My Authors
Read all threads
#قران اوراسکی براہموسماجی #تفسیر
دورحاضر میں جہاں ایک طرف ملحدین کےسیلاب نےزورپکڑا ہےوہیں دوسری طرف شریعت بیزاری بھی عروج پرہے۔ ایک طبقہ جہاں رسولؐ الله کی سنتوں کاانکارکیےجارہاہے, وہاں ایک دوسراطبقہ قرآن پاک کی بعض آیات سےیہ استدلال پیش کرتاہےکہ
#QuranicReflection #Ghamdi #غامدی
خاتمہ بالخیرکےلیےایمان بالرسالتؐ کوئی بنیادی حیثیت رکھتاہی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ طبقہ ساری دنیا میں ہی کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہےمگر برصغیرکےمخصوص سیاسی،سماجی اورمذہبی پس منظر کی وجہ سےزیادہ زور پکڑگیاہے۔دراصل ہندو مذہب میں آستھایاعقائد کی بجائےسنسکرتی یاریت رواج کی اہمیت زیادہ تھی
لہذادین کواپنی خواہشات کےمطابق موڑنایہاں چنداں مشکل کام نہیں تھا۔ مغل شہنشاہ اکبرکےدین الہی سےلیکربیسویں صدی کےبرابمو سماج تک،ہر تحریک میں کہیں نہ کہیں سیاسی مقاصد کےساتھ ساتھ اسلام بیزاری کانظریہ بھی پنہاں تھا۔ مقامی پیری فقیری نےبھی معاملہ کومزید گہراکیا ہے،
مندرمسجد ھکڑو نورکی آوازیں مسلمان صوفیاءکی طرف سےلگائی گئی ہیں-گویا وحدت ادیان کےفلسفےکی آبیاری کےلیےسرزمین ہندوستان بہترین کرداراداکرتی رہی ہے-جبکہ دوسری طرف اسلام کامعاملہ اسکےبالکل برعکس ہے۔ایک آفاقی مذہب ہونےکےناطےکسی علاقے کےمقامی رسم و رواج اسکےمزاج میں ثانوی حیثیت رکھتےہیں
اوربنیادی اہمیت عقائد اورپھرعبادات کی ہوتی ہے۔گویادین کی اساس سنسکرتی پرنہیں ہے۔ اسلام کےبنیادی عقائد میں عقیدہ رسالت بھی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
"رسول اُس ہدایت پرایمان لایا ہےجو اس کےرب کی طرف سےاس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں،
انہوں نےبھی اس ہدایت کودل سےتسلیم کرلیا ہےیہ سب اللہ اوراس کے فرشتوں اوراسکی کتابوں اوراس کےرسولوں کو مانتےہیں اوران کاقول یہ ہے کہ:"ہم اللہ کےرسولوں کوایک دوسرے سےالگ نہیں کرتے،ہم نےحکم سنا اوراطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سےخطا بخشی کےطالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے﴿۲۸۵﴾"
سوره بقرہ کی اس آیت سےیہ واضح ہےکہ ایمان بالرسالت عقائد کالازمی حصہ ہے۔ اسی قسم کامضمون سوره نساء کی آیت ۱۳٦میں بھی ہے۔ نبی پاکؐ اور قرآن پرایمان رکھنےکا لازمی نتیجہ گویااپنےآپ کو شریعت میں باندھ لینا ہے، اس سےفرارکا ایک آسان حل یہ نکالاگیاہےکہ قرآن سےیہ استدلال پیش کردیا جاہے کہ
رسالت نبوی اورقران پرایمان رکھنابنیادی ضروریات میں سےنہیں ہے، محض ایک معبود اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوہےمعروف کےمطابق نیک کام کرلیےجائیں تومقصود اصلی حاصل ہوجائےگا بشرط یہ کہ آپ مسلمان، یہودی، صابی یانصرانی ہوں۔ اور اس سلسلے میں سورہ بقرہ (٦٢) کی ایک آیت کے ساتھ ساتھ سورہ مائدہ
کی بعض آیات پیش کی جاتی ہیں۔ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے جو ذوالقعدہ ٤ ہجری میں نازل ہوئی، دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ سوره الاعراف جو کہ مکی سورت ہے، اس کی آیت ۱۵۸ میں اعلان کیا گیا ہے کہ رسول الله کی بعثت تمام انسانیت، بلا تفریق اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب کے لئے ہے۔
مزید یہ کہ آیت ۱۵۷میں اہل کتاب سےخصوصی طور پرکہاگیا ہےکہ اس رسولؐ پرایمان لےکرآئیں جس کاذکروہ اپنی کتابوں میں پاتےہیں اوراپنےآپ کو اس پیغمبرؐ کی لائی ہوئی شریعت کےمطابق ڈھالیں۔ سورہ اعراف کی ان دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ اہل کتاب یعنی یہودیوں، صابیوں اور نصرانیوں پر بھی نبی پاک ﷺ
پر ایمان لانا لازمی تھا۔ ٣ ہجری میں سورہ آل عمران نازل ہوئی (یعنی سورہ مائدہ سے قبل)، اس کی آیات ١٩ تا ٢١ میں پھر واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ الله کے نزدیک دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ اور جو لوگ الله کی آیات کا انکار کر رہے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب کی وعید بھی دی گئی ہے۔
سوره آل عمران اورسوره الاعراف کےاتنےواضح بیان کےباوجود بھی سوره بقرہ کی آیت ٦٢ اور سوره مائدہ کی آیت ٦٩سےبعض لوگوں نےوہ نتیجہ نکالنےکی کوشش کی ہے جس سے ایمان بالرسالت اور ایمان بالقران بالکل ہی معطل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایمان بالرسالت کا انکار دراصل سنت کے انکار پر منتج ہوتا ہے
سوره مائدہ کی آیت ٦٩میں ارشاد ہوتاہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(٦٩)

یہی آیت الفاظ کےچند فرق کےساتھ سوره بقرہ میں بھی آئی ہے
آیت کی تشریح سے پیشتر یہ بتانا ضروری ہے کہ ہر زبان میں حروف جر اور حروف عطف کے معنی لازماً متعین نہیں ہوتے۔ بلکہ جملے کی ساخت اور سیاق و سباق ان کے معنی کا تعین کرتے ہیں کہ کسی جر یا عطف کا مراد حقیقی کسی مخصوص کلام میں کیا ہے۔ سوره مائدہ کی زیر بحث آیت کے ابتدائی حصے میں
تین دفعہ حرف "و" یا "واؤ" آیا ہے۔عربی زبان مین حرف "واو" کے نو (۹) معنی بیان کیے جاتے ہیں، جن میں سے بیشتر استعمالات قرآن میں بھی آئے ہیں۔

اس ابتدائی حصے کا ترجمہ بجز 'واو' کے یوں بنے گا :
بیشک جو لوگ ایمان لائے "واؤ" وہ جو یہودی ہوئے "واؤ" صابی "واؤ" نصاریٰ۔
اس آیت میں "واؤ" کی عطف کومشارکی مان کریعنی کہ اس کو"اردو زبان کےاور" کےمعنوں میں لےکر آیت کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے:
"بیشک جو لوگ ایمان لائے 'اور' وہ جو یہودی ہوئے' اور' صابی' اور' نصاریٰ، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا،اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے
اس ترجمہ کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مسلمان، یہودی، صابی، اور نصاریٰ چاروں گروہوں کو الله کی نظر میں ایک درجہ پر پہنچادیا جاتا ہے۔ اور ان گروہوں میں سے جو بھی الله، اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال کرے گا وہ الله کی نظر میں کامیاب ٹھہرے گا
قطع نظر اس کے کہ سوره بقرہ کی آیت ٦٢ اور سوره مائدہ کی آیت ٦٩ کے سیاق و سباق اس براہمو سماجی تفسیر کی اجازت دے بھی رہے ہیں کہ نہیں، یہ دیکھ لیا جائے کہ آیا حرف عطف "واؤ" قرآن میں کیا ہمیشہ مشارکی طور پر بمعنی "اور" کے ہی آیا ہے یا تخییری طور پربمعنی "خواہ" کے بھی آیا ہے۔
ذیل میں اب قرآن سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جہاں "واو" کا استعمال 'اردو کے اور' کی بجائےعطف تخییری یعنی' خواہ 'کے طور پر آیا ہے:
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ۔۔۔۔۔ ﴿سورہ نساء، ۳﴾
جوعورتیں تم کوپسند آئیں اُن میں سےدو دو "خواہ" تین تین "خواہ" چارچار سےنکاح کرلو، لیکن اگرتمہیں اندیشہ ہوکہ اُن کےساتھ عدل نہ کر سکوگے تو پھرایک ہی بیوی کرو ۔۔﴿۳﴾ مذکورہ بالا آیت میں مثنیٰ، ثلث اورربع کے درمیان میں آنےوالے 'واو' کو اگرمشارکی یعنی 'اور' کے معنوں میں لیا جائے تو
تو ایک مرد کےلیےزیادہ سےزیادہ کی حد ٤کی بجائےدو جمع تین جمع چار یعنی ٩بنےگی جو درست نہیں، یہاں بتایاجارہا ہےکہ اگرایک سےزائد نکاح کی خواہش ہےتو ٤بیویوں تک رکھی جاسکتی ہیں۔گویا مثنیٰ،ثلث اورربع کے درمیان میں آنےوالے'واو' مشارکی نہیں تخییری ہیں اوراس 'واو' کا اردو ترجمہ 'خواہ 'ہوگا
سورہ نساء ہی کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿ سورہ نساء،١٣٦﴾
جس نے اللہ سے "خواہ" اس کے ملائکہ سے "خواہ" اس کی کتابوں سے "خواہ" اس کے رسولوں سے "خواہ" روز آخرت
سے کفر کیا وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا ﴿ ١٣٦﴾

اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ ایمانیات کے لوازم توحید،ملائکہ، کتب سماوی، رسل یا عقیدہ آخرت میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا گیا، تو انسان گمراہ ہوگیا، یہاں بھی 'واو' تخییری ہی ہے، مشارکی نہیں ہے
ان مثالوں کےعلاوہ بھی قرآن سےمتعدد مثالیں ملتی ہیں،جہاں 'واو' بمعنی 'خوا ہ'کےآیا ہےنہ کہ بمعنی'اور'کے۔ 'واو'کےاس قرانی استعمال کی وضاحت کے بعد سورہ مائدہ کی آیت ٦٩ کےترجمہ کےلیےاس کی تقریر کا سیاق وسباق دیکھ لیاجائےکہ یہاں آیت میں وارد'واو' کےمعنی مشارکی لیے بھی جاسکتےہیں یا نہیں
سورہ مائدہ اوروحدت ادیان:
سوره مائدہ میں اہل کتاب سےبراہ راست خطاب آیت ١٢سےشروع ہوجاتا ہے۔ اوراس خطاب کی پہلی آیت میں ہی اہل کتاب کورسولوں پرایمان لانے اوران کی مدد کرنےکےحکم کاذکرکیاگیا ہے۔ رسولوں پر ایمان اور ان کی مدد ان شرائط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں جن کےذریعہ وہ اہل کتاب جنت
جنت کے حقدار قرار پاتے۔ بصورت دیگر گمراہ گردانے جاتے۔

اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے ۔۔۔﴿۱۲﴾
آیت نمبر١٥میں پھریہی بات دہرائی گئی ہےاوراہل کتاب کےتمام گروہوں سےکہاگیاہےکہ ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہےاورہدایت کی کتاب قرآن بھی آگئی ہے۔آیت نمبر١٩ میں پھر ایمان بالرسالت کی بات ہوئی ہےکہ زمانہ فترت کےبعد اب پھرہمارارسول تمہارے پاس آگیا ہےجو دین کی تعلیم واضح طورپرتم کودےرہاہے
آیت نمبر ٤٤میں بتایاگیا ہےکہ جتنےبھی رسول تھےوہ سب مسلمان ہی تھے اور آیت نمبر٤٦ میں بتایا گیاہےکہ حضرت عیسیٰ کی بعثت بھی اسی ہی دین پرہوئی تھی جس پر انبیائے شابق یا حضرت موسیٰ تھے۔ توریت جتنی بھی ان کے دور میں موجود تھی انھوں نے اس کی تصدیق کی اور انجیل بھی اسی سلسلے کا تسلسل تھی
حضرت عیسیٰ کوئی الگ دین لے کر نہیں ائے تھے۔ آیت نمبر ٥١ میں مسلمانوں کو واضح حکم دیا گیا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائئیں، بصورت دیگر ان کا شمار ظالموں میں ہو گا۔ یعنی نبی پاکؐ جو کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کا تسلسل لیکر آئے تھے،
ان کا انکار کر کے یہودی اور عیسائی ظالموں کی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں۔
آیت نمبر ٥٩ میں پھر یہی بات دہرائی گئی ہے کہ اہل کتاب کا مسلمانوں سے حسد کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت کو قبول کر لیا ہے جو پہلے سے ہی نازل ہوتا رہا ہے
یت ٦٤ میں یہود کے اس نظریہ کا ابطال کیا گیا ہے کہ الله کی رحمت ان کے خاندان کے ساتھ خاص ہے جب کہ درحقیقت الله کے ہاتھ توبہت کشادہ ہیں۔ اب جو یہ ہدایت غیر اسرائیلی حضرت محمّدؐ پر نازل ہو گئی ہےتو اس چیز نے ان کے بغض اور عداوت کو زیادہ نمایاں کر دیا ہے۔
پھر آیت نمبر ٦٥ میں کہا گیا کہ اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے لئے بہتر ہوتا۔ ظاہر ہے یہاں پر ایمان باللہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ رسول خدا حضرت محمّدؐ کی رسالت اور قرآن پر ایمان کی بات ہو رہی ہے۔ پھر ٦٦ میں کہا گیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی کتابوں کو قائم کیا ہوتا تو بہتر ہوتا۔
واضح رہےکہ ان کی کتابوں میں ایک انےوالےرسول کےاشارےموجود ہیں۔

پھر آیت ٦٨ میں دوبارہ ان کوان کی کتابوں کو قائم کرنےکا حکم دیاگیا ہے۔ اتنی لمبی تقریر کے بعد وہ آیت نازل ہوئی ہے جس کو وحدت ادیان کے فلسفے سے جوڑا گیا ہے۔ اس پوری تقریر میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن پر زور ہے
جب کہ وحدت ادیان توانہی دونظریات کی مکمل طورپرنفی کرتاہے
آیت نمبر٦۹کےفوری بعد آیت۷۰میں پھراسی بات کااعادہ ہےکہ رسولوں کی مدد کا بنی اسرائیل سےعہد لیاگیاتھا۔ مگرجب بھی کوئی رسول ان کی خواہش کے برخلاف ہو گئے اور نبی پاکؐ کی توبعثت ہی انکی بنیادی خواہش یعنی غیر اسرائیلی خون میں تھی
تو اس لئےان کو جھٹلایا گیا۔
یہ کیونکر ممکن ہےکہ اک ہی تقریر میں ایمان بالرسالت اورایمان بالقرآن پر اتنا زوردیاجا رہاہو اوراس کےدرمیان ایک آیت اس عقیدے کی ١٠٠ فیصد نفی کر دے۔ اور یہ بات تو قرآن کے بنیادی دعوے کے بھی خلاف ہے کہ اگر اس کتاب میں اختلاف ہوتا تو یہ منجانب اللہ نہ ہوتی
ایک ایسی تقریر جس کا محور ہی ایمان بالرسالت ہو اس کی ایک آیت کی تفسیر اسی نظریہ کے بالکل خلاف جا رہی ہو تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے۔ جیسے یہاں مختلف گروہوں کے درمیان استعمال شدہ لفظ 'واو' کو مشارکی سمجھ لیا گیا ہے جبکہ یہاں پر یہ تخییری ہے۔
اوراس میں یہ کہاگیاہےکہ جو بھی بنی اسرائیل میں سےاس رسول پرایمان لایاخواہ وہ یہودی ہویاصابی ہویانصرانی ہو، اس کےلئےنیک وعدےہیں۔ اور واضح رہےکہ ابتداء میں جس ایمان کی بات کی گئی ہےوہ بنیادی طورپر ایمان بالرسالت اورایمان بالقرآن ہی ہے۔کیونکہ اس تقریرکابنیادی محوریہی دونوں چیزیں ہیں
اور کہا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے ان تینوں گروہوں میں سے جو بھی رسالت اور قرآن پر ایمان لایا، اور وہ الله اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ الله کے پاس سے بہتر اجر پائے گا۔
سورہ بقرہ اور وحدت ادیان:
سوره بقرہ میں یہ آیت(٦٢) جس تقریرکاحصہ ہے وہ آیت ٤٠سےشروع ہوتی ہے۔ تمہیدی آیت کےفوری بعدہی بنی اسرائیل سےقرآن مجید پرایمان لانےکامطالبہ کیاگیا ہے۔
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی،
لہٰذا سب سےپہلےتم ہی اس کےمنکرنہ بن جاؤ۔۔﴿٤١﴾
اس کےبعد آیت نمبر٤٣میں فرمایاکہ مسلمانوں کےساتھ تم اسرائیلی بھی الله کے سامنےرکوع کرو،واضح رہےکہ یہودی اپنی معمول کی نمازوں میں رکوع کااہتمام نہیں کرتےگویابنی اسرائیل سےمطالبہ کیاجارہاہےکہ شریعت محمدی پر اپنی نمازوں کو ڈھالو اور
مسلمانوں میں ہی شامل ہوجاؤ۔ گویا ایک طرح سے پھرایمان بالرسالت کا مطالبہ کیاجارہا ہے۔

اس کے بعد الله تعالیٰ نےبنی اسرائیل کواپنے پچھلےاحسانات اورانعامات کے حوالےدیےہیں، جن میں فرعون سے نجات، من و سلوی کی عنایت، توریت کا ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسکے بعد آیت ٦١ میں یہودیوں کی
طرف سے جواباً جو طریقہ کار اپنایا گیا اس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انھوں نے ان تمام عنایات کے بعد بھی الله کی آیات کا انکار کیا ہے اور اسکےپیغمبروں کو قتل کیا ہے۔
اس تمام تقریر کے بعد وہ آیت (٦٢) آئی ہےجس کو وحدت ادیان کی اساس مان لیاگیاہےکہ بنی اسرائیل سےوابستہ گروہ اپنےعقیدے پررہتےہوئےبھی اگرنیک اعمال کریں تووہ الله سے جنت کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہاں پر بھی وہی بات کی گئی جو کہ سوره مائدہ میں کی گئی یعنی واؤ کو تخییری کی بجائے مشارکی مان
لیا گیا ہے اور پھر آیت کے ابتدائی الفاظ "ان الذین امنو" یعنی 'جو لوگ ایمان لائے' کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اور پھر مسلمانوں کو یہودیوں، نصرانیوں اور صابیوں کے برابر کھڑا کر کے بتایا گیا ہے ان چاروں گروہوں میں سے جو بھی الله اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوے نیک عمل کرے گا اس کا
انجام بخیر ہو گا۔ گویا ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

جس تقریر کا آغاز ہی قرآن پر ایمان لانے کے مطالبے سے ہو وہ اپنے اختتام پر اس بنیادی نکتہ سے ہی ہٹ چکی ہو، یہ سقم تو کسی انسانی تقریر میں بھی ممکن نہیں تو ایک آفاقی تقریر میں کیونکر ممکن ہو سکتا ہے
دراصل یہاں پرکہاگیا ہےکہ بنی اسرائیل گروہوں میں سےجوبھی ایمان لائےاس چیزپرجس کاتقریر کےآغازمیں مطالبہ کیاگیایعنی کہ قرآن پر،اورایمانیات کےبقیہ اجزامثلاً توحید اورآخرت پرایمان رکھتےہوئےاعمال صالحہ کرےجن میں شریعت محمدی کےتحت نمازپڑھنابھی شامل ہےتووہ الله کی طرف سےانعام کاحقدارہوگا
حرف آخر:
دراصل ان آیتوں کوسمجھنےمیں اتنی بڑی دشواری اس امت کواس لیےآئی ہےکہ اس نےاس قرآن کوایک غیرمربوط کلام مان لیا ہے،گویاہر آیت اپنے اندرایک جدا مفہوم رکھتی ہے،جس کا اسکے ماقبل اور مابعد سے کوئی علاقہ نہیں، پہلی صدی کے اختتام سے ہی عراق میں ایک لابی اس کام کے لیے بیٹھ گئی تھی
کہ اس امت سےقران کس طرح چھیناجائے،تابعیوں کاروپ دھاری یہ قوم ہرآیت کےایک ایک لفظ کےوہ وہ معنی بتاتی جوکہ آیت کےربط سےثابت ہی نہیں ہوتاتھا۔ لہذا ان کےبتائےہوئےمعنوں کوامت نےبحیثیت مجموعی قبول کیاہو یانہیں،ان کےپیدا کردہ نظریہ کوضرور قبول کرلیاکہ قرآن کی متصل آیات میں کوئی ربط نہیں
اسی چیز کا شکار سورہ بقرہ کی آیت ٦۲ اور سورہ مائدہ کی آیت ٦۹ بھی بنی ہیں، کہ امت یہ فیصلہ ہی نہ کرپائی کہ یہاں 'واو' تخییری ہےنہ کہ مشارکی۔ بعض مفسرین نےیہ کہہ کرجان چھڑانےکی کوشش کی کہ یہ آیات منسوخ ہیں۔گویا قرآن میں نسخ کاعقیدہ مان کرپھرعراقیوں کےاصل مقصد کو تقویت پہنچا گئے کہ
محض قرآن سےہدایت کےاصول اخذ نہیں کیےجاسکتےکیونکہ اسکاایک حصہ باوجود تلاوت کےمنسوخ ہوچکاہے۔ ایک دوسراطبقہ وحدت ادیان کے فلسفےکی نظر ہوگیا اوربلواسطہ قرآن میں تضاد کےنظریہ کاقائل ہوگیا. ایک ایسانظریہ جس کو باربار قرآن کےچیلنج کےباوجود مشرکین مکہ اور مدینہ کے یہودی بھی نہ نکال پائے.
اب سورہ مائدہ کی اس آیت کاترجمہ پیش خدمت ہے۔
بیشک (بنی اسرائیل سےوابستہ گروہوں میں سےاس رسول اورکتاب پر)جوبھی ایمان لائیں خواہ یہودی ہوں خواہ صابی ہوں خواہ عیسائی ہوں،جوبھی اللہ اور روز آخر پرایمان لائےاورنیک عمل کرےبےشک اس کےلیے(بروز حشر)نہ کسی خوف کا مقام ہوگانہ رنج کا﴿٦۹﴾
Missing some Tweet in this thread? You can try to force a refresh.

Enjoying this thread?

Keep Current with Aleem Khan - 🇵🇰

Profile picture

Stay in touch and get notified when new unrolls are available from this author!

Read all threads

This Thread may be Removed Anytime!

Twitter may remove this content at anytime, convert it as a PDF, save and print for later use!

Try unrolling a thread yourself!

how to unroll video

1) Follow Thread Reader App on Twitter so you can easily mention us!

2) Go to a Twitter thread (series of Tweets by the same owner) and mention us with a keyword "unroll" @threadreaderapp unroll

You can practice here first or read more on our help page!

Follow Us on Twitter!

Did Thread Reader help you today?

Support us! We are indie developers!


This site is made by just two indie developers on a laptop doing marketing, support and development! Read more about the story.

Become a Premium Member ($3.00/month or $30.00/year) and get exclusive features!

Become Premium

Too expensive? Make a small donation by buying us coffee ($5) or help with server cost ($10)

Donate via Paypal Become our Patreon

Thank you for your support!