دورحاضر میں جہاں ایک طرف ملحدین کےسیلاب نےزورپکڑا ہےوہیں دوسری طرف شریعت بیزاری بھی عروج پرہے۔ ایک طبقہ جہاں رسولؐ الله کی سنتوں کاانکارکیےجارہاہے, وہاں ایک دوسراطبقہ قرآن پاک کی بعض آیات سےیہ استدلال پیش کرتاہےکہ
#QuranicReflection #Ghamdi #غامدی
"رسول اُس ہدایت پرایمان لایا ہےجو اس کےرب کی طرف سےاس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں،
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(٦٩)
یہی آیت الفاظ کےچند فرق کےساتھ سوره بقرہ میں بھی آئی ہے
اس ابتدائی حصے کا ترجمہ بجز 'واو' کے یوں بنے گا :
بیشک جو لوگ ایمان لائے "واؤ" وہ جو یہودی ہوئے "واؤ" صابی "واؤ" نصاریٰ۔
"بیشک جو لوگ ایمان لائے 'اور' وہ جو یہودی ہوئے' اور' صابی' اور' نصاریٰ، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا،اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ۔۔۔۔۔ ﴿سورہ نساء، ۳﴾
وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿ سورہ نساء،١٣٦﴾
جس نے اللہ سے "خواہ" اس کے ملائکہ سے "خواہ" اس کی کتابوں سے "خواہ" اس کے رسولوں سے "خواہ" روز آخرت
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ ایمانیات کے لوازم توحید،ملائکہ، کتب سماوی، رسل یا عقیدہ آخرت میں سے کسی ایک کا بھی انکار کیا گیا، تو انسان گمراہ ہوگیا، یہاں بھی 'واو' تخییری ہی ہے، مشارکی نہیں ہے
سوره مائدہ میں اہل کتاب سےبراہ راست خطاب آیت ١٢سےشروع ہوجاتا ہے۔ اوراس خطاب کی پہلی آیت میں ہی اہل کتاب کورسولوں پرایمان لانے اوران کی مدد کرنےکےحکم کاذکرکیاگیا ہے۔ رسولوں پر ایمان اور ان کی مدد ان شرائط کے ساتھ بیان کی گئی ہیں جن کےذریعہ وہ اہل کتاب جنت
اور خدا نے بنی اسرائیل سے اقرار لیا اور ان میں ہم نے بارہ سردار مقرر کئے پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے پیغمبروں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے ۔۔۔﴿۱۲﴾
آیت نمبر ٥٩ میں پھر یہی بات دہرائی گئی ہے کہ اہل کتاب کا مسلمانوں سے حسد کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت کو قبول کر لیا ہے جو پہلے سے ہی نازل ہوتا رہا ہے
پھر آیت ٦٨ میں دوبارہ ان کوان کی کتابوں کو قائم کرنےکا حکم دیاگیا ہے۔ اتنی لمبی تقریر کے بعد وہ آیت نازل ہوئی ہے جس کو وحدت ادیان کے فلسفے سے جوڑا گیا ہے۔ اس پوری تقریر میں ایمان بالرسالت اور ایمان بالقرآن پر زور ہے
آیت نمبر٦۹کےفوری بعد آیت۷۰میں پھراسی بات کااعادہ ہےکہ رسولوں کی مدد کا بنی اسرائیل سےعہد لیاگیاتھا۔ مگرجب بھی کوئی رسول ان کی خواہش کے برخلاف ہو گئے اور نبی پاکؐ کی توبعثت ہی انکی بنیادی خواہش یعنی غیر اسرائیلی خون میں تھی
یہ کیونکر ممکن ہےکہ اک ہی تقریر میں ایمان بالرسالت اورایمان بالقرآن پر اتنا زوردیاجا رہاہو اوراس کےدرمیان ایک آیت اس عقیدے کی ١٠٠ فیصد نفی کر دے۔ اور یہ بات تو قرآن کے بنیادی دعوے کے بھی خلاف ہے کہ اگر اس کتاب میں اختلاف ہوتا تو یہ منجانب اللہ نہ ہوتی
سوره بقرہ میں یہ آیت(٦٢) جس تقریرکاحصہ ہے وہ آیت ٤٠سےشروع ہوتی ہے۔ تمہیدی آیت کےفوری بعدہی بنی اسرائیل سےقرآن مجید پرایمان لانےکامطالبہ کیاگیا ہے۔
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی،
اس کےبعد آیت نمبر٤٣میں فرمایاکہ مسلمانوں کےساتھ تم اسرائیلی بھی الله کے سامنےرکوع کرو،واضح رہےکہ یہودی اپنی معمول کی نمازوں میں رکوع کااہتمام نہیں کرتےگویابنی اسرائیل سےمطالبہ کیاجارہاہےکہ شریعت محمدی پر اپنی نمازوں کو ڈھالو اور
اس کے بعد الله تعالیٰ نےبنی اسرائیل کواپنے پچھلےاحسانات اورانعامات کے حوالےدیےہیں، جن میں فرعون سے نجات، من و سلوی کی عنایت، توریت کا ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ اور پھر اسکے بعد آیت ٦١ میں یہودیوں کی
جس تقریر کا آغاز ہی قرآن پر ایمان لانے کے مطالبے سے ہو وہ اپنے اختتام پر اس بنیادی نکتہ سے ہی ہٹ چکی ہو، یہ سقم تو کسی انسانی تقریر میں بھی ممکن نہیں تو ایک آفاقی تقریر میں کیونکر ممکن ہو سکتا ہے
دراصل ان آیتوں کوسمجھنےمیں اتنی بڑی دشواری اس امت کواس لیےآئی ہےکہ اس نےاس قرآن کوایک غیرمربوط کلام مان لیا ہے،گویاہر آیت اپنے اندرایک جدا مفہوم رکھتی ہے،جس کا اسکے ماقبل اور مابعد سے کوئی علاقہ نہیں، پہلی صدی کے اختتام سے ہی عراق میں ایک لابی اس کام کے لیے بیٹھ گئی تھی
بیشک (بنی اسرائیل سےوابستہ گروہوں میں سےاس رسول اورکتاب پر)جوبھی ایمان لائیں خواہ یہودی ہوں خواہ صابی ہوں خواہ عیسائی ہوں،جوبھی اللہ اور روز آخر پرایمان لائےاورنیک عمل کرےبےشک اس کےلیے(بروز حشر)نہ کسی خوف کا مقام ہوگانہ رنج کا﴿٦۹﴾