, 28 tweets, 6 min read
My Authors
Read all threads
صنفی مساوات کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟

جواب: اسلام مرد اور عورت کو سوسائٹی اور تمدن کی دو ناگزیر بنیادیں تصور کرتا ہے اور باہمی برتری اور فضیلت کے لیے بر وتقویٰ کو بنیاد قرار دیتا ہے، لیکن معاشرتی معاملات میں دونوں کے درمیان مکمل فطری مساوات کا قائل نہیں ہے اور 👇
اس کے نزدیک یہ غیر فطری اور مصنوعی بات ہے، اس لیے کہ مرد اور عورت کی جسمانی تخلیق، نفسیات اور ان کے فطری فرائض میں ایسا تنوع موجود ہے جس سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کی کوئی صورت ممکن ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان جسمانی تخلیق، نفسیاتی رجحانات اور 👇
فطری ذمہ داریوں میں جو واضح فرق موجود ہے، اسلام ان کے باہمی حقوق وفرائض کے تعین وتقسیم میں اسی کو بنیاد قرار دیتا ہے اور اس کے مطابق دونوں کے لیے احکام وقوانین میں ا س نے فرق وامتیاز قائم رکھا ہے۔

👇
اسلام نے عورت کے معاشی حقوق اور تحفظات کا متوازن نظام پیش کیاہے۔ یہ شعبہ ایسا ہے جہاں بڑے بڑے نظام افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں، لیکن اسلام نے اعتدال اور توازن کا اصول یہا ں بھی پوری طرح قائم رکھا ہے۔ اسلام نے فرائض کی ایک فطری تقسیم کر دی ہے کہ👇
گھر کے اندر کی ذمہ داری عورت کی ہے اور باہر کی ذمہ داری مرد پر ہے اور مردو عورت کی خلقت میں فطرت نے جو طبعی فرق رکھا ہے، اس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے سوا کوئی تقسیم ممکن ہی نہیں ہے۔ چونکہ گھر کے اندر کا نظام عور ت کی سپرداری میں ہے، 👇
اس لیے باہر کی کوئی ڈیوٹی اس کے سپرد کرنا اس پر ظلم ہے۔ اسی لیے عورت کے تمام اخراجات مرد کے ذمہ لگا دیے گئے ہیں اور ان اخراجات کے سلسلہ میں عور ت کو عدالتی تحفظات بھی فراہم کیے گئے ہیں تاکہ کوئی مرد اس معاملے میں عورت کے ساتھ ناانصافی نہ کرسکے۔ تاہم 👇
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام عورت کے ملازمت کرنے پر کلی پابندی لگاتا ہے۔ ہرگز نہیں! بلکہ اسلام عورت کو ایسی ہر ملازمت کی اجازت دیتا ہے جس سے اس پر اس کی طاقت وصلاحیت سے زیادہ بوجھ نہ پڑے۔👇
اسی طرح اسلام کے نزدیک ’’خاندان‘‘ سوسائٹی کی بنیادی اکائی ہے جس کا تحفظ ضروری ہے اور خاندان کا یونٹ اس کے سوا قائم نہیں رہ سکتا کہ رشتوں کا تقدس تسلیم کیا جائے، مرد وعورت کے کسی ایسے باہمی میل جول کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جس کے نتیجے میں👇
آزادانہ جنسی ملاپ اور رشتوں کے تقدس کی پامالی اور خاندان کے بکھر جانے کی صورت پیدا ہو جائے۔ نیز خاندان کے یونٹ کا ڈسپلن اور نظم برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے سسٹم میں فائنل اتھارٹی ایک ہو، اس لیے اسلام خاندان کے نظام میں مرد کی برتری کی تعلیم دیتا ہے، 👇
البتہ مرد کی سنیارٹی کو خاندان کے تحفظ کی ضمانت قرار دیتے ہوئے عورت کو وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے جو ایک شہری، ایک مسلمان اور سوسائٹی کے ایک فرد کے طور پر اس کے لیے ضروری ہیں۔ نسل انسانی کی نشو ونما اور ترقی میں عورت کا بھی اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا مرد کا ہے، اس لیے 👇
اسلام نے عورت کے وجود کو نہ صرف تقدس واحترام بخشا بلکہ ان کی اہمیت وافادیت کا بھرپور اعتراف کیا ہے اور اسے ان تمام حقوق اور تحفظات سے نوازا ہے جو مرد اور عورت کے فطری فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔👇
مثال کے طور پر آزادی رائے کو انسانی حقوق میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ یہ منظر پیش کرتی ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک بوڑھی خاتون خولہ بنت حکیمؓ امیر المومنین حضرت عمر کو سرعام روک کر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے : ’’عمر! وہ دن یاد رکھو 👇
جب تمہیں عکاظ کے بازار میں صرف عمر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور آج تم امیر المومنین کہلاتے ہو، اس لیے خدا سے ڈرتے رہو اور انصاف کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہو‘‘۔ حضرت عمرؓ اس بڑھیا کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں اور اپنے عمل کے ساتھ دنیا کو بتا رہے ہیں کہ👇
انسانی معاشرہ میں مرد کی طرح عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ راہ چلتے امیر المومنین کا راستہ روک کر کھڑی ہوجائے اور انصاف کی تلقین کرے۔👇
اسلام مر دکی طرح عورت کو بھی یہ حق دیتاہے کہ وہ اپنے جائز حق کے لیے ڈٹ جائے اور اس کے خلاف کسی بڑے سے بڑے دباؤ کی پروا نہ کرے۔ حضرت عائشہؓ کی باندی بریرہ کو آزاد ہونے کے بعد شرعی طورپر یہ حق حاصل ہو گیاتھا کہ وہ اپنے سابقہ خاوند مغیثؓ کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس سے الگ ہو جائے۔👇
بریرہؓ نے اپنا یہ حق استعمال کیا تو مغیثؓ پریشان ہوگئے۔ وہ مدینہ کی گلیوں میں روتے پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی ہے جو بریرہؓ کو دوبارہ میرے ساتھ رہنے پر آمادہ کرے؟ اس کی حالت دیکھ کر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے بات کی اور 👇
اسے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کے لیے کہا۔ بریرہؓ نے صرف یہ پوچھا کہ یارسول اللہ! یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف مشورہ ہے، تو بریرہؓ نے دو ٹوک کہہ دیا کہ میں یہ مشورہ قبول نہیں کرسکتی۔ چنانچہ👇
بریرہؓ مغیثؓ سے الگ رہنے کے فیصلے پر قائم رہی اور اپنے عمل کے ساتھ اسلام کا یہ اصول دنیا کے سامنے پیش کیا کہ عورت اپنے جائز حق سے از خود دستبردار نہ ہونا چاہے تو اسے اس کے حق سے کسی صورت میں محروم نہیں کیا جا سکتا۔👇
سے کسی صورت میں محروم نہیں کیا جا سکتا۔

خلافت راشدہ کے دور میں عورت اجتماعی معاملات میں بھی مشاورت کے دائرہ میں شامل رہی ہے،بالخصوص ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کو تو اس دور میں امت مسلمہ کی اجتماعی راہ نمائی کا مقام حاصل تھا۔ اہم امور میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا اور 👇
ان سے اجتماعی معاملات میں راہ نمائی حاصل کی جاتی تھی، حتیٰ کہ ایک موقع پر مدینہ منورہ کے امیر مروانؓ بن حکم نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’جب تک ازواج مطہرات موجود ہیں، ہمیں دوسرے لوگوں سے مسائل دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیاہے!‘‘ اور 👇
عورتوں سے متعلقہ امور میں تو مشورہ ہی عورتوں سے کیا جاتا تھا۔ مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کے ذمہ لگایا کہ وہ سمجھدار عورتوں سے مشورہ کرکے بتائیں کہ ایک عورت خاوند کے بغیر کتنا عرصہ آسانی کے ساتھ گزار سکتی ہے۔ چنانچہ👇
ان کی رائے پر حضرت عمرؓ نے حکم جاری کیا کہ ہر فوجی کو چھ ماہ کے بعد کچھ دنوں کے لیے ضرور گھر بھیجا جائے۔
👇
خلافت راشدہ کے دور میں خواتین کو علم حاصل کرنے اور تعلیم دینے کے آزادانہ مواقع میسر تھے۔ حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھ سینکڑوں خواتین کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات امت تک پہنچانے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے شاگردوں میں مر د بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ 👇
وہ نہ صرف احادیث بیان کرتی تھیں، بلکہ فتویٰ بھی دیتی تھیں اور ان کے فتوے پر عمل کیا جاتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے جو فتاویٰ منقول ہیں، ان سے ایک بڑا مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے بڑے بڑ ے علما صحابہ مسائل میں رجوع کرتے تھے اور 👇
اپنے اشکالات کا تسلی بخش جواب پاتے تھے۔ اسی طرح حضرت ام سلمہؓ سے بھی علمی معاملات میں رجوع کیا جاتا تھا۔ الغرض علم اور افتا کا میدان بھی خواتین کے لیے کھلا تھا اور اس میں ان کی اہمیت تسلیم کی جاتی تھی۔👇
الغرض اسلام عورت کو انسانی زندگی کی گاڑی کا برابر کا پہیہ تسلیم کرتا ہے اور اس کو وہ تمام حقوق دیتا ہے جو انسانی معاشرہ میں اپنا فطری کردار ادا کرنے کے لیے اسے درکار ہیں، البتہ فرائض کی تقسیم وہ مرد اور عورت کے طبعی تقاضوں اور فطری ضروریات کو سامنے رکھ کر کرتاہے اور 👇
عورت کو ہر ایسے عمل سے روکتاہے جو اس کے نسوانی وقار، فطری ذمہ داریوں اور طبعی مناسبت کے منافی ہو اور اسلا م کا یہ اصول حق تلفی نہیں بلکہ عین انصاف ہے جس کے بغیر انسانی معاشرت کو متوازن رکھنا ممکن ہی نہیں ہے۔
@threadreaderapp pl unroll
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Muddassar Rashid

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just three indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!