چلو! کچھ آج حساب زیانِ جاں کر لیں
الم شمار کریں ، درد آشکار کریں
گِلے جو دل کی تہوں میں ھیں آبلوں کی طرح
انھیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
حدیثِ چشم و لب سوختہ کہیں کُھل کر
کہاں تلک یہ تکلم زمانہ سازی کے
پسِ کلام ھے جو کچھ ذرا کہیں کُھل کر
لہو ھے سرد تو آنکھیں بھی منجمد کر لو
جو دل میں دفن ھے چہروں پہ اشتہار کریں
الم شمار کریں درد آشکار کریں
لغت کی انت میں سمٹا ھُوا ، فقط ایک لفظ
اِس ایک لفظ میں سچائی ھے زمانوں کی
چلو کہ آج یہی لفظ اختیار کریں
تمام عمر پڑی ھے منافقت کے لیے
اِس ایک لفظ کا دامن نہ داغدار کریں
اَلم شمار کریں ، درد آشکار کریں
امجد اسلام امجد