#مادر_محترم
ویڈیو دیکھیں
انگریزوں نےجب قلات پرقبضہ کیا تو یہ صورتحال بدستور قائم رہی 1947میں قیام پاکستان کےوقت گوادر سلطنت عمان کاحصہ تھا
پاکستان نےاپنےقیام
کیبعد گوادر کی بازیابی کیلئےآواز اٹھائی1949میں اس مسئلےکےحل کیلئے مذاکرات بھی ہوئےجو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوئے
👇1/12
ادھر شہنشاہ ایران گوادر کو ایران میں شامل کرنے اور اسے چاہ بہار کی بندرگاہ کے ساتھ ملا کر توسیع دینے کے خواہش مند تھے۔ ان کی اس خواہش کی پشت پناہی امریکی سی آئی اے کر رہی تھی۔
سنہ 1956 میں جب فیروز خان نون پاکستان کے وزیر خارجہ بنے تو انھوں نے یہ مسئلہ دوبارہ زندہ کیا اور
👇2/12
اسے ہر صورت میں حل کرنےکا فیصلہ کیا
انھوں نےیہ مشن #وقارالنسا_نون کو سونپ دیا،جنھوں نےانتہائی محنت کےساتھ یہ مسئلہ حکومت برطانیہ کےسامنے پیش کیا۔ انھوں نے گوادر پر پاکستانی استحقاق کے حوالے سے برطانوی حکومت اور پارلیمانی حلقوں میں زبردست مہم چلائی۔
اس سلسلے میں انھوں نے
👇3/12
چرچل سےبھی ملاقات کی اور برطانیہ کےہاؤس آف لارڈز یعنی ایوان بالا میں بھی پاکستان کی بھرپور لابیئنگ کی اور یہ مؤقف پیش کیا کہ گوادر قلات خاندان کی جاگیر تھا جو اب پاکستان میں شامل ہے لہٰذا قلات کی اس جاگیر کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہوناچاہیے
وقار النسا نون نے
👇4/12
یہ جنگ تلوار کی بجائےمحض قلم، دلائل اور گفت و شنید کی مدد سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم ہیرالڈ میکملن نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آٹھ ستمبر 1958 کو گوادر کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اسی روز آغا عبدالحمید نے صدر پاکستان کے نمائندہ کی حیثیت سےگوادر اور اسکے نواحی علاقوں
👇5/12
کا نظم و نسق سنبھال لیا۔
ایک ماہ بعد اکتوبر 1958میں ملک میں مارشل لا کےنفاذ کیساتھ ہی فیروز خان نون کی وزارت عظمی کا خاتمہ ہوگیا
بیگم وقار النسا نون کی سماجی فلاحی خدمات کا سلسلہ جاری رہا
وہ ایک طویل عرصےتک پاکستان ریڈکراس سوسائٹی اور سینٹ جان ایمبولینس کی چیئرپرسن رہیں
👇6/12
وہ قائداعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکن رہیں۔ 1978 میں جنرل ضیا الحق نےانھیں مشیر کے عہدے پر فائزکیا اور وزیر مملکت برائےسیاحت مقرر کیا
1979 میں انھوں نے پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی چیئرپرسن کا عہدہ سنبھالا
👇7/12
انھوں نےپاکستان میں یوتھ ہاسٹلز کےقیام اور ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔1987 میں انھیں پرتگال میں پاکستان کا سفیر مقرر کیاگیا، اس منصب پر وہ دو سال فائز رہیں۔بیگم وقار النسا نون کئی غیرسرکاری تنظیموں کی بھی روح و رواں رہیں جن میں سینیئر سٹیزن فاؤنڈیشن، وائلڈ لائف فنڈ
👇8/12
اور انگلش سپیکنگ یونین کے نام سرفہرست ہیں۔
بیگم وقار النسا نون نے اپنے دورۂ روس کی یادداشتوں کو سفرنامے کی شکل بھی دی۔ انھیں متعدد ملکی اور بین الاقوامی اعزازات بھی ملے۔23 مارچ 1958 کو گوادر کو پاکستان میں شامل کروانےکی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرنے پر حکومت پاکستان نے
👇9/12
انھیں نشان امتیاز کے اعزاز سے سرفراز کیا۔ مگر ان کا سب سے بڑا اعزاز 'مادر مہربان' کا خطاب تھا جو انھیں پاکستانی عوام نےعطا کیا تھا
ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے اپنی کتاب 'تنہائیاں بولتی ہیں' میں لکھا ہے کہ 'یورپ میں پیدا ہونے والی اس عظیم خاتون نے جب ایک پاکستانی سے ناتا جوڑا
👇10/13
تو اپنا تن من دھن سب اس پر اسکی قوم پر قربان کردیا
انھوں نےکبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا
سر نون کی وفات کیبعد بھی اپنا جینا مرنا اپنےشوہر کےوطن
کیساتھ وابستہ رکھا
بیگم وقار النسا کی اپنی اولاد نہیں تھی لیکن وہ فیروزخان نون کی پہلی اہلیہ کےبیٹوں کو سگی اولاد کیطرح چاہتی تھیں
👇11/13
وہ بھی انکا احترام سگی ماں
کیطرح کرتےتھے۔سر نون بھی
انسے بےکراں محبت کرتےتھے
لاہورمیں انھوں نےاپنی وسیع و عریض کوٹھی کا نام #الوقار رکھا
وقار النسا نون نےعورتوں،بچوں غریبوں کی امداد کو تاعمر اپنا وظیفہ بنائےرکھا
انھیں اپنے شوہر کی جائیداد کی آمدنی سےجو حصہ ملتا
👇12/13
وہ بھی بھلائی کےکاموں میں لگا دیتیں
انھوں نےکیمبرج اور آکسفرڈ یونیورسٹیوں میں پاکستانی طالب علموں کیلئے دو وظائف بھی مقرر کر رکھےتھے
بیگم وقار النسا نون سنہ2000 میں16جنوری کو اسلام آباد میں وفات پا گئیں، جہاں انھیں ایچ 8 کےقبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا #مادر_محترم_سلام
End🙋♀️
• • •
Missing some Tweet in this thread? You can try to
force a refresh
یہ جو اچانک پنجاب میں کھربوں کی کرپشن کی باتیں شروع ہو گئی ہیں
یہ بلا وجہ نہیں ہیں
پنجاب میں جس تیزی کیساتھ ترقی ہونا شروع ہوئی ہے
ایسی کارکردگی کو پاکستان میں کبھی اچھا نہی سمجھا گیا
جب بھی کوئی لیڈر پنجاب میں کارکردگی دکھاتاھے
اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی
👇1/16
بجنا شروع ہو جاتی ہیں
کیونکہ پنجاب میں مقبولیت کا مطلب وزارت عظمیٰ کی کرسی کیطرف پیش رفت لیا جاتا ہے
عمران کے دور میں عثمان بزدار کو وزیراعلی بھی اسی وجہ سے بنایا گیا تھا
کہ اگر علیم خان یا کسی دوسرے ایکٹو بندے کو بنا دیا جاتا
تو خود عمران کیلئے خطرہ پیدا ہو جاتا۔
حالیہ
👇2/16
الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جیت کے باوجود جب نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے
تو اس سے ظاہر ہو گیا تھا کہ
نوازشریف کو روکنے کا جو پلان دو دہائیوں سے چلا آ رہا تھا
وہ اب بھی چل رہا تھا۔
مسلم لیگ ن کا دوسرا نام
نوازشریف ہی تھا
تو مجبوراً انکے بھائی کو وزیراعظم اور انکی بیٹی کو
👇3/16
گزشتہ شب پاسدارانِ انقلاب نے بندرگاہ چابہار کے مضافات میں واقع ایک گودام پر چھاپہ مارا۔ اس گودام میں #موساد کیلئےکام کرنے والا وہ نیٹ ورک سرگرم تھا جسکی سرگرمیوں کا کھوج ایرانی سائبر یونٹ نے کئی دنوں کی مسلسل الیکٹرانک نگرانی کے بعد لگایا تھا
👇1/14
چھاپے میں 141 ایجنٹ گرفتار ہوئ
#بھارتی121
20 اسرائیلی
سامانِ ضبط میں خفیہ سیٹلائٹ فونز
بائننس والیٹ کی یک صفحاتی لاگ اور وہ ہارڈ ڈرائیو شامل تھی جس نے پوری کہانی کو بلوچستان تک کھینچ لایا
تفتیشی ٹیم کو ہارڈ ڈرائیو میں Project Gidon-Esha نامی پریزنٹیشن ملی
سلائیڈ نمبر 3 پر
👇2/14
گوادر پورٹ
پنجگور، اور مند کے اوپر سرخ دائرے بنے تھے
نیچے کیپشن BLA Remote Relay Nodes ۔ اگلی سلائیڈ Node-K7 Karachi کو RAW کے drop-box کے طور پر ظاہر کرتی تھی، جہاں سے اسمگل شدہ فنڈز اور بارودی مواد BYC
اور BLA کئلئے بلوچستان بھیجے جاتےتھے
یہی وہ لنک تھا جس نے ایرانی
👇3/14
حالیہ جنگ کا پس منظر دہائیوں پر پھیلا ہوا ضرور ہے
تاہم زیادہ پرانی بات نہیں
جب ایران، اسرائیل کے شراکت دار کےطور پرخطے میں پہچاناجاتا تھا
16 جون 2025 کو اسرائیلی شہر حیفہ میں ایک مقام سے دھواں اٹھ رہاھے
جہاں ایرانی میزائلوں کی
👇1/25
تازہ بیراج داغی گئی
ایران اور اسرائیل ہمیشہ سے دشمن نہیں تھے
حالیہ جنگ کا پس منظر دہائیوں پر پھیلا ہوا ضرور ہے
تاہم زیادہ پرانی بات نہیں
جب ایران، اسرائیل کے شراکت دار کے طور پر خطے میں پہچانا جاتا تھا
تیل کی فروخت سے دفاعی تعاون تک دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر
👇2/25
کرتے تھے۔
مشترکہ تہذیبی وراثت کےاظہار کیلئے ایک دوسرے کے ہاں ثقافتی طائفے بھی بھیجے جاتےتھے
ایران ترکی کے بعد دوسرا اسلامی ملک تھا
جہاں اسرائیل کا سفارت خانہ موجود تھا
شاہ ایران سمجھتےتھےکہ امریکہ کی خوشنودی اسرائیل کےساتھ دوستی سے مشروط ھے
دہائیوں پہلے مشرقِ وسطیٰ میں
👇3/25
#فیلڈ_مارشل_سید_عاصم_منیر کی واشنگٹن میں موجودگی اسرائیل ایران تناؤ کےدوران عالمی قیادت سے موثر رابطےکےمواقع
چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سرکاری دورے پر اسوقت امریکہ میں ہیں
چیف آف آرمی سٹاف کا واشنگٹن کا یہ دورہ جو کئی ماہ پہلے سے طےتھا
اب جغرافیائی طور پر
👇1/10
ایک انتہائی اہم وقت پر ہو رہاھے
واشنگٹن میں انکی موجودگی
کےدوران ہی مشرق وسطی میں ایک نئی صورتحال سامنا آئی ہے
جب مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کیجانب سےایران پر بلاجواز جارحیت نےخطےبلکہ دنیا کےامن کو خطرات سے دوچار کردیا ہے
اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ واشنگٹن
👇2/10
مزید اہمیت اختیارکرچکاھے
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واشنگٹن میں موجودگی
ایک موقع ہےکہ وہ خطےکے
اہم معاملات
جیسےاسرائیلی جارحیت اور
اسکےخطےپر ممکنہ اثرات
کو براہِ راست امریکی قیادت
کیساتھ زیرِبحث لائیں
اسوقت واشنگٹن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی موجودگی نہ صرف پاکستان
👇3/10
#ایران_کا_کردار_تایخ_کے_اوراق_میں
جب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست حملوں کا تبادلہ ہوا ہے
اسلامی دنیا میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں
کئی لوگ حیران ہیں کہ وہ ایران، جسے ہم اکثر اسرائیل کا خاموش حلیف سمجھتے تھے
آخر اب کھلے عام اسکے خلاف محاذ پر کیوں آ گیا؟
👇1/18
اور جب ایران نےجوابی کارروائی کی
تو بہت سےدلوں میں یہ احساس جاگا
شاید ایران واقعی امتِ مسلمہ
کےدرد کا درماں ہے
بعض لوگ ایران کو اسلامی دنیا کا ہیرو سمجھنےلگےہیں
وہ ہیرو
جو فلسطین کیلئےبولتاھے
جو مزاحمت کو زندہ رکھتاھے
جو حزب اللہ جیسے گروہوں کے ذریعے اسرائیل کو للکارتاھے
👇2/18
یہ سوال بھی ابھر رہاھے
کہ وہ کارنامہ جو طاقتور اسلامی ممالک نہ کر سکے
ایران نے کر دکھایا
بغیر کسی عالمی حمایت کے
وہ اسرائیل کے خلاف نہ صرف آواز بلند کر رہا ہے
بلکہ میدانِ عمل میں بھی قدم رکھ رہاھے
لیکن کیا حقیقت صرف یہی ہے؟ کیا ایران واقعی امتِ مسلمہ کا نجات دہندہ ہے؟
👇3/18