, 33 tweets, 6 min read
My Authors
Read all threads
دینی مدارس کا پس منظر

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے دینی مدارس و مکاتب کا موجودہ نظام ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہے۔ اس سے قبل پورے برصغیر
پورے برصغیر میں درس نظامی کا یہی نصاب تعلیمی اداروں میں رائج تھا جو مغل بادشاہت کے دور میں اس وقت کی ضروریات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا تھا اور جو اب بھی ہمارے دینی مدارس میں بدستور رائج چلا آرہا ہے۔ فارسی اس دور میں سرکاری زبان تھی اور
عدالتوں میں فقہ حنفی رائج تھی۔ اس لیے درس نظامی کا یہ نصاب اس دور کی دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور دینی تقاضوں کی تکمیل بھی اس سے ہو جاتی تھی۔ اس لیے اکثر و بیشتر مدارس کا نصاب یہی تھا اور
تقریباً تمام مدارس سرکار کے تعاون سے بلکہ سرکار کی بخشی ہوئی زمینوں اور جاگیروں کے باعث تعلیمی خدمات سرانجام دیتے چلے آرہے تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد جب دہلی کا اقتدار ایسٹ انڈیا کمپنی سے براہ راست تاجِ برطانیہ کو منتقل ہوا اور انگریزی حکومت قائم ہوگئی تو سرکاری زبان فارسی کی بجائے انگریزی کر دی گئی اور عدالتی نظام سے فقہ حنفی کو خارج کر کے برطانوی قوانین نافذ کر دیے گئے
جس سے ہماری تعلیمی ضروریات دو حصوں میں منقسم ہوگئیں۔ دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے انگریزی تعلیم ناگزیر ہوگئی،اور دینی و قومی ضروریات کے لیے درس نظامی کے سابقہ نظام کو برقرار رکھنا ضروری سمجھا گیا جبکہ مدارس و مکاتب کا سابقہ نظام ختم کر دیا گیا۔👇
علماء کی ایک بڑی تعداد جنگ آزادی میں کام آگئی، باقی ماندہ میں سے ایک کھیپ کالاپانی اور دیگر جیلوں کی نذر ہوگئی اور پیچھے رہ جانے والے لوگ شکست کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے مستقبل کے بارے میں سوچنے میں مصروف ہوگئے۔ مدارس و مکاتب کے لیے مغل حکمرانوں کی عطا کردہ جاگیریں ضبط کر لی گئیں 👇
اور اس طرح ۱۸۵۷ء سے پہلے کا تعلیمی نظام مکمل طور پر تتربتر ہوکر رہ گیا۔👇
نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی۔ سرسید احمد خان مرحوم نے ایک محاذ سنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لیے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنا لیا، 👇
جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ سرسید احمد خان مرحوم اور ان کے رفقاء نے علی گڑھ میں 👇
انگریزی تعلیم کے کالج کا آغاز کیا اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء نے دیوبند میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ سرسید احمد خان مرحوم اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ دونوں ایک ہی استاد مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے شاگرد تھے اور 👇
دونوں نے مختلف سمتوں پر تعلیمی سفر کا آغاز کیا جو آگے چل کر دو مستقل تعلیمی نظاموں کی شکل اختیار کر گئے۔ ابتداء میں سرسید احمد خان مرحوم کے انگریزی کالج اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے مدرسہ عربیہ دونوں کی بنیاد عوامی چندہ اور امداد باہمی کے طریق کار پر تھی، 👇
لیکن بعد میں کالج اور اسکول کے نظام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی اور رفتہ رفتہ پورا نظام سرکار کی تحویل میں آکر مصارف و اخراجات کے جھنجھٹ سے آزاد ہوگیا، جبکہ دینی مدارس سرکاری سرپرستی سے آزاد رہے 👇
جس کی وجہ سے انہیں اپنے اخراجات و ضروریات کے لیے ہر دور میں عوامی چندہ پر انحصار کرنا پڑا، اور آج بھی یہ صورتحال بدستور قائم ہے👇
دینی مدارس کے اس آزادانہ اور متوازی نظام کے بنیادی مقاصد درج ذیل تھے:

قرآن و سنت، عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت اور مسلم معاشرہ کا ان سے تعلق برقرار رکھنا۔

مساجد و مدارس کے نظام کو قائم رکھنا اور ان کے لیے ائمہ، خطباء اور مدرسین کی فراہمی۔

👇
یورپ کی نظریاتی اور تہذیبی یلغار کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی طرز معاشرت اور عقائد کی حفاظت۔

جدید عقلیت کے پیدا کردہ اعتقادی و نظریاتی فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ یہ مدارس سرکار کے اثر سے آزاد رہیں اور👇
ایسا تعلیمی نصاب و نظام اختیار کریں کہ ان کے تیار کردہ افراد صرف ان کے مقاصد کے خانہ میں فٹ ہو سکیں۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے ایک واقعہ بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے بیان کیا ۔
ان کی روایت کے مطابق یہ اس دور کا واقعہ ہے
جب دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے فرزند مولانا حافظ محمد احمدؒ تھے۔ اس دور میں دارالعلوم کے فارغ التحصیل کچھ نوجوان حیدرآباد دکن کی ریاست میں ملازمتوں پر فائز ہوئے اور کارکردگی اور صلاحیت 👇
کے لحاظ سے دوسرے ملازمین سے بہتر ثابت ہوئے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ کے دورہ حیدر آباد کے موقع پر نظام حیدر آباد نے ایک ملاقات میں ان سے اس بات کا ذکر کیا اور خواہش ظاہر کی کہ اگر دارالعلوم دیوبند کے فضلاء ہر سال سارے کے سارے حیدرآباد بھجوا دیے جائیں تو نظام حیدر آباد👇
انہیں ملازمتیں دیں گے اور دارالعلوم کے سالانہ اخراجات کا بار، نظام خود اٹھائیں گے۔ مولانا حافظ محمد احمدؒ نے دیوبند واپسی پر یہ پیشکش دارالعلوم کے صدر مدرس شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے سامنے بیان کی اور ان سے مشورہ طلب کیا۔👇
مولانا محمود حسنؒ نے خود کوئی مشورہ دینے کی بجائے حافظ محمد احمدؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سرپرست حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیج دیا جو اس وقت بقید حیات تھے۔ انہوں نے مولانا حافظ محمد احمدؒ سے نظام حیدر آباد کی پیشکش کے بارے میں سن کر جو جواب دیا
وہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب کے الفاظ میں یوں تھا:👇
’’بھاڑ میں جائے حیدرآباد کی ریاست! ہم اس ریاست کو چلانے کے لیے طلبہ کو نہیں پڑھا رہے۔ ہم تو اس لیے پڑھاتے ہیں کہ مسجدیں اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نمازیں اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں۔‘‘
👇
یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں انگریزی تعلیم کا داخلہ بند رہا اور علماء اور دینی طلبہ کو انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا رہا۔ کیونکہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے افراد لازماً سرکاری ملازمت کو ترجیح دیتے اور دینی مدارس سے فارغ ہونے والوں کی ایک بڑی کھیپ بھی 👇
اسی طرف منتقل ہو جاتی جس سے دینی مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد فوت ہو جاتا۔ جبکہ دینی مدارس کے نظام کا آغاز کرنے والوں کے ذہن میں سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ایسی کھیپ تیار ہو جو قرآن کریم کے مکاتب کو آباد رکھے۔ اس لیے حکمت عملی کے تحت عملاً ایسا طریقہ اختیار کیا گیا 👇
کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات مسجد و مدرسہ کے سوا کسی دوسری جگہ نہ کھپ سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے حوالہ سے یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور اس کے نتیجہ میں برصغیر کے طول و عرض میں دینی مدارس و مکاتب کا جال بچھ گیا اور مساجد میں ائمہ و خطباء کی کھیپ بھی فراہم ہوتی رہی۔👇
دینی مدارس کے منتظمین نے ان مقاصد کے حصول کے لیے کیا کیا جتن کیے، یہ ایک الگ داستان ہے جس کی تفصیلات کی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے۔ تاہم اس قدر عرض کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے سہولتوں کی زندگی ترک کر کے فقر و فاقہ اور تنگی و ترشی کی زندگی اختیار کی،👇
لوگوں سے صدقات و خیرات مانگ کر مدارس کو آباد رکھا، بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک تو محلہ کے ایک ایک گھر سے روٹیاں مانگنے کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس لیے یہ بات بلا جھجھک کہی جا سکتی ہے کہ علماء کے اس طبقہ نے اپنی ’’عزت نفس‘‘ تک کی قربانی دے کر 👇
معاشرہ میں قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی عقائد و معاشرت کو برقرار رکھا۔ ورنہ عالم اسباب میں اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو اسپین کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی (نعوذ باللہ) اسلام ایک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔👇
صدقہ و خیرات، گھر گھر سے مانگی ہوئی روٹیوں اور عام لوگوں کے چندوں کی بنیاد پر قائم ہونے والا دینی مدارس کا یہ نظام برطانوی استعمار کی نظریاتی، فکری اور تہذیبی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط حصار ثابت ہوا۔ 👇
اس نظام نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے عقائد وافکار، معاشرت اور اسلامی علوم و فنون کی حفاظت کی بلکہ تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو نظریاتی راہ نماؤں اور کارکنوں کی کھیپ بھی فراہم کی 👇
جس میں مولانا محمود حسنؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا حسین احمدؒ مدنی، مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، مولانا عبد الحامدؒ بدایونی، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے ہزاروں رفقاء بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
@threadreaderapp pl unroll
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!