تم ہو اور شام و سحر ایک تبسم ہے ابھی
_________
یہ تبسم کی سپر کام نہیں آ سکتی
راہ پر گردش_ ایام نہیں آ سکتی
عزیز حامد مدنی
بجلیاں خون میں ساکت لیے بےتاب لیے
اک کف_پا میں کئی رقص کے گرداب لیے
کوئی محفل میں ابھی رقص کناں ملتا ہے
ایک صیاد_غم_عمر_رواں ملتا ہے
عزیز حامد مدنی
کتنے اوہام کے اصنام ہیں معبود ابھی
کس قدر زیست کا پیغام ہے محدود ابھی
میتیں کتنے ارادوں کی مجھے روز ملیں
روح_ سقراط کی سوگند ارسطو کی قسم
درس گاہوں کی فضائوں میں اندھیرے وہ ملے
جن میں آزادی_افکار کی کلیاں نہ کھلیں
عزیز حامد مدنی
کچھ ضیاء اپنے تبسم کی عنایت کر دے
عزیز حامد مدنی
نگاہ سوز شراروں کا ایک مبہم رقص
فسردہ شمعوں کو آواز دے کے تیز ہوا
نکل ہی آئے ہیں زنداں سے چند زندانی
ہزار یادوں کو ہے فرصت_پرافشانی
وہ در کہ جن کی نگہباں تھی دل کی ویرانی
بڑھا کے ہاتھ، خموشی نے آج کھول دیے
عزیز حامد مدنی
مضمحل، سوگوار ہوتی ہے
گفتگو آج ہمنشینوں کی
دل_ نازک پہ بار ہوتی ہے
موسم_گل کے خواب ختم ہوئے
خاک_دل شعلہ بار ہوتی ہے
میرا دامن سلگ رہا ہے یہاں
خاک کا ڈھیر لگ رہا ہے یہاں
عزیز حامد مدنی
بےزبانی پکارتی ہے ابھی
وہ جوا کھیلتا ہے وقت کا ہاتھ
زندگی روز ہارتی ہے ابھی
کس جواری کی اب کے ہے باری
اے جھلکتے سراب_غم خواری
عزیز حامد مدنی
خواب بوجھل ہیں روح پیاسی ہے
جام و مینا میں سسکیاں غلطاں
ساز و بربط سے اٹھ رہا ہے دھواں
راکھ کا ڈھیر آتش_جذبات
آگہی مدفن_جہان_ حیات
عزیز حامد مدنی
وہ یاد جس سے عبارت ہے زندگی تیری
وجود اس کا مری جان، زہر خند ہوا
عزیز حامد مدنی
دل کہ اک دشمن_آداب_ستم ہے، چپ ہے
عزیز حامد مدنی
اک پنہ ڈھونڈھی تھی،دنیا کے جنوں زاروں میں
پا گئے تھے مرے برگشتہ خیال
اک حسیں جسم کے گہوارے میں
ایک مسکن کہ جہاں غم کا نشاں بھی نہ ملے
اک مدت سے مگر نیم عیاں بھی نہ ملے
وہ شرارے جو ستاروں پہ ہنسا کرتے تھے
عزیز حامد مدنی
حسن ہارے ہوئے شاطر کی کوئی آخری چال
اس میں ہر ہاتھ کی خامی نے پناہیں ڈھونڈیں
کس کے ہاتھوں نے بنا ہے یہ شب و روز کا جال؟
کس کے ہاتھوں نے بنا ہے یہ شب و روز کا جال؟
اس کے پردوں میں ہیں راز غم_انساں کیا کیا
یہ مہ و سال سے لپٹے ہوئے قحط و آلام
اف یہ دنیا یہ کفن چور خدائوں کا نظام
ہم جدھر جائیں اک آسیب صدا دیتا ہے
اک نہ اک حلقہ_زنجیر بڑھا دیتا ہے
جرم و عصیاں کی اس آوارہ نگاہی پہ ہنسیں
صبح تک رات کی پر ہول سیاہی پہ ہنسیں
اور اک زندہ حقیقت کے پرستار بنیں
زندگی جرم ابھی تک ہے خطاکار بنیں
-------
اور اک زہر کا جام، ایک صلیب اور سہی
آج سقراط و مسیحا کا نصیب اور سہی
عزیز حامد مدنی
وہ ہوا جو شوق کا رخ ہی بدل دے، تیز ہے
عزیز حامد مدنی
ابھی تک شعلہ_آواز کو روپوش رکھا ہے
---
وہی ہیں حاشیے پر شہر کے دو چار قندیلیں
اندھیرے کے فسوں سے نقش بر دیوار قندیلیں
شب_تاریک کے بستر پہ یہ بیمار قندیلیں
پتنگوں کی جگر سوزی کو جو انجام دیتی ہیں
لگن کی خاک سے لیکن خراج_نور لیتی ہیں
صبا چلتی ہے کتنے پھول دیواروں کے کھلتے ہیں
سیہ محضر می اب تک رنگ رخساروں کے کھلتے ہیں
جو تیرے جسم کے اسلوب سے ہم اخذ کرتے ہیں
خیالوں سے وہ سایے صبح ہونے تک گزرتے ہیں
چمک اٹھتی ہیں کلیاں درد کی وہ نالہ_شب ہے
نہ پوچھ اے دوست کس منزل پہ دل کا قافلہ اب ہے
سحر کی لاگ، چشم_خوں فشاں تھی، نارسائی تک
پہنچنے ہی کو ہے دست_جنوں، دست_حنائی تک
عزیز حامد مدنی
چھائوں غم کی دراز ہونے لگی
گردش_وقت، شعلہ_دل کو
راکھ کے ڈھیر میں سمونے لگی
شوق کے مہر و ماہ زرد ہوئے
اک جہنم کی آگ تھی جن میں
وہ بھی ذرات دل کے سرد ہوئے
کھو گیا دشت کے بگولوں میں
برق کی جست و خیز جذب ہوئی
منتشر خواب کے ہیولوں میں
سر سے سودائے سر گیا اے دوست
دامن_دل کو جیسے چھوتا ہوا
کوئی جھونکا گزر گیا اے دوست
معتبر اک نفس نہیں ہوتا
مرگ_موسم کا اک تسلسل ہے
وقت پر کوئی بس نہیں ہوتا
خستگی حاصل_سفر ہے آج
چارہ سازی کے اور ہیں آداب
درد کی دھار تیز تر ہے آج
آنسوئوں سے مہک سی آتی ہے
طنز کرتے ہیں بند دروازے
گرد چوکھٹ کی مسکراتی ہے
اب نہ تو ہے نہ تیرا داماں ہے
رائگاں ہو گئی متاع_وفا
زندگی کو تلاش_عنواں ہے
دل الجھتا ہے نکتہ چینوں سے
آدمی کو پرکھ سکے نہ کبھی
دیکھنے والے خوربینوں سے
کس قدر دردناک منظر ہے
غم گساروں نے راستے بدلے
سنگ_طفلاں ہے اور مرا سر ہے
عزیز حامد مدنی
تیر جوڑے ہوئے غنیموں کی
چار سو خندکوں میں روپوشی
درد کے سیل_بےپناہ میں ہے
ہر جری ایک رزم گاہ میں ہے
ایک ذوق_طلب سے جلتا ہے
سینہ_زندگی کا زخم ابھی
سبب_بےسبب سے جلتا ہے
قصہ_زخم و اندمال نہ پوچھ
جنگ جاری ہے ہم خیال نہ پوچھ
عزیز حامد مدنی
تیزچل راستہ بدل کےذرا
کروٹیں لےرہےہیں لیل و نہار
رخ_صحرا پہ آندھیاں ہیں ہزار
اک جفائےسموم کےمارے
بجھ گئےآسمان کےتارے
ریگ_صحرا کی ضرب ہےکاری
جل گئی پیاس سےزباں ساری
سارباں،غم گسار،محرم_راز
سخت کافر ہوا کےہیں انداز
روئےلیلی'پہ گرد آنےلگی
راہ کےموڑ پہ سنبھل کےذرا
تم سےتو کسی بات کا پردا بھی نہیں تھا
اب حسن پہ خود اس کا تصور بھی گراں ہے
پہلےتو گراں خواب_زلیخابھی نہیں تھا
پہلےمری وحشت کےیہ انداز بھی کم تھے
پہلےمجھےاندازہ_صحرا بھی نہیں تھا
اچھا تو مروت ہی ترا بوسہ لب ہے
اچھا یہ کوئی دل کا تقاضا بھی نہیں تھا
ہر اک پہ سہل آداب_مےکشی بھی نہیں
ادھر ادھر سےحدیث_غم_جہاں کہہ کر
تری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
بکھر کےحسن_جہاں کا نظام کیا ہو گا
یہ برہمی تری زلفوں کی برہمی بھی نہیں
شکست_ساغر و مینا کو خاک روتا میں
گراں ابھی مرےدل کی شکستگی بھی نہیں
وہ چشم_ناز کہ جو جاگتوں میں تھی بھی نہیں
یہ زندگی بھی تلون مزاج ہے اے دوست
تمام ترک_وفا تیری بےرخی بھی نہیں
تعلقات_زمانہ کی اک کڑی کے سوا
کچھ اور یہ ترا پیمان_دوستی بھی نہیں
عزیز حامد مدنی
چاک در چاک گریباں کو سنوارے ہوئے لوگ
یہ بھی کیا رنگ ہے اے نرگس_خواب آلودہ
شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ
خوں ہوا دل کہ پشیمان_صداقت ہے وفا
خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ
یہ رسن بستہ صلیبوں سے اتارے ہوئے لوگ
اے حریفان_غم_گردش_ایام، آئو
ایک ہی غول کے ہم لوگ ہیں ہارے ہوئے لوگ
ان کو اے نرم ہوا، خواب_جنوں سے نہ جگا
رات مےخانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ
عزیز حامد مدنی
میرے سینے میں وہ پہلے سے اتر آئی ہے
کس سے کہیے کہ عبادت گہ_ ارباب_ نظر
سنگ_ طفلاں ہے کہ زخم_ سر_ سودائی ہے
اس شب_تار میں مستوں کا سبو بھی ہے چراغ
رات اک شعلہ_ آفاق چرا لائی ہے
عزیز حامد مدنی
ہم ایک حلقہ_ وحشت اثر میں ہوتے ہیں
کھلا یہ دل پہ کہ تعمیر_ بام و در ہے فریب
بگولے قالب_ دیوار و در میں ہوتے ہیں
طلسم_ خواب_ زلیخا و دام_ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
عزیز حامد مدنی
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
غم_ حیات و غم_ دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا
کہ پر شکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
گئے تو کیا تری بزم_ خیال سے بھی گئے
چراغ_ بزم ابھی جان_ انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو ترے خط و خال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
سمجھتی ہے کہ موسم کے ستم ہوتے ہی رہتے ہیں
مرا چاک_ گریباں چاک_ دل سے ملنے والا ہے
مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں
عزیز حامد مدنی
مگر یہ بات کہ وہ بھی ہے آدمی آخر
وہی ہیں گیسوئے جاناں کے خم وہی ہم ہیں
وہی ہے کش مکش_ ربط_ باہمی آخر
عزیز حامد مدنی
رکھی تھی درد نے بنیاد_کاوش_درماں
مسافروں کو فقط سایہ_ درخت ملا
ہزار باب_کرم صد ہزار پرسش_جاں
ترے نثار رویے نہیں بدلتے ہیں
ہزار کوس کی منزل ہو درمیاں مری جاں
عزیز حامد مدنی
چلتے رہیں گے چند سبو دم کیے ہوئے
کل شب سے کچھ خیال مجھے بت کدے کا ہے
سنتا ہوں اک چراغ جلا، رت جگے ہوئے
میں بھی تو ایک صبح کا تارہ ہوں تیز رو
آپ اپنی روشنی میں اکیلے چلے ہوئے
عزیز حامد مدنی
قمیص_ یوسف_ کنعاں کھلے تو بات چلے
طلسم_شیوہ_یاراں کھلا تو کچھ نہ ہوا
کبھی یہ حبس_ دل و جاں کھلے تو بات چلے
سفر ہے اور ستاروں کا اک بیاباں ہے
مسافروں سے بیاباں کھلے تو بات چلے
عزیز حامد مدنی
چلو آئو ہم بھی نکلیں __ بہ لباس_ سوگواراں
بہ فسون_روئے لیلی' بہ عذاب_ جان_ مجنوں
وہی حسن_دشت و در ہے بہ طواف_ جاں نثاراں
غم_کارواں کا آخر کوئی رخ نہ اس سے چھوٹا
وہ حدیث کہہ گئی ہے یہ ہوائے رہ گزاراں
عزیز حامد مدنی
کوئی خواب_ہم کناری شب_خواب_ بےقراراں
سر_کشت_غیر کیا کیا یہ گھٹا برس رہی ہے
کوئی ہم سے آ کے پوچھے اثر_ دعائے باراں
وہ شکست_ خواب_ محفل وہ ہوا کے چار جھونکے
لگی دل پہ تیر بن کر دم_صبح_ یاد_ یاراں
عزیز حامد مدنی
ایک رَم خوردہ ستارے کی ضیا کے مانند
چارہ گر عاجز و تقریبِ عیادت موقوف
درد نے کام کیا آج دوا کے مانند
بت کدے میں بھی کوئی ہو گا خدا کے مانند
دیکھ اس راہ میں اے زلفِ گرہ گیر نگار
اور بھی شوخ ہوائیں ہیں صبا کے مانند
عزیز حامد مدنی
ساقی کوئی پیالۂ مے، آتشیں بہت
دو گز زمیں فریبِ وطن کےلیے ملی
ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت
ایسی ہوا میں گھر سے نکلنے کی جا نہ تھی
ورنہ تمہاری بات کا آتا یقیں بہت
عزیز حامد مدنی
کل بہت یاد حریفانِ کہن آئی ہے
سرکشی کا بھی اک انداز ہے اے پائے جنوں
اب مرے پاؤں میں زنجیرِ وطن آئی ہے
عزیز حامد مدنی
روایتیں جو عبارت تھیں جام و مینا سے
انہیں بھی گردشِ پرکارِ آرزو جانو
وہ دائرے جو کھنچے میری لغزشِ پا سے
اک گرفتارِ بلا کو لاکھ سمجھایا کرو
ہم سفر برحق مگر اِک جائے رشکِ غیر ہے
آدمی کم بخت کوئی معتبر لایا کرو
عزیز حامد مدنی
وہ تری زباں پہ بھی آ گیا تو لگن ہی جی کی بکھر گئی
وہ زبانِ سرمدِ بے دلیل وہ خراشِ خنجرِ حکمراں
کوئی امتحانِ دلیل کیا کہ دلوں میں بات اتر گئی
عزیز حامد مدنی
کہاں کہاں سے گزرنا پڑا ہے کیا کہیے
اسی کی راہ گزر پیچ پیچ آتی ہے
کہیں سے قصۂ عمرِ گریز پا کہیے
عزیز حامد مدنی
وہ زلف کھل گئی تو ہواؤں کے خم گئے
وحشت سی اک لالۂ خونیں کفن سے تھی
اب کے بہار آئی تو سمجھو کہ ہم گئے
ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنانِ شہر
دریا محبتوں کے جو بہتے تھے، تھم گئے
عزیز حامد مدنی
ہوا کی زد میں آخر بے سِپر رکھنا خیالوں کو
کھڑی ہے تاج پہنے شہر میں خارِ مغیلاں کا
جوابِ تازہ دینے زندگی کہنہ سوالوں کو
عزیز حامد مدنی
اب داد طلب وحشتِ جاں ہے کہ نہیں ہے
ویسے تو محبت میں بھی جی کا زیاں ہے
بے دورِ محبت بھی زیاں ہے کہ نہیں ہے
عزیز حامد مدنی
ان سفینوں کا بھی کوئی ناخدا ہو جائے گا
عزیز حامد مدنی
ویسے تری نگاہ دل آویز ابھی سے ہے
عزیز حامد مدنی
موسمِ گل نے جاتے جاتے دیکھا کیا دشواری کی
ایک طرف رُوئے جانا تھا جلتی آنکھ میں ایک طرف
سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بیداری کی
عزیز حامد مدنی
ایک خوابِ خود فراموشی سے سر ہوتی گئی
وہ شکستِ دل جو تھی تہذیبِ جاں کی روشنی
ہم جدھر نکلے چراغِ رہ گزر ہوتی گئی
صحبتِ یاراں سلامت نامِ ساقی زندہ باد
زندگی کی شب بہ اندازِ سحر ہوتی گئی
عزیز حامد مدنی
اٹھے گا اب کے رگِ تاک سے دھواں کیا کیا
وفا کی رات کوئی اتفاق تھی لیکن
پکارتے ہیں مسافر کو سائباں کیا کیا
ہزار شمعیں جلانے ہوئے کھڑی ہے خرد
مگر فضا میں اندھیرا ہے درمیاں کیا کیا
عزیز حامد مدنی
قصۂ یادِ حریفانِ کہن کیا کہیے
ہر تغیر ہے کسی قافلۂ دور کی گرد
پردہ دارِ غمِ منزل ہے وطن کیا کہیے
ایک دو شب سے مرا خوابِ جنوں ایسا ہے
ٹوٹ جاتی ہے کوئی دل میں کرن کیا کہیے
عزیز حامد مدنی
انہیں پہ زندگیِ عشق کچھ حرام ہوئی
فضا ہی گزرے ہوئے کارواں کی یاد میں ہے
مسافرو! یہ کہاں آ کے آج شام ہوئی
عزیز حامد مدنی
کہاں پہنچا دیا اے دوست اک تیرے توسل نے
ہوا ایسی نہ وقت ایسا مگر کوئی تغیر ہے
کہ آپ اپنی جگہ لَو تیز کر دی شعلۂ گُل نے
عزیز حامد مدنی
بجھا کے دل میں رکھی شمعِ انجمن ہم نے
نوا کہ جرم و سزا آپ خود تھی اپنے لیے
رگِ گلو میں رکھا حلقۂ رسن ہم نے
زمینِ حشر چھپا کر رکھی ہے تیرے لیے
جو بےدیار تھی وہ نعشِ بے کفن ہم نے
عزیز حامد مدنی
ازل کے دن سے ہے کشتِ یقیں دروغ دروغ
خود اپنی مستیِ پنہاں سے ہاتھ آتا ہے
شکارِ نافۂ آہوئے چیں دروغ دروغ
صدائیں دیں تجھے خلقِ خدا نے مقتل سے
تری گلی میں خبر تک نہیں دروغ دروغ
عزیز حامد مدنی
اک نہ اک زنجیرِ سر رکھتی ہے دیوانہ مجھے
اس کے پیکر کی جھلک راہوں پہ تھی نزدیک و دور
کل غروبِ مہر تھا اک آئینہ خانہ مجھے
شہر جن کے نام سے زندہ تھا وہ سب اُٹھ گئے
اک اشارے سے طلب کرتا ہے ویرانہ مجھے
عزیز حامد مدنی
چمک سی سلسلہ ہائے یقیں میں ہوتی ہے
غنودہ دینِ بزرگاں میں اب وہ لَو نہ رہی
جو عہدِ نو کے غمِ آتشیں میں ہوتی ہے
عزیز حامد مدنی
میرے سینے میں خس و خار ہیں کافی ساقی
اک کفِ جو ہے متاعِ خرد و سکۂ ہوش
جامِ مے دے کہ یہ عالم ہے اضافی ساقی
عزیز حامد مدنی
کہ بدگماں بھی ہوئے تو ہمیں ہوئے ہوں گے
ترے سوا بھی تو عنوانِ قصہ ہائے وفا
ہزار ہا مژہ و آستیں ہوئے ہوں گے
عزیز حامد مدنی
زمینِ صد گہرِ آب دار آتی ہے
عزیز حامد مدنی
اُسی گلی میں چلا ہے جو صاحبِ دیں ہے
عزیز حامد مدنی
ہزار طرح کے قصہ فروش نکلے ہیں
جنوں کے بعد یہ خوابِ جنوں نہ ہو یا رب
یہ مرحلے جو بہ عنوانِ ہوش نکلے ہیں
کبھی تھی ظلمتِ شامِ وطن فزوں جن سے
چراغ لے کے وہ آئینہ پوش نکلے ہیں
زمیں پہ کب سے ترے نام کے ہیں ہنگامے
کہاں کہاں کے پیامِ سروش نکلے ہیں
اُسی گلی سے تو ہم بھی خموش نکلے ہیں
عزیز حامد مدنی
کیوں ناخدا سے ہو جو شکایت خدا سے تھی
عزیز حامد مدنی
ہم سے نہ جل سکے چراغ کوئی دِیا تمہی جلاؤ
عزیز حامد مدنی
@The_x2_ @naeemzarrar @AshaarGhar @Mazhar_Dhariwal
دنیا بیچ میں جا کے کھڑی ہے اور لباس بدلتی ہے
مطربِ خوش آواز ہوئی ہے زخم آور آہنگِ بلا
وہ جو مرے حصے کی لَے تھی، تیرے گلے میں ڈھلتی ہے
عزیز حامد مدنی
تیز دہکتی آگ زمیں پر خندق خندق چلتی ہے
رات کی رات ٹھہرنے والے وقتِ خوش کی بات سمجھ
صبح تو اِک دروازۂ غم پر دنیا آنکھیں مَلتی ہے
قندیلِ راہب کا جادہ آسیبی تاروں کے موڑ
کاٹ کے وقت کی اک پرچھائیں خواب نما سی چلتی ہے
عزیز حامد مدنی
ساحل کی یہ صدا تو کوئی ناخدا نہیں
میری وفا برائے وفا اتفاق تھی
میرے سوا کسی پہ یہ افسوں چلا نہیں
عزیز حامد مدنی
کچھ حرفِ ملامت اور چلیں کچھ وردِ زباں دشنام چلے
اک گرمیِ جستِ فراست ہے اک وحشتِ پائے محبت ہے
جس پاؤں کی طاقت جی میں ہو وہ ساتھ مرے دو گام چلے
ایسےغمِ طوفاں میں اکثر اک ضد کو اک ضد کاٹ گئی
شاید کہ نہنگ آثار ہوا کچھ اب کے حریفِ دام چلے
اک ہم کہ ترے جلتےجلتے بستی سے چراغِ شام چلے
جو نقشِ کتابِ شاطر ہےاس چال سے آخر کیا چلیے
کھیلے تو ذرا دشوار چلےہارے بھی تو کچھ دن نام چلے
کیا نام بتائیں ہم اس کا،ناموں کی بہت رسوائی ہے
کچھ اب کے بہارِ تازہ نفس اک دورِ وفا بے نام چلے
ہوا کے رخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا
کشیدِ مے پہ ہے کیسا فساد حاکمِ شہر
تری گرہ سے ہے کیا بندہ ٔ خدا جاتا
خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
اس آگہی کے تعاقب میں ہوں چلا جاتا
عجب تماشہ ٔ صحرا ہے چاکِ محمل پر
غبارِ قیس ہے پردہ کوئی گرا جاتا
جو آگ بجھ نہ سکے گی اسی کے دامن میں
ہر ایک شہر ہے ایجاد کا بسا جاتا
عزیز حامد مدنی
یہ زمیں کے بدن کی جوت، یہ آگ
سر سے پا تک رچا ہوا اک راگ
یہ صنم خانۂ مہ و پرویں!
یہ گھٹاؤں کے گیسوئے مشکیں
ساز و دف ساقی و سبو کا خیال
گنبد و طاق و کاخ و کو کا خیال
تیرے دم سے ترے قیام سے ہے
سب عبارت یہ تیرے نام سے ہے
عزیز حامد مدنی
بیاں کرے بھی تو موجِ سراب کس سے کرے
فقیہِ شہر کی باتوں سے چپ ہوا مدنی
تمہیں بتاؤ، سوال و جواب کس سے کرے
عزیز حامد مدنی
پردے جلے تمام دھواں ساز سے اٹھا
جیسے دعائے نیم شبی کا سرود ہو
اک شور مےکدے میں اس انداز سے اٹھا
کانٹے زمیں سے اور زیادہ ہوئے طلوع
اک مسئلہ بہار کے آغاز سے اٹھا
میں کیا کہ میرے بعد بھی جو لوگ واں گئے
کوئی نہ اس کی انجمنِ ناز سے اٹھا
عزیز حامد
بہار تھی تو جنوں پہ عبور تھا پہلے
ہزار ہاتھوں سے تجھ کو سنبھالتا تھا جنوں
ترا وہ حال دلِ نا صبور تھا پہلے
گلہ ہے ایک تلون مزاج انساں کا
کوئی پری نہ کوئی رشکِ حور تھا پہلے
یہ آئینہ تری خلوت سے دور تھا پہلے
بجھا کے مشعلِ دل بیٹھ کیوں گئے یارو
یہ ترکِ عشق بھی کس کا قصور تھا پہلے
عزیز حامد مدنی
ہزاروں دائروں میں جنبشِ پائے تغیر ہے
یہ دنیا اضطرابِ عشق کو زنجیر کیا کرتی
وہ روحِ عصر خود ہے چشمِ بینائے تغیر ہے
عزیز حامد مدنی
رنجِ سبو اٹھا گئی سلسلہ وہ خمار کا
جادہ طرازِ نو بہار آئیں گی منزلیں کڑی
دامِ رسن کی راہ بھی دشت بھی نخلِ دار کا
نرم ہوا سے جل اٹھیں نبضِ جنوں میں شمعیں سی
اور اگر برس گیا ابر کہیں بہار کا
عزیز حامد مدنی
شب کہ اک خوابِ بیاباں سے جنوں خانہ بھی تھی
شمع بر کف نردبانِ تیرہ تک آتی ہوئی
اک پری بے حد جنونی بھی تھی فرزانہ بھی تھی
عزیز حامد مدنی
روحِ شب کو ہے کسی گھر کا پتہ بھول گیا
خیر اس بات پہ لازم ہی سہی سجدہ ٔ سہو
ہم نہ بھولے تھے مگر ہم کو خدا بھول گیا
دل وہ کافر ہے کہ خود دیکھ کے سایہ اپنا
تشنگی ساری، سرِ آبِ بقا بھول گیا
عزیز حامد مدنی
اک برق کا ٹکڑا جو عزادار ہوا ہے
لگتے ہیں کلاہوں میں یہ مجنونِ ستم کے
کیوں خارِ مغیلاں کا خریدار ہوا ہے
عزیز حامد مدنی
زمیں کس انکشافِ نار سے یا رب پگھلتی ہے
روایت کی قناتیں جس ہوا میں جلنی والی ہیں
سوادِ ایشیا میں وہ ہوا اب تیز چلتی ہے
عزیز حامد مدنی
مگر ناوک فگن ایسے ہدف کا
اٹھا کشکولِ درویشاں سے آخر
اجالا سا چراغِ لاتخف کا
عزیز حامد مدنی
کس آگ کے باطن میں سمندر نہ ہوا تھا
سیارہ نفس شب کے بکھر جانے کا عالم
آشفتگیِ دل کے برابر نہ ہوا تھا
عزیز حامد مدنی
اب سفینے کا خدا خود ہے نگہباں چلیے
مہر و مہ عرصۂ شطرنج میں سرگرداں ہیں
نقشِ شاطر ہے عجب کیا کسی عنواں چلیے
راس کم آتا ہے ہیرے کی طرح ان کا اثر
سانپ کا من ہے خرد بیچ کے ارزاں چلیے
عزیز حامد مدنی
وہ سارے کارواں تو اے جنوں رخصت ہوئے کب کے
عزیز حامد مدنی
دماغِ کفر سے کیا کیا حقیقتیں نکلیں
عزیز حامد مدنی
سر پٹکتی ہوئی گزری ہے بیاباں کی ہوا
عزیز حامد مدنی
بہم ہے عصمت و عصیاں کہو کہ نیند آئے
رفوگرانِ جنوں کیا دلیلِ سوزن و تار
حدیثِ چاکِ گریباں کہو کہ نیند آئے
وفا کی قسطِ پریشاں ہے یہ اڑی ہوئی نیند
اک اور قسطِ پریشاں کہو کہ نیند آئے
خرابِ بوسۂ جاناں ہلاکِ جادوئے یار
مجھے کہا ہے ہاں کہو کہ نیند آئے
چراغ دشتِ بلا میں وہ قافلے کا بھی تھا
عزیز حامد مدنی
خود اپنے ثقلِ سماعت کے اب شکار سے ہیں
عزیز حامد مدنی
سب خاک ہوئے آگ کی لَو کیا تھی دھواں کیا
کیا نرم ہوا تھی جگرِ سنگ میں اتری
اُن نرم مزاجوں کا کریں تم سے بیاں کیا
کچھ سیکھ لیا ٹوٹے ہوئے دل سے خرد نے
اس ظرفِ شکستہ نے بھی پائی تھی زباں کیا
عزیز حامد مدنی
روز و شب نرخِ گراں میں ایک نادیدہ سا ہاتھ
کس ہنر سے کاربندِ عالم آرائی ہوا
ہم وہ اندھے ہیں کہ آئینے سے شرماتے نہیں
انجم و خورشید کی تشکیک کے شب خون میں
اپنی ڈیوڑھی پر تغیّر کی ہوا پاتے نہیں
عزیز حامد مدنی
کوئی یہ بتاؤ کہ زندگی گلِ سر سبد میں ہے کیا لیے
نہیں تار و پوئے لباس سے ہے حسابِ آب و ہوا دیا
نہ کہیں سے سازِ کفن لیا نہ کسی سے تارِ قبا لیے
عزیز حامد مدنی
اج کی رات تو رودادِ محبت کوئی
تنگیِ دل کےلیے قرب کے ہنگاموں سے
زندگی ڈھونڈ لیا کرتی ہے وسعت کوئی
آئنہ ہو کہ نگاہ اے قدِ بالائے نگار
سامنے لائی تعلق کی ضرورت کوئی
عزیز حامد مدنی
گہوارۂ زمیں سے مثالِ جرس گئے
رکھتی تھی خاکِ تیرہ پہ مرہم شعاعِ مہر
لیکن وہ زخم تھے کہ ہزاروں برس گئے
عزیز حامد مدنی
وقت کا دریا کبھی تھمتا نہیں بہتا ہوا
عزیز حامد مدنی
ہوا کہاں کی ہے اور میں کہاں کی فکر میں ہوں
بگاڑ دیں نہ اسے راویانِ تازہ نفس
حکایتِ مژۂ خوں فشاں کی فکر میں ہوں
بگڑ کے مجھ سے کہیں خود ہی لَو نہ دے اٹھے
میں اپنی شورشِ نبضِ تپاں کی فکر میں ہوں
عزیز حامد مدنی
اس قحطِ فراست میں بٹھاتے ہو مجھے کیوں
میں نے جو لکھی ہے وہ عبارت ہے جنوں کی
مٹتی نہیں تختی سے، مٹاتے ہو مجھے کیوں
کچھ لوگ تھے دیوار میں چنوائے گئے تھے
تم نے انھیں دیکھا ہے جتاتے ہو مجھے کیوں
عزیز حامد مدنی
خود طوافی میں بھی خود سے سینکڑوں فرسنگ ہے
طوقِ آہن سے گلوئے عشق میں تارِ حریر
شاخِ گل دستِ شقی میں ہو تو چوبِ سنگ ہے
آگ کو گلزار کر دے اس دعا کا وقت ہے
ورنہ خوئے آدمیت آدمی پر ننگ یے
عزیز حامد مدنی
یہ زمانے کا تغیر عالمِ نیرنگ ہے
عزیز حامد مدنی
خاک کی تہ میں وہی لعل و گہر آتے رہے
پھول سے کھلتے رہے کیا کیا جنوں کی آنکھ میں
ریزہ ریزہ خواب با مژگانِ تر آتے رہے
وقت کی تازہ رخی کی رَو میں آخر روئے یار
تیرے افسانے بہ عنوانِ دگر آتے رہے
عزیز حامد مدنی
چراغِ شہر سے ایسا شگوں ملنے نہیں پاتا
عزیز حامد مدنی
تاجری کے ماہِ نخشب سازشوں کی اوٹ سے
اپنی تابانی کے منصوبوں کا لیتے ہیں خراج
ناخنوں سے پھاڑتا ہےخشکیوں کو قحطِ آب
قلتِ خوراک سے آشفتہ مُو ہیں بستیاں
محوِ خود آرائی ہے تقسیمِ زر کا اضطراب
چور بازاروں سے لائی منطقِ بےنام سے
جھانکتی ہیں گرگِ بارہ دیدہ کی سفاکیاں
لب پہ اک حرفِ دعا اک موجِ خوں خوابوں میں ہے
طائرِ افعی گزیدہ کی طرح خود آدمی
پَر سمیٹے عافیت کی کہنہ محرابوں میں ہے
چھیڑتا ہے آدمی کے ذوقِ استفہام کو
آگ کا اک دائرہ جادو نفس آشفتہ کار
زندگی سرتابیِ پرواز کا اک باب ہے
ذہنِ عالم کے افق پر ارتقا کا پیچ و تاب
آدمی کی اوج گاہِ نارسا کا خواب ہے
عزیز حامد مدنی
تم سا رہا کوئی نہ کوئی ہم سا رہ گیا
عزیز حامد مدنی
یہ بات کہنے کی تھی کہ تیرے ملال سے دور ہو گئی ہے
وہ تیرگی کیا جو آپ اپنے ہی خونِ دل سے نہ تیرہ تر ہو
وہ روشنی کیا جو آپ اپنے جمال سے دور ہو گئی ہے
جبھی تو تہ کج نہاد دنیا کمال سے دور ہو گئی ہے
عزیز حامد مدنی
اِس دشت نوردی کا بھی انجام کہیں ہو
نغمے پہ بِنا رکھتا ہے فریاد کی لے کی
طائر کے لیے کش مکشِ دام کہیں ہو
عشاق کی محفل میں، حریفانِ جنوں میں
تسکین کی صورت ہے ترا نام کہیں ہو
اک دورِ مسافت میں کٹی عمرِ گریزاں
ایسی نہ جنوں کاریِ ایام کہیں ہو
اک حلقۂ یاراں میں ہو وہ شام کہیں ہو
ہر رنگ میں اس جسم کا اسلوب ہے یکتا
پوشاک کوئی ہو، وہ دل آرام کہیں ہو
سر رکھ کے سرِ خارِ مغیلاں ہی وہ مل جائے
برسوں کی گئی نیند کا آرام کہیں ہو
عزیز حامد مدنی
کوئی ایسا ہو گر صاحبانِ حرم، کام اس وقت اس کی مثال آئے گی
تم کہو تو چلا جاؤں اس شہر سے، اس فضا میں ہلاکت ہے جاگی ہوئی
سارے ہانکے میں بھاگے ہوئے جانور یہ ہوا یہ صدا دل کو کھا جائے گی
عزیز حامد مدنی