جوزیفس کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعونِ مصر کو مستقبل کی پیشن گوئی کر نیوالے ایک نجومی نے بتایا کہ
عنقریب مصر کے اسرائیلیوں میں ایک بچہ پیدا ہوگا، جس کو اگر زندہ رہنے دیا گیا تو وہ مصری حکومت کو
یہ سُن کر فرعون بیحد خوفزدہ ہوا اور اُس نے حکم جاری کیا اب بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہو،اس کو ختم کیا جائے
اس نے مصری
اسی مشکل دور میں بنی اسرائیل کے لاوی قبیلے کے ایک
فرعون کے ڈر سے انہوں نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس میں رکھ کر ان کو دریا کے حوالے کردیا
قدرت الٰہی سے ٹوکرا بہتے بہتے
اس نے اس معصوم بچے کو اپنا بیٹا بنایا اور اس کا نام ”موسیٰ“ عبرانی میں
حضرت آسیہ نے موسیٰ علیہ السلام کودودھ پلا نے کے لئے جس عورت کو منتخب کیا قدرت الٰہی سے وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں
حضرت موسیٰ علیہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں شاہی ماحول میں شاہی تعلیم و تربیت حاصل کرکے جوان ہوئے۔ آپ قوی ہیکل نوجوان تھے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ موسیٰ علیہ
اللہ تعالیٰ نے جسمانی طاقت کے علاوہ علم و حکمت اور اچھی سیرت سے بھی نوازا تھا۔موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ابتدائی چالیس سال فرعون کے محل میں گزرے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر میں اسرائیلیوں کی محکومیت اور ان کی
آپ ایک دن مصر کے بازار میں سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک مصری قبطی ایک اسرائیلی پر تشدد کر رہا ہے۔آپ سے رہا نہیں گیا لہذاآپ نے قبطی سے
شہر میں مصری کے قتل کی خبر پھیل گئی مگر قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔اگلے دن جب موسیٰ علیہ السلام پھر بازار میں سے گزر رہے تھے
پھر کیا ہوا کہ بات پھیلتے پھیلتے مقتول کے ورثا اور فرعون تک پہنچ گئی۔ اُس نے موسیٰ
مدین حجاز کے
جس بزرگ کے آپ قیام پذیر ہوئے،اُن کا نام قرآن کریم میں نہیں لیا گیا۔اس سلسلے میں علماء اسلام میں مختلف
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس جلاوطنی میں مسلسل چالیس سال گزاردئیے۔آپ کی شادی حضرت صفورہ رضی اللہ عنھا سے ہوئی۔محل میں نازوں
اس دوران فرعونِ مصر مر گیا اور اس کا بیٹا رعمسسؔ دوم تخت نشین ہوا۔یہ فرعونِ مصر بھی بنی اسرائیل کا سخت مخالف تھا۔ اہلِ مصر کے ظلم اوربنی اسرائیل کی بدترین مظلومیت پر رحمتِ الٰہی کو جوش آیا اور
جناب موسیٰ علیہ السلام کو حکمِ الٰہی ملا کہ مصر جاکر فرعون کو دین حق کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو مصریوں کے ظلم سے نجات دلائیں
ہوا یوں کہ ایک دفعہ آپ اپنے اہل و عیال سمیت بکریاں چراتے چراتے مدین کی بستی سے دور کوہِ طور کے دامن
رات کے اندھیرے میں دور کہیں آگ نظر آئی، چنانچہ جب آپ چلتے چلتے اس آگ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک درخت آگ کی طرح روشن ہے. درخت پر روشنی تو ہے مگر اس کی شاخیں اور پتے جل نہیں رہے
”اے موسیٰ!میں ہوں , میں اللہ، پروردگار جہانوں کا، پس جب موسیٰ اس (آگ) کے قریب آئے
تورات میں لکھا ہے:۔
”جب خدا نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا
اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نبوت کے لئے چن لیا اور اُن کو یہ ذمہ داری بخشی کہ وہ فرعون کو دعوت حق دے اور اپنی قوم بنی اسرائیل کو
خالقِ کائنات نے اپنے پیغمبر کو نبوت کی نشانی کے طور پر دو معجزات”عصا“ اور ید بیضا“ عطا فرمائے۔جب آپ اپنے دوُ شاخہ عصا کو زمین پرپھینکتے تو وہ قدرتِ الٰہی سے اژدہا بن جاتا۔ اپنے ہاتھ مبارک کو گریبان کے اندر ڈال کر دوبارہ نکالتے تو وہ سورج سے
اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھائی حضرت ہارون کو اپنا نبی اور آپ کا وزیر مقرر فرمایا۔آپ نے چالیس سال اس صحرا میں منشا الٰہی سے گزار کر صحرا نوردی کی خصوصی تربیت حاصل فرمائی کیونکہ مستقبل میں آپ نے اپنی قوم کے ہمراہ ایک بار پھر صحرا کی پر مشقت زندگی بسر کرنی
چالیس سال کی صحرا نشینی کے بعد بحکمِ خداوندی آپ دوبارہ مصر واپس لوٹے اور سیدھا اپنی قوم کے پاس گئے اور قوم کے بڑوں،بزرگوں کو جمع کرکے اُن کودعوت حق دی اور ان کو مصریوں کی غلامی سے نجات کی خوشخبری سنا ئی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے
آپ نے فرعون کے دربار میں اس کو دین حق کی دعوت دی۔آپ نے فرمایا کہ اے فرعون! ہمیں آسمان اور
فرعون نے دعوت قبول کر نے کی بجائے بحث و تکرار شروع کی۔ جناب موسیٰ
فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جادوگروں کے ساتھ مقابلہ کا چیلنج دیا۔ بعد میں ایک مقررہ دن
جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے،فتح حق کی ہوئی۔ فرعون کے جادوگر معجزات سے متحیر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے سب سے بڑے جادوگر ہیں اور جادو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ہم بیشک جادوگر ہیں لیکن
بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو بار بار دعوت حق دی۔ جناب موسی علیہ السلامٰ نے کہا کہ اگر تو مسلمان نہیں ہوتا تو تیری مرضی،مگر
لیکن فرعون کسی قیمت پر نہ مانا۔تب موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے اہل مصر پر قدرت الٰہی سے مسلسل یکے بعد دیگرے قسم قسم مثلاً وبا، جوؤں کی کثرت، مینڈکوں کی بھرمار، پانی کا خون آلود ھونا، وبا سے مویشیوں
1446 ق م کے موسمِ بہار میں اسرائیلی قوم نے مصرؔ سے خروج کیا۔(قاموس الکتاب،صفحہ94)
یہودی روایات کے مطابق یہودی
خود قرآن کریم بھی
بنی اسرائیل کا قافلہ حکم الٰہی سے مصر سے سیدھا فلسطین جانے کی بجائے اُس طویل راستے پر گامزن ہوا کہ جس کی راہ میں بحر قلزم کا شمالی سرا(موجودہ خلیجِ سوئز) پڑتا تھا۔نزدیکی، مختصر اور خشکی کے راستے سفر کر نے
(1)۔نزدیکی اور مختصر راستے کو اپنانے میں کنعانیوں سے براہ راست تصادم یقینی تھا جس کی سخت غلامی سے تازہ ترین نجات پانے والے کم ہمت اسرائیلیوں میں ہرگز جرآت نہیں تھی۔
(2)۔اللہ کے باغی فرعون اور اس کے لشکر کو پانی
(3)۔طویل اور کٹھن مسافتوں کے ذریعے بنی اسرائیل کی جسمانی،ذہنی،اخلاقی،نفسیاتی اور مذہبی تربیت کرنا تھا۔
(4)۔وادیئ سینا میں کوہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کو شریعت عطا کرنا بھی مطلوب تھا۔
فرعون نے اگرچہ پہلے پہل تو بنی اسرائیل کو جانے دیا لیکن ان کے روانہ
بنی اسرائیل نے غلامی سے ابھی ابھی تازہ نجات پائی تھی اور اُن کے دل و دماغ ابھی ایمان کی نورانیت سے خالی تھے۔ یہی وجہ ہےکہ جب انہوں نے دور سے بہت بڑی دھول اڑتی دیکھی تو سمجھ گئے کہ فرعون ان کے تعاقب میں ان تک پہنچنے ہی والا ہے. وہ بیحد خوفزدہ ہوئے۔انہوں
”جب فرعون نزدیک آگیا تب بنی اسرائیل نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا کہ مصری اُنکا پیچھا کئے چلے آتے ہیں اور وہ
تب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے مدد مانگی۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی عصا سمندر کے پانی پر مار۔ پھر بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا پہلا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ
موت کے منہ میں جا کر جب ناپائیدار بادشاہی اور جھوٹی خدائی کا نشہ اُترا تو وہ خوف سے چلا اٹھا کہ اے موسیٰ میں
اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فسادکئے چلا گیا۔اچھا آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تو بعدکی نسلوں کے
بنی اسرائیل، صدیوں تک بت پرست مصریوں کی غلامی نے جہاں اس قوم کی غیرت اور ہمت چھین لی تھی،وہیں ان کا ایمان بھی نہیں رہا تھا اور وہ بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے، انہوں نےجب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھا کہ اللہ نے ان کو بچا
اس کے بعد وہ لوگ جبل موسیٰ میں آباد ہوئے۔ جہاں موسیٰ کو دس احکام موصول ہوئے۔ 40 سال صحرا میں بھٹکنے کے بعد جبل نیبو میں میدان تیہ پر جناب موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیه السلام کے بارے میں ہماری احادیث کے منابع میں یوں آیا هے کہ حضرت عزرائیل ع حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر هوئے، سلام کیا اور ان سے کہا کہ : میں خدا کے حکم سے آپ کی روح قبض کرنے کے لیے آیا هوں- حضرت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے
#پیرکامل