My Authors
Read all threads
1/ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت با سعادت 1525 ق م میں ہوئی۔
جوزیفس کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرعونِ مصر کو مستقبل کی پیشن گوئی کر نیوالے ایک نجومی نے بتایا کہ
عنقریب مصر کے اسرائیلیوں میں ایک بچہ پیدا ہوگا، جس کو اگر زندہ رہنے دیا گیا تو وہ مصری حکومت کو
2/ مغلوب اور بنی اسرائیل کو غالب کردیگا اور وہ تمام انسانوں میں اعلیٰ صفت ہوگا اور بنی اسرائیل کو ایسی شان و شوکت بخش دیگا جو ہر دور میں قائم رہے گا
یہ سُن کر فرعون بیحد خوفزدہ ہوا اور اُس نے حکم جاری کیا اب بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہو،اس کو ختم کیا جائے
اس نے مصری
3/ دائیوں کو بھی حکم دیا کہ وہ عبرانی خواتین کی بوقت زچگی نگرانی کرے اور پیدا ہونیوالے بچے کا معائنہ کرے کہ کہیں وہ لڑکا تو نہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کو دریائے نیل میں غرق کیا جائے یا ماردیا جائے۔(جوزیفس۔کتاب دوم۔باب)-

اسی مشکل دور میں بنی اسرائیل کے لاوی قبیلے کے ایک
4/ بامرتبہ شخص ”عمران“ کی بیوی”یاخوبد“ Jochebed کے ہاں موسیٰ علیہ السلام کی پیدائشِ باسعادت ہوئی
فرعون کے ڈر سے انہوں نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا بنایا اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس میں رکھ کر ان کو دریا کے حوالے کردیا
قدرت الٰہی سے ٹوکرا بہتے بہتے
5/ فرعون کے محل جا پہنچا۔ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنھا محل میں دریا کے کنارے بیٹھی تھیں۔ انہوں نے یہ ٹوکرا دیکھا تو ان کو پانی سے نکلوایا، دیکھا کہ ٹوکرے میں ایک معصوم بچہ اپنی انگلی چوس رہا ہے
اس نے اس معصوم بچے کو اپنا بیٹا بنایا اور اس کا نام ”موسیٰ“ عبرانی میں
6/ ”موشے (Moshéh or Moshe) جس کے معنی ہے ”پانی سے نکلا ہوا“رکھا۔ کیونکہ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے آپ کو پانی سے نکالا تھا
حضرت آسیہ نے موسیٰ علیہ السلام کودودھ پلا نے کے لئے جس عورت کو منتخب کیا قدرت الٰہی سے وہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ تھیں
حضرت موسیٰ علیہ
7/ السلام کی پرورش اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن فرعون کے محل میں کی لیکن دودھ اپنی والدہ محترمہ کا پیتے رہے
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں شاہی ماحول میں شاہی تعلیم و تربیت حاصل کرکے جوان ہوئے۔ آپ قوی ہیکل نوجوان تھے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ موسیٰ علیہ
8/ السلام گندم گوں اور دراز قد تھے (بخاری شریف۔کتاب الانبیا)
اللہ تعالیٰ نے جسمانی طاقت کے علاوہ علم و حکمت اور اچھی سیرت سے بھی نوازا تھا۔موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ابتدائی چالیس سال فرعون کے محل میں گزرے

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر میں اسرائیلیوں کی محکومیت اور ان کی
9/ بدحالی کا شدت سے احساس تھا۔وہ اکثر گشت پر نکل کر بنی اسرائیل کی حالت کا جائزہ لیتے اور اپنی قوم بنی اسرائیل کی حالت زار پر غمگین ہو جاتے

آپ ایک دن مصر کے بازار میں سے گزر رہے تھے، دیکھا کہ ایک مصری قبطی ایک اسرائیلی پر تشدد کر رہا ہے۔آپ سے رہا نہیں گیا لہذاآپ نے قبطی سے
10/ اسرائیلی کو چھڑانا چاہا۔اس صورتحال میں آپ نے اس قبطی کو ایک مکا مارا۔ آپ کا مکا وہ قبطی سہہ نہ سکا، وہ ایسے گرا کہ مر گیا اور اسرائیلی بھاگ گیا۔
شہر میں مصری کے قتل کی خبر پھیل گئی مگر قاتل کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔اگلے دن جب موسیٰ علیہ السلام پھر بازار میں سے گزر رہے تھے
11/ تو دیکھا کہ اسی اسرائیلی کو ایک اور قبطی مار رہا ہے۔ آپ اسرائیلی پر بھی غصے ہوئے اورجب اس کو چھڑا رہے تھے تو اسرائیلی چِلا اُٹھا کہ اس قبطی کو ایسے نہ مارنا کہ جیسے کل ایک مصری کو مارا تھا
پھر کیا ہوا کہ بات پھیلتے پھیلتے مقتول کے ورثا اور فرعون تک پہنچ گئی۔ اُس نے موسیٰ
12/ کی گرفتاری کا فرمان جاری کیا۔موسیٰ علیہ السلام کو یہ اطلاع ایک معزز مصری نے پہنچائی۔ چنانچہ آپ فرعون کے شر سے بچنے کے لئے مصر چھوڑ کر تک و تنہا بغیر سواری اور زاد راہ کے،جزیرہ نما سینا کی طرف روانہ ہوئے اور اسی پریشانی میں چالیس دن سفر کر کے مدین جا پہنچے۔
مدین حجاز کے
13/ شمال اور مصر کے مشرق میں واقع تھا۔قوم مدین در اصل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت قطورہ کے بیٹے مدین کی نسل میں سے تھی۔اسی قوم میں حضرت شعیب علیہ السلام بھی مبعوث ہوئے
جس بزرگ کے آپ قیام پذیر ہوئے،اُن کا نام قرآن کریم میں نہیں لیا گیا۔اس سلسلے میں علماء اسلام میں مختلف
14/ خیالات پائے جاتے ہیں۔ اُن میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام تھے اور غالب گمان بھی یہی ہے کہ وہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السلام تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس جلاوطنی میں مسلسل چالیس سال گزاردئیے۔آپ کی شادی حضرت صفورہ رضی اللہ عنھا سے ہوئی۔محل میں نازوں
15/ میں پلنے والے موسیٰ علیہ السلام اب مدین کے دشت و بیابان میں گلہ بانی کرنے لگے

اس دوران فرعونِ مصر مر گیا اور اس کا بیٹا رعمسسؔ دوم تخت نشین ہوا۔یہ فرعونِ مصر بھی بنی اسرائیل کا سخت مخالف تھا۔ اہلِ مصر کے ظلم اوربنی اسرائیل کی بدترین مظلومیت پر رحمتِ الٰہی کو جوش آیا اور
16/ موسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے سر فراز فرمایا۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کو حکمِ الٰہی ملا کہ مصر جاکر فرعون کو دین حق کی دعوت دیں اور بنی اسرائیل کو مصریوں کے ظلم سے نجات دلائیں
ہوا یوں کہ ایک دفعہ آپ اپنے اہل و عیال سمیت بکریاں چراتے چراتے مدین کی بستی سے دور کوہِ طور کے دامن
17/ میں وادیئ طویٰ میں داخل ہوئے۔ رات ہوئی اور سردی سے بچنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی۔
رات کے اندھیرے میں دور کہیں آگ نظر آئی، چنانچہ جب آپ چلتے چلتے اس آگ کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ ایک درخت آگ کی طرح روشن ہے. درخت پر روشنی تو ہے مگر اس کی شاخیں اور پتے جل نہیں رہے
18/ ہیں۔آپ نور سے منور درخت کے قریب جاتے تو وہ دور ہوجاتی۔یہ منظر حیرت ناک تھا۔آپ اس پُر جلال منظر سے ڈر گئے اور واپس ہونے لگے کہ اُن کو ایک ندا سنائی دیں۔قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
”اے موسیٰ!میں ہوں , میں اللہ، پروردگار جہانوں کا، پس جب موسیٰ اس (آگ) کے قریب آئے
19/ تو پُکارے گئے اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگارؔ پس اپنی جوتی اُتار دے تُو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ! میں نے تُجھ کو اپنی رسالت کے لئے چُن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جا تی ہے اس کو کان لگا کر سُن۔(طٰہ)۔
تورات میں لکھا ہے:۔
”جب خدا نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا
20/ رہا ہے تو خدا نے اُسے جھاڑی میں سے پُکارا اور کہا اے موسیٰ! اے موسیٰ! اُ اس نے کہا میں حاضر ہوں O تب اُس نے کہا ادھر مت آ۔اپنے پاؤں سے جُوتا اتار کیونکہ جس جگہ تُو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہےOپھر اس نے کہا کہ میں تیرے باپ کا خدا ہوں یعنی ابراہیم کا خدا اور اسحاق کا خدا اور
21/ یعقوب کا خدا ہوں،موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھاOاور خداوند نے کہا میں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصرؔ میں ہیں خوب دیکھی اور اُن کی فریاد جو بیگار لینے والوں کے سبب ہے سُنی اور میں اُن کے دکھوں کو جانتا ہوں O اور میں اُترا ہوں کہ اُن کو مصریوں
22/ کے ہاتھ سے چھُڑاؤں اور اُس ملک سے نکال کر اُن کو اچھے اور وسیع ملک میں جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے یعنی کنعانیوں اور حِتّیوں اور اموریوں اور فرزّیوں اور حوّیوں اور یبوسیوں کے ملک میں پہنچاؤں O دیکھ بنی اسرائیل کی فریاد مجھ تک پہنچی ہے اور میں نے وہ ظلم بھی جو مصری اُن پر
23/ کرتے ہیں دیکھا ہےOسو اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تُو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لا ئے)O(خروج۔باب3)۔

اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نبوت کے لئے چن لیا اور اُن کو یہ ذمہ داری بخشی کہ وہ فرعون کو دعوت حق دے اور اپنی قوم بنی اسرائیل کو
24/ مصریوں کی غلامی سے نجات دلا ئے۔
خالقِ کائنات نے اپنے پیغمبر کو نبوت کی نشانی کے طور پر دو معجزات”عصا“ اور ید بیضا“ عطا فرمائے۔جب آپ اپنے دوُ شاخہ عصا کو زمین پرپھینکتے تو وہ قدرتِ الٰہی سے اژدہا بن جاتا۔ اپنے ہاتھ مبارک کو گریبان کے اندر ڈال کر دوبارہ نکالتے تو وہ سورج سے
25/ زیادہ روشن ہو جاتا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھائی حضرت ہارون کو اپنا نبی اور آپ کا وزیر مقرر فرمایا۔آپ نے چالیس سال اس صحرا میں منشا الٰہی سے گزار کر صحرا نوردی کی خصوصی تربیت حاصل فرمائی کیونکہ مستقبل میں آپ نے اپنی قوم کے ہمراہ ایک بار پھر صحرا کی پر مشقت زندگی بسر کرنی
26/ تھی۔
چالیس سال کی صحرا نشینی کے بعد بحکمِ خداوندی آپ دوبارہ مصر واپس لوٹے اور سیدھا اپنی قوم کے پاس گئے اور قوم کے بڑوں،بزرگوں کو جمع کرکے اُن کودعوت حق دی اور ان کو مصریوں کی غلامی سے نجات کی خوشخبری سنا ئی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے
27/ ہمراہ خدا کے حکم سے فرعون کے دربار شاہی تشریف لے گئے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی تھی کہ خدائی کا دعویٰ کرنیوالے فرعونِ مصرکو نرمی سے دعوت دو، شاید کہ وہ دینِ حق قبول کرلے۔
آپ نے فرعون کے دربار میں اس کو دین حق کی دعوت دی۔آپ نے فرمایا کہ اے فرعون! ہمیں آسمان اور
28/ زمین کے رب نے اپنا اہلچی بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے کہ ایک تو تم اپنی خدائی کا دعویٰ چھوڑ کرخدائے واحد پر ایمان لاؤ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ اور ان کو اپنی غلامی سے آزاد کر دے۔
فرعون نے دعوت قبول کر نے کی بجائے بحث و تکرار شروع کی۔ جناب موسیٰ
29/ علیہ السلام نے دلائل دے دے کر اس کو سمجھانے کی کوششیں کیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اورنبوت کی نشانی کے طور پر اپنے دومعجزات پیش کئے لیکن فرعون نے معجزات کو ”جادو“ کہہ کر مسترد کر دیا
فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جادوگروں کے ساتھ مقابلہ کا چیلنج دیا۔ بعد میں ایک مقررہ دن
30/ فرعونی سلطنت کے جادوگروں نے جادو کے کرتب دکھائے لیکن اللہ کی قدرت سے وہ ناکام ہو ئے۔
جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے،فتح حق کی ہوئی۔ فرعون کے جادوگر معجزات سے متحیر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے سب سے بڑے جادوگر ہیں اور جادو کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ہم بیشک جادوگر ہیں لیکن
31/ موسیٰ جادوگر نہیں بلکہ خدائے واحد کا نبی ہے۔ وہ تمام جادوگر مشرف بہ اسلام ہو ئے۔ یہ فرعون کی پہلی شکست تھی جس پر وہ تلملا کر رہ گیا۔
بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو بار بار دعوت حق دی۔ جناب موسی علیہ السلامٰ نے کہا کہ اگر تو مسلمان نہیں ہوتا تو تیری مرضی،مگر
32/ میری قوم کو تو اپنی غلامی سے آزاد کرکے مصر سے ہجرت کرنے کی اجازت دیدے۔
لیکن فرعون کسی قیمت پر نہ مانا۔تب موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے اہل مصر پر قدرت الٰہی سے مسلسل یکے بعد دیگرے قسم قسم مثلاً وبا، جوؤں کی کثرت، مینڈکوں کی بھرمار، پانی کا خون آلود ھونا، وبا سے مویشیوں
33/ کا مرجانا وغیرہ کے عذاب نازل ہوتے رہے۔ بالآخر فرعون کو اپنی جان کے لالے پڑے تو وہ اس بات پر تیار ہوا کہ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرکے ان کو مصر سے جانے دے۔

1446 ق م کے موسمِ بہار میں اسرائیلی قوم نے مصرؔ سے خروج کیا۔(قاموس الکتاب،صفحہ94)
یہودی روایات کے مطابق یہودی
34/ مہینے نسان کی پندرہ تاریخ کو چھ لاکھ مردوں (جن میں خواتین اور بچوں کی تعدادشامل نہیں) پر مشتمل افراد کا عظیم الشان قافلہ فرعونی سلطنت کے داراسلطنت رعمسیس سے براستہ سکات فلسطین کی طرف روانہ ہوا۔بعد میں اسی تاریخ سے بنی اسرائیل نے یہودی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ اُس تاریخی
35/ موقع کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی پہلی عید ”عیدِ فسخ یا عید فطیر“ منائی جاتی ہے۔بنی اسرائیل اور بنی اسرائیل کی باقیات یعنی قوم یہود عظیم خروج یعنی ہجرت کو قوم کی تاریخ کا سنگ میل قرار دیتی ہے کہ جس نے بنی اسرائیل کو ایک باقاعدہ قوم اور ملت کی صورت دیدی۔
خود قرآن کریم بھی
36/ دور موسوی سے بنی اسرائیل کو ان کے نام بنی اسرائیل سے مخاطب کرتی ہے۔
بنی اسرائیل کا قافلہ حکم الٰہی سے مصر سے سیدھا فلسطین جانے کی بجائے اُس طویل راستے پر گامزن ہوا کہ جس کی راہ میں بحر قلزم کا شمالی سرا(موجودہ خلیجِ سوئز) پڑتا تھا۔نزدیکی، مختصر اور خشکی کے راستے سفر کر نے
37/ کی بجائے بحیرہ قلزم کے راستے فلسطین جانے کی کئی وجوہات تھیں۔
(1)۔نزدیکی اور مختصر راستے کو اپنانے میں کنعانیوں سے براہ راست تصادم یقینی تھا جس کی سخت غلامی سے تازہ ترین نجات پانے والے کم ہمت اسرائیلیوں میں ہرگز جرآت نہیں تھی۔
(2)۔اللہ کے باغی فرعون اور اس کے لشکر کو پانی
38/ میں غرق کرناتھا۔
(3)۔طویل اور کٹھن مسافتوں کے ذریعے بنی اسرائیل کی جسمانی،ذہنی،اخلاقی،نفسیاتی اور مذہبی تربیت کرنا تھا۔
(4)۔وادیئ سینا میں کوہ طور پر موسیٰ علیہ السلام کو شریعت عطا کرنا بھی مطلوب تھا۔
فرعون نے اگرچہ پہلے پہل تو بنی اسرائیل کو جانے دیا لیکن ان کے روانہ
39/ ہونے کے بعد اہل مصر سخت پشیمان ہوئے کہ اب ان کی خدمت کون کرے گا، کون ان کے مندر بنائے گا، کون اُن کے شہر،ان کے اہرام،ان کے بازار،ان کے گھر،ان کے کام کاج کرے گا۔چنانچہ فرعون کا ارادہ بدلا اور وہ بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنی غلامی میں لینے اُن کے تعاقب میں بمع لاؤ لشکر کے تیز
40/ رفتاری سے روانہ ہوا۔
بنی اسرائیل نے غلامی سے ابھی ابھی تازہ نجات پائی تھی اور اُن کے دل و دماغ ابھی ایمان کی نورانیت سے خالی تھے۔ یہی وجہ ہےکہ جب انہوں نے دور سے بہت بڑی دھول اڑتی دیکھی تو سمجھ گئے کہ فرعون ان کے تعاقب میں ان تک پہنچنے ہی والا ہے. وہ بیحد خوفزدہ ہوئے۔انہوں
41/ نے موسیٰ علیہ السلام سے سخت احتجاج کیا کہ فرعون کے لشکر کے ہاتھوں مرنے سے بہتر تھا کہ ہم اس کی غلامی میں زندہ رہتے۔بہت سے لوگ واپس جانے کی باتیں کرنے لگے۔ تورات میں ہے:۔
”جب فرعون نزدیک آگیا تب بنی اسرائیل نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا کہ مصری اُنکا پیچھا کئے چلے آتے ہیں اور وہ
42/ نہایت خوفزدہ ہوگئے۔تب بنی اسرائیل نے خدا سے فریاد کیO اور موسیٰ سے کہنے لگے کیا مصرؔ میں قبریں نہ تھیں جو تُو ہم کو وہاں سے مرنےکے لئے بیابان میں لے آیا ھے؟ تُو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہمکو مصر سے نکال لایاO کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم
43/ مصریوں کی خدمت کریں؟کیونکہ ہمارے لئے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتاO۔(خروج۔باب41-11)

تب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے مدد مانگی۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی عصا سمندر کے پانی پر مار۔ پھر بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا پہلا معجزہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ
44/ ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر قلزم دو حصوں میں تقسیم ہوا اور درمیان میں بنی اسرائیل کے لئے راستہ بنا جو بالکل خشک تھا۔بنی اسرائیل اپنے مال مویشی سمیت اس راہ پر ہو لئے۔ادھر بنی اسرائیل کا آخری فرد سمندر کے دوسرے یعنی مشرقی کنارے پہنچا، اُدھر فرعونی لشکر ان کے تعاقب میں ان کی نقش
45/ قدم پر چلتا چلتا سمندر کے وسط میں پہنچا۔ تب اللہ کے حکم سے بحر قلزم کا پانی ایک دوسرے سے جا ملا اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت تیز و تند لہروں میں ڈبکیاں کھانے لگا۔
موت کے منہ میں جا کر جب ناپائیدار بادشاہی اور جھوٹی خدائی کا نشہ اُترا تو وہ خوف سے چلا اٹھا کہ اے موسیٰ میں
46/ تیرے خدا پر ایمان لاتا ہوں۔لیکن فرعون عذاب الٰہی کی لپیٹ میں آچکا تھا لہذا اس کی توبہ قبول نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون (رعمسیس دوم) کو بحر قلزم میں غرق کرکے اس کی لاش کو آنیوالے زمانوں کے لئے محفوظ فرمادیا۔آج بھی مصر کے سرکاری عجائب گھر میں بحر قلزم میں سے غرق ہونے
47/ والے فرعون ”رعمسیس دوم“ کی غیر حنوط شدہ لاش موجود ہے۔کیونکہ اللہ نے اعلان فرمایا تھا کہ اس کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ کیا جائے گا:۔
اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے یہ حال تھا کہ نافرمانی کرتا رہا اور فسادکئے چلا گیا۔اچھا آج ہم تیری لاش کو بچائے لیتے ہیں تاکہ تو بعدکی نسلوں کے
48/ لئے نشانِ عبرت بنا رہے۔(سورۃِ یونس۔09-29)
بنی اسرائیل، صدیوں تک بت پرست مصریوں کی غلامی نے جہاں اس قوم کی غیرت اور ہمت چھین لی تھی،وہیں ان کا ایمان بھی نہیں رہا تھا اور وہ بت پرستی میں مبتلا ہو گئے تھے، انہوں نےجب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھا کہ اللہ نے ان کو بچا
49/ دیا اور ان کے دشمن کو پانی میں غرق کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ پر اور موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر دوبارہ ایمان لائے۔
اس کے بعد وہ لوگ جبل موسیٰ میں آباد ہوئے۔ جہاں موسیٰ کو دس احکام موصول ہوئے۔ 40 سال صحرا میں بھٹکنے کے بعد جبل نیبو میں میدان تیہ پر جناب موسیٰ علیہ السلام
50/ انتقال کر گئے۔
حضرت موسیٰ علیه السلام کے بارے میں ہماری احادیث کے منابع میں یوں آیا هے کہ حضرت عزرائیل ع حضرت موسی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر هوئے، سلام کیا اور ان سے کہا کہ : میں خدا کے حکم سے آپ کی روح قبض کرنے کے لیے آیا هوں- حضرت موسی علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے
51/ بعد حضرت عزرائیل انسان کی صورت میں ظاهر هوئے اور حضرت موسی علیہ السلام کے لیے "تیّہ" نامی جگه پر قبر کھودی- اس کے بعد منادی نے آسمان سے فریاد بلند کی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے هیں-
#پیرکامل
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with 💎 پـیــــــKamilــــــر™

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!