منہ پر طمانچے مارتا تھا دست_موج سے
دبیر
پر دختر_امیر_عرب ننگے سر نہ ہو
دبیر
اک چشمہ خیمہ گاہ میں اس وقت تک رہا
پینے دیا کسی کو، نہ خود شاہ نے پیا
دھویا کفن کو، غسل کیا اور وضو کیا
نہر_بہشت بہر_طہارت خود آئی تھی
گویا رسول زادے کے گھر میں خدائی تھی
دبیر
زینب کو سب قبول ہے، لیکن حسین ہو
دبیر
لو باغیو وہ باغ بہاری نظر آئی
فوج_ خرد و ہوش فراری نظر آئی
ہستی نے کہا موت ہماری نظر آئی
سکتے میں وہ سب لشکر_کفار کھڑا تھا
کفار تو کیا کفر بھی بےہوش پڑا تھا
جس شیر نے شیروں سے سدا پنجہ کیا ہے
جنگاہ میں آج اس نے قدم رنجہ کیا ہے
دبیر
حیدر کے مخالف نہ ادھر کے نہ ادھر کے
دبیر
سائے نے کیا گھیر کے سب کو زبر و زیر
چلائے جلا کر وہ لعیں مشعل_شمشیر
اندھیر ہے، اندھیر ہے، اندھیر ہے اندھیر
یہ کہتی تھی بھولے گی نہ بیداد تمہاری
چلائو، میں سنتی نہیں فریاد تمہاری
دبیر
یہ شمس بےزوال، یہ گل بےخزاں رہے
لشکر رہے، حسین رہے، یہ نشاں رہے
اس حامل_علم پہ علی کی اماں رہے
روشن رہے قمر شہ_ بدر و حنین کا
وہ خاک میں ملے جو ہو دشمن حسین کا
دبیر
تنہائی پر حسین کی، تنہائی روتی تھی
بجلی کے سر پہ رعد گرا چیخ مار کے
---------------------
غل تھا کہ دھوپ دیکھنے کو سب ترستے ہیں
چھایا ہے ابر_تیغ_علی، سر برستے ہیں
دبیر
سر پاؤں پہ گرتے تھے کہ آگے نہ بڑھو تم
اس باغ میں تو چار طرف لوٹ پڑی ہے
لو شیروں کے شیر آئے، دلیروں کے دلیر آئے
ہشیار اجل سے ہو، خبردار قضا سے
شمشیر بکف آتے ہیں حیدر کے نواسے
سر تیغوں سے، دل. جنگ سے، رخ رن سے بھرے تھے
دو شیروں میں نو لاکھ وہ روباہ گھرے تھے
سقہ حرم کا شام کے طوفاں میں گھِر گیا
تفسیرِ نورِ خالقِ غفار مٹتی ہے
لشکر کے بعد شکلِ علمدار مٹتی ہے
شیعوں کے بادشاہ کی سرکار مٹتی ہے
افسوس، جس کی مادرِ بیوہ وطن میں ہے
باری اب اس جوان کے مرنے کی رن میں ہے
بجلی کے سر پہ رعد گرا چیخ مار کے
غل تھا کہ دھوپ دیکھنے کو سب ترستے ہیں
چھایا ہے ابرِ تیغِ علی، سر برستے ہیں