٰذا قلات کی اس جاگیر کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہوناچاہیے

وقار النسا نون نے
👇4/12

یہ جنگ تلوار کی بجائےمحض قلم، دلائل اور گفت و شنید کی مدد سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم ہیرالڈ میکملن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آٹھ ستمبر 1958 کو گوادر کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسی روز آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سےگوادر اور اسکے نواحی علاقوں
👇5/12

کا نظم و نسق سنبھال لیا۔

ایک ماہ بعد اکتوبر 1958میں ملک میں مارشل لا کےنفاذ کیساتھ ہی فیروز خان نون کی وزارت عظمی کا خاتمہ ہوگیا
بیگم وقار النسا نون کی سماجی فلاحی خدمات کا سلسلہ جاری رہا
وہ ایک طویل عرصےتک پاکستان ریڈکراس سوسائٹی اور سینٹ جان ایمبولینس کی چیئرپرسن رہیں
👇6/12

وہ قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن رہیں۔ 1978 میں جنرل ضیا الحق نےانھیں مشیر کے عہدے پر فائزکیا اور وزیر مملکت برائےسیاحت مقرر کیا

1979 میں انھوں نے پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھالا
👇7/12

انھوں نےپاکستان میں یوتھ ہاسٹلز کےقیام اور ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔1987 میں انھیں پرتگال میں پاکستان کا سفیر مقرر کیاگیا، اس منصب پر وہ دو سال فائز رہیں۔بیگم وقار النسا نون کئی غیرسرکاری تنظیموں کی بھی روح و رواں رہیں جن میں سینیئر سٹیزن فاؤنڈیشن، وائلڈ لائف فنڈ
👇8/12

اور انگلش سپیکنگ یونین کے نام سرفہرست ہیں۔

بیگم وقار النسا نون نے اپنے دورۂ روس کی یادداشتوں کو سفرنامے کی شکل بھی دی۔ انھیں متعدد ملکی اور بین الاقوامی اعزازات بھی ملے۔23 مارچ 1958 کو گوادر کو پاکستان میں شامل کروانےکی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرنے پر حکومت پاکستان نے
👇9/12

انھیں نشان امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز 'مادر مہربان' کا خطاب تھا جو انھیں پاکستانی عوام نےعطا کیا تھا

ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے اپنی کتاب 'تنہائیاں بولتی ہیں' میں لکھا ہے کہ 'یورپ میں پیدا ہونے والی اس عظیم خاتون نے جب ایک پاکستانی سے ناتا جوڑا
👇10/13

تو اپنا تن من دھن سب اس پر اسکی قوم پر قربان کردیا
انھوں نےکبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا
سر نون کی وفات کیبعد بھی اپنا جینا مرنا اپنےشوہر کےوطن
کیساتھ وابستہ رکھا
بیگم وقار النسا کی اپنی اولاد نہیں تھی لیکن وہ فیروزخان نون کی پہلی اہلیہ کےبیٹوں کو سگی اولاد کیطرح چاہتی تھیں
👇11/13

وہ بھی انکا احترام سگی ماں
کیطرح کرتےتھے۔سر نون بھی
انسے بےکراں محبت کرتےتھے
لاہورمیں انھوں نےاپنی وسیع و عریض کوٹھی کا نام #الوقار رکھا
وقار النسا نون نےعورتوں،بچوں غریبوں کی امداد کو تاعمر اپنا وظیفہ بنائےرکھا

انھیں اپنے شوہر کی جائیداد کی آمدنی سےجو حصہ ملتا
👇12/13

وہ بھی بھلائی کےکاموں میں لگا دیتیں
انھوں نےکیمبرج اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں میں پاکستانی طالب علموں کیلئے دو وظائف بھی مقرر کر رکھےتھے

بیگم وقار النسا نون سنہ2000 میں16جنوری کو اسلام آباد میں وفات پا گئیں، جہاں انھیں ایچ 8 کےقبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا
#مادر_محترم_سلام
End🙋‍♀️

Share this Scrolly Tale with your friends.

A Scrolly Tale is a new way to read Twitter threads with a more visually immersive experience.
Discover more beautiful Scrolly Tales like this.

Keep scrolling