آٹھ ماہ یعنی دو سو چالیس دن۔۔ یعنی پانچ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے۔۔ یعنی تین لاکھ پینتالیس ہزار چھے سو منٹ۔۔
پانچ فٹ چوڑائی اور آٹھ فٹ لمبائی کی ایک کوٹھڑی ہوتی ہے جس میں لمبائی کی طرف دو فٹ جگہ کموڈ اور نہانے دھونے کے لیے ایک الگ کی ہوئی ہوتی ہے۔۔
سنگلاخ فرش اور سونے کے لیے نہایت پتلا گدا اور اوڑھنے کے لیے اتنی پتلی رضائی کہ روشنی آسانی سے اس کے آر پار ہو سکتی ہے۔۔
سردیوں میں نہانے دھونے کا پانی شدید ٹھنڈا اور گرمیوں میں شدید گرم۔۔ ہر تیسرے چوتھے دن نہانا لازمی ہے۔۔
مسواک دو ماہ بعد دی جاتی ہے۔۔ ہفتے میں ایک بار نہانے کا صابن اور دو ہفتے بعد بال صفاء کریم دی جاتی ہے۔۔
قیدی کو گاہے بگاہے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی ناکردہ جرم قبول کرے یا کسی بھی اور شخص کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائے
ہر کچھ عرچہ بعد قیدی کو ننگا کرکے اس کی ہر طرف سے تصاویر بنائی جاتی ہیں۔۔
قیدی کو ہر دو ہفتے بعد قیدیوں والا لباس ملتا ہے اور میلا لباس قیدی کو خود دھونا پڑتا ہے۔۔
قیدیوں کو اگر قرآن دیے جائیں تو وہ بھی دیوبندی علماء کی تفسیر والے قرآن ہوتے ہیں۔۔
مہینے ڈیڑھ بعد باربر آتا ہے جو قیدی کے بال چھوٹے چھوٹے کاٹ دیتا ہے جو ہر طرف سے ایک سے ہوتے ہیں یعنی دیوبندی مدرسے کے طلباء کی طرح۔۔
کوٹھڑی سے انویسٹیگیشن روم تک دس پندرہ میٹر یا کہیں دور باہر لے جانے کے لیے قیدی کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے، سر اور چہرے پر کالا غلاف اوڑھایا جاتا ہے،
اس ساری سیچوئیشن اور سارے وقت میں جو سب سے بڑی پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے وہ یہ کہ نہ قیدی کو اپنی فیملی کا علم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا وہ کن حالات میں ہیں
تاکہ اپنے حقوق مانگنے والوں کی آواز دبائی جا سکے، تاکہ انسانی حقوق اور مساوات کی بات کرنے والوں کو ڈرایا دبایا جا سکے، تاکہ معاشرے مین خوف پھیلایا جاسکے۔۔
(شاہجہان سالِف)